کیا کیلیبری فونٹ مائیکروسافٹ کے آفیشل چینل سے 2005 میں ریلیز کی گئی تھی؟


گزشتہ مضمون میں ہم نے کیلیبری فونٹ کا تجزیہ کرنے والے فارینسک ماہر کی رائے اور اس پر جے آئی ٹی کا تجزیہ پیش کیا تھا۔ فارینسک ماہر رابرٹ ریڈلے کہتے ہیں کہ

ب۔ میں نے اس فونٹ کی شناخت کیلیبری کے طور پر کی ہے جو دونوں مصدقہ ڈیکلیریشن میں استعمال کی گئی ہے۔ لیکن کیلیبری تجارتی طور پر 31 جنوری 2007 سے پہلے دستیاب نہیں تھی اور اس طرح دونوں مصدقہ ڈیکلیریشین پر درست تاریخ نہیں ڈالی گئی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بعد کی کسی تاریخ میں تیار کی گئی ہیں۔

ج۔ یہ معلوم کرنا ممکن نہیں ہے کہ یہ کاپیاں کب بنائی گئی تھیں۔ ممکن ہے کہ روشنائی کی تاریخ کا تعین کرنے سے علم ہو سکے۔

اس پر جے آئی ٹی نے یہ نتیجہ نکالا ہے:

ا۔ برطانیہ میں موجود فارینسک ایکسپرٹ کی رپورٹ نے بغیر کسی شک و شبے کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ استغاثہ کی جانب سے سپریم کورٹ اور مس مریم صفدر کی جانب سے جے آئی ٹی میں پیش کی جانے والی دستاویزات میں دھوکہ دہی کی گئی تھی تاکہ عدالت کو یہ یقین دلایا جا سکے کہ وہ 2006 میں دستخط کی گئی تھیں، حالانکہ وہ اس برس اس فونٹ میں ٹائپ نہیں کی جا سکتی تھیں کیونکہ وہ فونٹ اس وقت تک متعارف نہیں کرائی گئی تھی۔

سب سے پہلے تو یہ نوٹ کریں کہ ماہر نے شبہ ظاہر کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ یہ معلوم کرنا ممکن نہیں ہے کہ کاپیاں کب بنائی گئی ہیں، ممکن ہے کہ روشنائی کے تجزیے سے علم ہو سکے۔ مگر اس شبے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے جے آئی ٹی نے حتمی نتیجہ نکال دیا ہے کہ دھوکہ دہی کی گئی ہے کیونکہ 2006 میں کیلیبری فونٹ دستیاب نہیں تھی۔

کلیبری فونٹ کے ڈیزائینر لوکاس ڈی گروٹ نے ہماری ایمیل کا جواب دیتے ہوئے یہ چیز مانی ہے کہ 2006 میں کیلیبری فونٹ کو استعمال کر کے دستاویز بنانا ممکن ہے (یہ جملہ ڈان کی خبر میں بھِی موجود ہے)۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے کیلیبری پر 2002 میں کام کرنا شروع کیا تھا اور فائنل فائلیں مائیکروسافٹ کو مارچ 2004 سے پہلے نہیں بھیجی تھیں۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ عین ممکن ہے کہ کسی نے لائسنس ایگریمنٹ پڑھے بغیر ہی یہ فونٹ ونڈوز وسٹا کی بیٹا ریلیز سے لے کر نیٹ پر کہیں پوسٹ کر دی ہوں۔ یہ ممکن ہے کہ کیلیبری فونٹ میں ایک دستاویز 2006 میں بنا لی جائے۔

“So in theory it would have been possible to make a document with Calibri in 2006”

اس کے بعد وہ اس معاملے پر اپنی رائے دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ انتہائی درجے کا کم امکان ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک ایک بہت نامعلوم سی اضافی فونٹ کو بیٹا آپریٹنگ سسٹم سے ڈاؤنلوڈ کر کے ڈیفالٹ فونٹ ٹائمز نیو رومن کی بجائے آفیشل ڈاکیومنٹ میں استعمال کرے گا۔

پھر وہ چند سوالات اٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ

یہ فونٹ بی ٹا آپریٹنگ سسٹم سے کمپیوٹر کے ماہرین کے ذریعے لی گئی ہو گی۔
ایک بالکل نامعلوم سی فونٹ کو کوئی 2006 میں ایک آفیشل دستاویز کے لئے کیوں استعمال کرے گا؟
اگر کیلیبری استعمال کرنے والا شخص فونٹس کا اتنا ہی شوقین تھا کہ اسے نئی کیلیبری فونٹ استعمال کرنی تھی، تو اسے یہ ثابت کرنے کے قابل ہونا چاہیے کہ دوسری دستاویزات بھی 2006 میں کیلیبری میں پرنٹ کی گئی تھیں اور یہ دستاویزات دوسرے لوگوں کے پاس ہونی چاہئیں۔

ڈی گروٹ صاحب کی رائے آپ نے سنی۔ اس معاملے کو دیکھتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ کمپیوٹر کے شوقین حضرات نے یہ فونٹ ونڈوز بی ٹا سے لے کر پہلے ہی ویب پر ڈال دی تھیں جہاں سے انٹرنیٹ استعمال کرنے والا کوئی عام سا شخص بھی انہیں ڈاؤنلوڈ کر کے استعمال کر سکتا تھا۔ دوسری یہ بات کہ لوکاس ڈی گروٹ اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ فونٹ 2006 میں استعمال کیا جانا ممکن تھا۔ اب مزید تحقیق کر کے ہی پتہ چلے گا کہ ڈاکیومنٹ لکھنے والا شخص یہ فونٹ روٹین میں استعمال کرتا تھا یا نہیں۔ یعنی یہاں سوال موجود ہے۔ جواب حاصل کیے بغیر نتیجہ نکالنا غلط ہو گا۔ فارینسک ماہر نے بھی اس معاملے پر سوال اٹھایا ہے۔ اس سوال کا جواب معلوم کیے بغیر ہی حتمی نتیجہ نکال لیا گیا ہے۔

بعض حلقوں کی جانب سے تواتر سے ایک بات یہ کہی جا رہی ہے کہ بیٹا ورژن آفیشل کام کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔ اسے بھی دیکھ لیتے ہیں۔

بڑی کمپنیوں میں، جن کا اپنا آئی ٹی کا ایک بڑا ڈیپارٹمنٹ ہوتا ہے، گروپ پالیسی کے ذریعے افراد کے سافٹوئیر وغیرہ انسٹال کرنے کی صلاحیت پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ آئی ٹی کا ڈیپارٹمنٹ ہر کمپیوٹر پر نظر رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر چھوٹی کمپنیوں میں عموماً آئی ٹی کا ڈیپارٹمنٹ ہی نہیں ہوتا اور ہر شخص اپنے کمپیوٹر کا بادشاہ ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ایک آدھ لڑکا رکھ لیا جاتا ہے جو کمپیوٹر کے چھوٹے موٹے مسئلے نمٹا لیتا ہے۔ ورنہ دفتر کے سٹاف میں سے ہی جس کا کمپیوٹر کا علم کچھ زیادہ ہو، وہ کمپیوٹر کے مسائل بھی دیکھتا ہے۔ وہ اپنی مرضی کا کوئی بھی سافٹوئیر انسٹال کر سکتا ہے۔ ایسے میں کسی کمپیوٹر پر نئی فونٹ کیا، ونڈوز وسٹا کا بیٹا ورژن بھی استعمال کیا جا رہا ہو تو اس پر حیرت نہیں کرنی چاہیے۔

ٹرسٹ کی ڈاکیومنٹ تیار کرنے والے جرمی فری مین کی فرم 1981 میں دو افراد نے قائم کی۔ اس وقت اس کی ویب سائٹ کے مطابق اس کے تین پارٹنر، دو کنسلٹنٹ اور تین سالیسٹر ہیں۔ ان کا سپورٹ سٹاف بھی ہو گا۔ برطانوی کمپنیوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والی ایک ویب سائٹ کے مطابق اس میں 20 کل وقتی ملازمین ہیں۔ آج سے گیارہ برس قبل اس فرم کا سائز کیا ہو گا؟ ظاہر ہے کہ افراد کی تعداد کے لحاظ سے اس وقت بھی یہ ایک چھوٹی کمپنی ہے جس کا اپنا آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔

پھر ایک مزید پہلو بھی ہے۔ آئیے چلتے ہیں مائیکروسافٹ کی ڈیویلپر سائٹ پر جہاں ایک شخص کچھ حیران پریشان سا بیٹھا ہے۔ 16 دسمبر 2015 کو مائیکروسافٹ کی فونٹس کی ٹیم کی طرف سے ونڈوز وسٹا کی نئی فونٹس کے متعلق ایک ویڈیو پوسٹ کی جاتی ہے۔

وہ شخص 18 دسمبر 2005 کو اس پر کمنٹ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ”میں نے ابھی یہ جانا ہے کہ میرے پاس یہ تمام فونٹس موجود ہیں۔ میں حیران ہوں کہ یہ میرے پاس کیسے آئیں؟ کیا کوئی شخص جانتا ہے کہ میرے پاس کیلیبری، کونسولاس، کیمبریا، کینڈارا، کونسٹینشیا اور کوربل کیوں ہیں؟“ اس کے بعد وہ اسی دن اپنا سٹیٹس اپ ڈیٹ کرتا ہے: ”پریشان مت ہوں، میرا خیال ہے کہ وہ ونڈوز سافٹ وئیر ڈیویلپمنٹ کٹ کے ساتھ آئی ہیں۔ میں نے کنسولاس کو اپنے ویژیول سٹوڈیو کی فونٹ بنا دیا ہے۔ یہ بہت اچھی ہے۔ آنکھ پر اس کا زور کورئیر سے بہت کم پڑتا ہے۔ میں نے (مائیکروسافٹ) آفس میں اپنی ڈیفالٹ فونٹ کو کیلیبری پر سیٹ کر لیا ہے“۔

یہ سافٹوئیر ڈیویلپمنٹ کٹ کیا ہوتی ہیں؟ یہ وہ پروگرامنگ لائبریریاں ہوتی ہیں جن کو پروگرامر استعمال کرتے ہیں اور اپنا نیا سافٹوئیر بناتے ہیں۔ جب مائیکروسافٹ نئی ونڈوز کا بی ٹا پروگرام چلا رہی ہوتی ہے تو ساتھ ساتھ پروگرامرز کے لئے اس نئی ٹیکنالوجی کی ”ایس ڈی کے“ بھی اپنے آفیشل چینلز سے فراہم کرتی ہے تاکہ وہ اس کے مطابق اپنے سافٹوئیر کو اپ ڈیٹ کر سکیں اور نئی ونڈوز کے نئے فیچرز سے فائدہ اٹھا سکیں۔

اوپر آپ ایک ڈیولیپر کا حال دیکھ چکے ہیں کہ اسے ”اس ایس ڈی کے“ کے ذریعے نئی فونٹس ملی ہیں تو وہ جی جان سے ان پر قربان ہو گیا ہے اور انہیں اپنی پروگرامنگ اور آفس کے لئے استعمال کرنے لگا ہے۔ چھوٹے لیول پر کام کرنے والے ایسے پروگرامر ہی چھوٹی کمپنیوں کو سافٹوئیر فراہم کرتے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایسے کسی پروگرامر نے وکلا کی اس فرم کے لئے کوئی سافٹوئیر بنایا ہو اور اس کے سیٹ اپ میں یہ فونٹ بھی ڈال دی ہو؟ وکلا کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور ان کے سسٹم پر یہ فونٹ انسٹال ہو چکی ہو گی۔ ایک دن وہ کسی ڈاکیومنٹ کے لئے ورڈ کے فونٹ باکس میں کوئی مناسب فونٹ تلاش کر رہے ہوں گے اور وہ بھی اسی پروگرامر کی طرح کیلیبری کے عشق میں مبتلا ہو گئے ہوں گے۔ کیا آپ کو خود اس بات کا علم ہے کہ آپ کے کمپیوٹر پر انسٹال ہونے والے کون سے پروگرام آپ کے سسٹم پر کون کون سی فونٹ ڈال رہے ہیں؟ کیا آپ کو یاد ہے کہ ریلیز ہونے سے بہت پہلے ہی ونڈوز 95 اور ونڈوز وسٹا کے بی ٹا ورژن کتنے بڑے پیمانے پر پاکستان میں بھی استعمال کیے جا رہے تھے؟

یعنی اب ہمارے پاس چند حقائق اور چند مفروضے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کیلیبری فونٹ 2005 میں بھی استعمال کی جا رہی تھی اور ڈاؤنلوڈ کے لئے بھی دستیاب تھی۔ مائیکروسافٹ اپنے آفیشل چینلز کے ذریعے پروگرامرز کو یہ فونٹ فراہم کر رہا تھا۔ ونڈوز وسٹا کے بی ٹا ورژن میں بھی یہ موجود تھی جو مختلف کمپنیاں اور افراد استعمال کر رہے تھے۔ شک کا فائدہ دیتے ہوئے مفروضہ یہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی ذریعے سے یہ فونٹ اس وکیل کے پاس پہنچی اور اس نے بھی اسے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اب جب تک یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ وہ وکیل یہ فونٹ استعمال نہیں کیا کرتا تھا، ڈاکیومنٹ پر شبہ تو کیا جا سکتا ہے مگر اس کو جھٹلانا ممکن نہیں ہے۔

یہاں شک کا معاملہ ہے کہ وکیل وہ فونٹ استعمال کرتا تھا یا نہیں جو اس وقت دستیاب تھی۔ قانون کا بنیادی اصول کیا ہے؟ قانون چھوڑیں، کرکٹ کا بنیادی اصول کیا ہے؟ شک کا فائدہ بیٹسمین کو دیا جاتا ہے، اپیل کرنے والے باؤلر کو نہیں۔ بیٹسمین اسی وقت آؤٹ قرار دیا جاتا ہے جب شک کی گنجائش باقی نہ رہے۔ قانون کا کلیدی اصول یہ ہے کہ شک کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے، اور یہ منطق استعمال کی جاتی ہے کہ خواہ سو مجرم بری ہو جائیں، مگر ایک بے گناہ کو سزا نہیں ملنی چاہیے۔

جبکہ کیلبری فونٹ کے کیس میں جے آئی ٹی ایک مشتبہ ترین معاملے پر حتمیت سے مجرم قرار دینے پر مصر ہے۔

جہاں تک وکلا کی فرم پر دھوکہ دہی اور جعلسازی کے معاملے کا تعلق ہے، تو بار ثبوت الزام لگانے والے پر ہوتا ہے۔ کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ کیا الزام لگانے والے پاکستانی ادارے اس برطانوی فرم کی تحقیقات کر سکتے ہیں؟ کیا وہ یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ اس فرم کے کسی کارکن نے یہ فونٹ ڈاؤنلوڈ یا استعمال نہیں کی تھی؟ یا وہ گیارہ برس پہلے اپنے اس کمپیوٹر پر ونڈوز وسٹا کا بیٹا ورژن انسٹال کیے نہیں بیٹھا تھا جو آج کہیں کباڑ میں پڑا ہو گا؟ کیا اس فرم کی برطانوی عدالت وغیرہ میں جمع کرائی دوسری دستاویزات کی تحقیق کرنا پاکستان اداروں کے لئے ممکن ہے؟

آف شور کمپنیوں سے متعلق ان ڈاکیومنٹس کا تجزیہ آج احمد نورانی صاحب نے بھی کیا ہے۔ مزید وکیل اور محقق بھی آنے والے دنوں میں اس رپورٹ کا تجزیہ کرتے رہیں گے۔ عین ممکن ہے کہ دوسرے نکات کی بنیاد پر شریف خاندان کو حتمی طور پر مجرم ثابت کیا جا سکے، مگر فونٹ کی بنیاد پر ان کو مجرم ثابت کرنا مزید تحقیقات کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
Jul 13, 2017

عدنان خان کاکڑ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے سے گزشتہ 25 برس سے منسلک ہیں اور بہت سی چھوٹی بڑی کمپنیوں کے ساتھ کنسلٹنٹ کے طور پر کام کر چکےہیں۔


اسی بارے میں
اس فونٹ کی اصل کہانی جس نے مریم کو مجرم بنا دیا
جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کو گمراہ کیا ہے: احمد نورانی 
عدنان خان کاکڑ
اس سیریز کے دیگر حصےاس فونٹ کی اصل کہانی جس نے مریم کو مجرم بنا دیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments