’مدرسے کے شدت پسند طلبہ کی جگہ جامعات کے اعلیٰ تعلیم یافتہ طالب علم لے رہے ہیں‘


پاکستان کے صوبہ سندھ میں محکمہ انسداد دہشت گردی سی ٹی ڈی کے ماہرین نے جامعات میں شدت پسندی کے فروغ پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ مدرسے کے شدت پسند طلبہ کی جگہ جامعات کے اعلیٰ تعلیم یافتہ طالب علم لے رہے ہیں۔ یہ بات حکام ک جانب سے شدت پسندی کی روک تھام کے لیے کراچی میں منعقدہ ایک مشاورتی اجلاس میں کہی گئی جس میں پولیس کے اعلیٰ افسران کے علاوہ سندھ کی سرکاری اور نجی شعبے کے 40 جامعات کے وائس چانسلرز، پرو وائس چانسلرز اور ڈائریکٹرز شریک تھے۔

اس اجلاس کی ابتدا لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جام شورو کی طالبہ نورین لغاری کے کیس سے کی گئی۔ ایس ایس پی منیر شیخ نے بتایا کہ نورین لغاری جب شدت پسندی کی طرف مائل ہو رہی تھیں تو یونیورسٹی انتظامیہ اور والدین دونوں نے نہ تو اس کا نوٹس لیا اور نہ ہی ایک دوسرے سے رابطہ کیا۔ ‘نورین پوائنٹ بس سے اتر کر رکشہ میں سوار ہوتیں اور کہیں چلی جاتیں۔ اس طرح کلاس میں وقفے کے دوران وہ غائب رہتیں۔ اس بات کا یونیورسٹی انتظامیہ کو علم تھا لیکن اس سے والدین کو آگاہ نہیں کیا گیا۔’

ایس ایس پی منیر شیخ نے بتایا کہ لیاقت میڈیکل یونیورسٹی میں 60 سے 70 فیصد لڑکیاں برقعہ یا حجاب پہن کر آرہی تھیں اور مستقل طور پر دس دس لڑکیوں کے گروپ بن رہے تھے اور درس دیے جا رہے تھے لیکن انتظامیہ اعتراض نہیں کر رہی تھی۔

‘ہم نے جب انتظامیہ سے معلوم کیا کہ آپ نے اعتراض کیوں نہیں کیا تو ان کا کہنا تھا کہ مردان یونیورسٹی میں مشال خان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے جیسا کچھ ہونے کا خدشہ تھا اور وہ برقعہ پہننے پر کیسے اعتراض کر سکتے تھے۔ ہماری ٹیم نے کہا کہ درس کو مانیٹر کرنا چاہیے تھا۔ یہ درس یونیورسٹی کے ہال میں منعقد کیے جاتے تاکہ چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹ جاتے۔’

سی ٹی ڈی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی ثنا اللہ عباسی کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد کسی ایک ادارے کو تنقید کا نشانہ بنانا نہیں لیکن یونیورسٹی میں کچھ لوگ شدت پسندی میں ملوث ہیں۔ ‘ہوسکتا ہے کہ ان کی اس بات سے کوئی اختلاف کرے لیکن برقعے اور حجاب سے شدت پسندی بڑھ رہی ہے۔’ لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کے رجسٹرار روشن بھٹی نے واضح کیا کہ وہ سڑکوں پر ہر طالب علم کی نگرانی نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ممکن نہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی یونیورسٹی میں 80 فیصد طالبات ہیں اور اس وجہ سے وہاں زیادہ برقعہ اور حجاب نظر آتا ہے اور وہ برقعے اور حجاب پر کیسے اعتراض کر سکتے ہیں۔

ایس پی راجہ عمر خطاب نے اپنے تجربات بتاتے ہوئے کہا کہ پہلے جو مدارس سے پڑھتے تھے وہ افغانستان یا وزیرستان جا کر جہاد کرتے تھے لیکن اب یہ نئی کھیپ پیدا ہو رہی ہے جو جامعات سے تعلیم یافتہ ہے اور انھوں نے یہ جنگ لڑنی ہے۔ راجہ عمر کے مطابق ڈیفنس، گلشن اقبال، گلستان جوہر اور ناظم آباد میں داعش سے متاثر لوگ ہیں اور شدت پسندی اب مدرسے سے یونیورسٹی تک آگئی ہے۔

کراچی میں سیاسی جرائم اور جہاد پر ناول کے مصنف اور محکمۂ انسدادِ دہشت گردی کے ایس ایس پر عمر شاہد حامد کا کہنا تھا کہ جامعات کا طالب علم مدارس کی جگہ لے رہا ہے۔ ’یہ جو آن لائن نسل ہے اس کے پاس نظریات اور دلائل ہیں یہ قبائلی علاقے کے مدرسے کے بچے نہیں جو کہیں جا کر خودکش بم حملے کردیں۔‘

کراچی میں انسداد دہشت گردی پولیس کے سینیئر اور ماہرین پولیس افسران نے جامعات کی انتظامیہ اور والدین کو بچوں کی نگرانی کا بار بار مشورہ دیا۔ ایس ایس پی راجہ عمر خطاب نے بتایا کہ صفورا گوٹھ واقعے کے ملزم سعد عزیز سمیت ان کے پاس 20 ایسے نوجوانوں کے کیسز ہیں جن کا رویہ تبدیل ہوا، وہ تنہائی کا شکار رہنے لگے، موبائل فون کا استعمال کم کر دیا لیکن والدین نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ ‘سعد عزیز کی ایک لڑکی سے دوستی تھی وہ اس کے مطالبے پر پورا نہیں اترا اور اس نے مذہب کا رخ کر لیا۔ اس کی خواہش پر والدین نے عمرے پر بھیج دیا۔ واپسی پر اس نے قرآن کی ترجمے کے ساتھ کلاس لینا شروع کی لیکن اس کو تسلی نہیں ہوئی۔

اس کے بعد اس کی ایک جگہ انٹرن شپ ہوئی جہاں اسے ایک لڑکا ملا جو اسے القاعدہ کی ایک شخصیت کے پاس لے گیا اور اس کے دماغ میں یہ بیٹھ گیا کہ اس وقت تک خلافت نہیں آئے گی جب تک عسکریت نہیں آئے گی۔’

راجہ عمر نے کراچی میں داعش کی موجودگی اور علاقوں کی بھی نشاندہی کی، جو زیادہ تر شہر کے امیر اور متوسط طبقے کی آبادیاں ہیں۔ ان کے مطابق ڈیفنس، گلشن اقبال، گلستان جوہر اور ناظم آباد میں داعش سے متاثر لوگ ہیں اور شدت پسندی اب مدرسے سے یونیورسٹی تک آ گئی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ایک جامعہ کا استاد نیپا چورنگی کے قریب گھریلو ساختہ بم بناتا تھا اور اس نے یہ تربیت اپنے بیٹے اور بھیتجے کو بھی دی تھی اس وقت وہ تینوں مفرور اور انتہائی مطلوب ہیں۔ اسی طرح ایک استاد یونیورسٹی کی پارکنگ میں القاعدہ کو فنڈ دیتا تھا جس کو گرفتار کیا گیا۔

ایس پی مظہر مشوانی نے بتایا کہ انھوں نے کلفٹن سے ایک یونیورسٹی کے استاد کو گرفتار کیا جو کمپیوٹر سائنس کا مضمون پڑھاتا تھا، اس کا تعلق حزب التحریر سے تھا اور لیکچر کے ساتھ ساتھ وہ دس منٹ اپنی تبلیغ کرتا۔ انھوں نے مزید بتایا کہ اس کے علاوہ نمازِ جمعہ کے بعد مساجد کے باہر پمفلٹ تقسیم کیا کرتا تھا لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے کبھی اس کا نوٹس نہیں لیا۔

ایس ایس پی راجہ عمر خطاب نے بتایا کہ صفورا واقعے کے ملزم سعد عزیز سمیت ان کے پاس 20 ایسے نوجوانوں کے کیسز ہیں جن کا رویہ تبدیل ہوا، وہ تنہائی کا شکار رہنے لگے، موبائل فون کا استعمال کم کردیا لیکن والدین نے اس کا نوٹس نہیں لیا

ڈاؤ انجینیئرنگ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر روشن راشدی نے سوال کیا کہ یہ جو 12 سے زائد ایجنسیاں موجود ہیں تعلیمی اداروں میں ان کا کیا کردار ہے؟ ان کے پاس افرادی قوت اور تربیت نہیں کہ نگرانی کر سکیں؟ ان سوالات کا پولیس افسران کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے اور پیشکش کی کہ وہ جامعات کے ملازمین کو تربیت فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔

لیاقت یونیورسٹی کے رجسٹرار روشن بھٹی نے بتایا کہ ادارے اپنے طور پر کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں کچھ لڑکیاں آپس میں بات کر رہی تھیں کہ نورین لغاری واپس آ چکی ہیں وہ ان سے ملاقات کریں گی۔ انتظامیہ نے ان لڑکیوں کے والدین کو بلایا جن میں ایک فوجی افسر بھی شامل تھا اور کہا کہ آپ کی بچیاں اس طرح کی بات کر رہی ہیں انھیں سمجھائیں۔

ایس ایس پی عمر شاہد حامد نے ایک نوجوان کے بارے میں بتایا جو کراچی کے ایک انتہائی معتبر گرامر سکول سے تعلیم یافتہ تھا، بعد میں اس نے لاہور یونیورسٹی آف مینیجنمنٹ سائنس سے پڑھا اور اسی گرامر سکول میں پڑھاتا رہا لیکن شدت پسندی کی طرف مائل ہو گیا۔

‘اس نوجوان نے وزیر ستان میں تربیت حاصل کی۔ وہ کہتا ہے کہ وہ ہر وقت یہ ہی سوچتا تھا ابھی دھماکہ کیا اور میں سیدھا جنت میں گیا۔ عمر شاہد حامد کے مطابق یہ نوجوان جس کی عمر 30 یا 35 سال ہوگی ایک ڈرون حملے میں زخمی ہو گیا۔ ‘اب جب تک اس کو درد کش ادویات کے تین انجیکشن نہ لگیں تب تک نیند نہیں آتی۔ اس وقت وہ شدت پسندی کے خلاف کام کر رہا ہے اور ایک اثاثہ بن چکا ہے، لیکن شدت پسندی کی قیمت اس نے اور اس کے خاندان نے ادا کی۔’

اجلاس میں یہ بات بھی زیر بحث آئی کہ شدت پسندی ترک کرنے والے طلبہ کو کیا تعلیمی اداروں میں دوبارہ داخلہ دینا چاہیے؟ اس حوالے سے نورین لغاری کیس کا بھی حوالہ دیا گیا۔ پولیس افسران نے اس کی حمایت کی اور کہا کہ ان کو اثاثہ بنانا چاہیے۔ بحریہ یونیورسٹی کے نمائندے کمانڈر نوید نے بتایا کہ انھوں نے ایک انٹیلیجنس ٹیم بنائی ہوئی ہے جو سارا دن مشاہدہ کرتی ہے اور بعد میں انھیں آ کر رپورٹ کرتی ہے۔ اس رپورٹ کے بعد وہ ان طلبہ کو طلب کرتے ہیں اور انھیں کونسلنگ شعبے کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔

)ریاض سہیل بی بی سی اردو ڈاٹ کام(


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp