“ہم سب” کے لئے لکھنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے


خدا بخشے دادا مرحوم (خان ابا) کو جن کی بدولت ہم میں لکھنے کی لگن پیدا ہوئی۔ کیونکہ انہیں لکھنا پڑھنا بہت پسند تھا اور ہمارے پردادا چونکہ خدائی خدمتگار تحریک کے سرگرم رکن تھے۔ اس لئے وہ جذباتی قسم کی شاعری کرتے تھے جس کے بعد ہمارے دادا مرحوم بھی اُسی روش پر چل پڑے اور جب ہوش سنبھالا گھر میں اخبارات اور رسائل آیا کرتے تھے۔ جس سے ہمیں بھی شوق پیدا ہوا اور یوں اخبارات کا ساتھ شروع ہوا اور بچوں کے لئے کہانیاں لکھنا شروع کردیں۔ جب چھپ جاتی تو دادا مرحوم (خان ابا) اس لکھائی کی پبلسٹی کرتے اور یوں ہم لکھنے والوں میں شامل ہوگئے۔ جب لکھتے اور وہ شائع ہوتا تو دادا جان کی جانب سے پانچ یا دس روپے ملتے، یعنی جو لکھا جاتا تھا وہ صرف پیسوں کے لئے ہوتا تھا۔ لکھنے پر چونکہ زیادہ پیسے ملتے تھے اس لئے لکھنا شروع کیا۔ اور یوں پھر شعبہ صحافت میں آ گئے۔ کوئی استاد نہیں رکھا۔ ایک دفعہ شاعری کا بھوت ایک استاد محترم ( جاوید آفریدی )کی بدولت حلول کر گیا تو شاعری شروع کردی اور پھر ایک شخصیت سے تصحیح کرانی شروع کردی۔ جو کہ خود سے اچھے شاعر ہیں مگر اس کی شاعری خود کے لئے ہے، کبھی دوسروں کے لئے شاعری نہیں کی۔ اُس نے میری شاعری کی وہ کلاس لی کہ ایک دن ہم نے (عدم ) کی غزل پیش کی اور ایک دفعہ ناصر کاظمی کی غزل کی تصحیح کرائی۔ تب پتہ چلا کہ موصوف کسی کو بھی نہیں بخشتے۔ یوں شاعری کے ساتھ ساتھ کالم نگاری کا سہارا لیا جس میں میرے دوست فدا عدیل کا بڑا ہاتھ ہے۔ مگر کوئی استاد نہیں رکھا۔ بس جو لکھتے وہ شائع ہوتا رہا۔ کا، کے، کی، مذکر، مونث کی غلطیاں سرزد ہوتی رہیں۔ پشتو میں اردو لکھتے رہے۔ فیچر نگاری ہوئی۔ کاغذ پر لکھنے کی بجائے کمپیوٹر پر لکھنا شروع ہوا۔ تو کامہ، فل سٹاپ، سب بھول گئے۔

جب ویب سائٹس کے لئے لکھنا شروع کیا۔ جو من وعن شائع ہوتا گیا۔ تو اردو مزید خراب ہوتی گئی کیونکہ جو چیز بھیجتے وہی اسی وقت چھپ بھی جاتی کیونکہ ویب سائٹ چلانے والوں کے ساتھ وقت ہی کہاں ہوتا ہے۔ جس سے اگر میں کہوں کہ صلاحیتوں میں کمی آئی تو بے جا نہ ہوگا، مگر نت نئے خیالات بھی آنے لگے۔ کیونکہ فیڈ بیک ملنے لگا۔ اب ایک سال پہلے ایک ویب سائیٹ “ہم سب” سے واسطہ پڑا۔ جب ہم دیگر ویب سائیٹس کے لئے لکھتے تو ہم سب ڈاٹ کام کے وجاہت مسعود صاحب کو بھی بیھج دیتے۔ مگر وہاں عدنان کاکڑجیسے اردو دان موجود تھے۔ جو بغیر کسی تردد کے اسے ڈیلیٹ کر دیتے۔ خواہش تھی کہ اس ویب سائیٹ پر بھی کچھ لکھا جائے۔ تو بات بنے۔ پھر وسی بابا کے فیس بک پر ہم سب ڈاٹ کام کو دیکھا، اور یوں وسی بابا سے رابطہ کیا۔ جس نے کہا کہ بندے دا پتر بن۔ سفارش سے نہیں۔ اپنی قابلیت پر آﺅ۔ وسی بابا سے پہلے کی علیک سلیک تھی۔ جب صحافت میں تھے۔ اُس وقت وسی بابا کے ساتھ ایک پراجیکٹ میں کام کیا تھا۔ مگر وسی بابا سفارش کے خلاف تھے۔ میرے ارٹیکلز کی واٹ لگا دی۔ پھر ایک شائع ہوگیا۔ یعنی جو ارمان تھا وہ پورا ہوگیا۔ مگر شوق پروان چڑھتا گیا۔ کہ مزید بھی لگنے چاہییں۔ وسی بابا نے کہا وقت نہیں اور اچھا لکھنے کی پریکٹس کرو۔ ایڈیٹر صاحبان آپ کی اردو ٹھیک کرنے نہیں بیٹھے ہیں۔ میری بے عزتی خراب نہ کرو، پھر وسی بابا نے اپنی جان چھڑانے کے لئے مجھے ظفر عمران صاحب کو ریفر کردیا جنہوں نے وسی بابا کی طرح خوب ڈانٹا کہ خیالات اچھے ہیں۔ مگر سٹائل ٹھیک نہیں، ایک ارٹیکل پر کہہ ڈالا کہ یہ مضمون ہے ہی نہیں بلکہ یہ تو کوئی تقریر ہے۔ عدنان کاکڑ صاحب نے ایک دفعہ ان باکس کیا جس سے میرے کانوں کے لوئیں سرخ ہوگئیں کہ فل سٹاپ اور کامہ کہاں لگائی جاتی ہے۔ ان کا خیال کرو، ورنہ مضمون نہیں چھپے گا۔ تب ہم سب ڈاٹ کام کے ویب سائٹ کو چھان مارا۔ تو وجاہت مسعود صاحب نے کچھ کتابوں کے حوالے دیئے تھے۔ کہ اگر لکھنا ہے تو ان کا مطالعہ کرو۔ تب لکھنا اسان ہوگا، مگر ہم پاکستانی لکھنے والے پڑھتے نہیں ہیں۔اور جو پڑھ کر لکھتے ہیں ان لوگوں کا صحافت اور ادب کی دنیا میں ایک نام اور مقام ہے۔اور تب سے ہم کچھ نہ کچھ پڑھنے لگے ہیں کیونکہ پھر جگہ جو نہیں ہوگی۔

 بات یہ ہے کہ ہر کوئی لکھ سکتا ہے مگر لکھنے کے لئے دوعوامل ضروری ہیں جن میں پڑھنا،اور لکھنے کی پریکٹس۔ اگر ایک طالبعلم جو لکھنے کا خواہش مند ہو، ہر موضوع کے بارے میں پڑھنے کے عمل کو جاری رکھے کیونکہ کسی بھی تحریر کے لئے مطالعہ ایک انجن کے لئے پٹرول کا کام دیتا ہے، مطالعہ کے بغیر کوئی بھی رائٹر ہرگز نہیں لکھ سکتا ہے. ایک رائٹر خود کو کتابوںکا کیڑا بنائے تو لکھنے میں نکھار آئے گا،اب سوال یہ پید ا ہوتا ہے کہ لکھنے کے لئے کونسی کتابوں کا انتخاب کیا جائے تو یاد رکھئے لٹریچر میں دنیا بھر کے رنگ ہوتے ہیں پڑھنے کے لئے تمام موضوعات پر مشتمل ہر ایک کتاب کو پڑھیئے۔ کالم نگار یا رائٹر کو لکھنے کے لئے اپنی آئیڈیا لوجی کو واضح کرنا بہت ضروری ہے تاکہ لکھتے وقت یہ معلوم ہو کہ وہ کس نظریہ کے تحت اپنا مشاہدہ یا معلومات کو تحریری شکل میں قید کر رہا ہے۔ لکھنے کے اس عمل میں اعدادوشمار،معلومات اور نتیجہ کے ساتھ ساتھ تجزیہ و تحلیل کا عمل بھی لازمی امر ہے جس کے لئے بنیادی معلومات کی بنیاد پر جو نالج حاصل کیا جاتا ہے ا س میں غیر جانب داری کا مظاہرہ کرے تاکہ پڑھنے والوں کو ایک جاندار اور تجزیاتی تحریر پڑھنے کو ملے. یاد رکھیں سادہ سلیس اور غیر جانبدار تحریر ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ دور حاضر میں کالم نگار بکثرت پائے جاتے ہیں، مقابلہ کی اس دوڑ میں کالم لکھنے کے لئے منفرد انداز میں لکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ روایتی الفاظی اور پیراہن نے کالم نگاری کو ایک بت بنا دیاہے۔

میں چونکہ صحافت کا طالب علم ہوں اور لکھنا میرا شوق ہے۔ خداجانے اب تک کتنے الفاظ زیب قرطاس کئے ہیں اور کتنے ارٹیکل، کالم، فیچر، مختصر کہانیاں، غزل، نظمیں اور اشعار لکھے ہیں۔ مگر اگر میں سچ کہوں تو جتنا لکھا ہے اتنا میں نے پڑھا نہیں۔ یہ صرف میرا المیہ نہیں یہ ہمارے ملک کا المیہ ہے، ہمارے دوستوں کا المیہ ہے جو لکھتے ہیں مگر پڑھتے نہیں۔ کیونکہ اس ملک میں لکھا زیادہ اور پڑھا کم جاتا ہے نئے کالم نگار اس لئے میدان میں نہیں آتے کیونکہ ان کی رائٹنگ میں وہ دم نہیں ہوتا کیونکہ لکھنے کے لئے پڑھنا بہت ضروری عمل ہے۔ اور ہم سب ڈاٹ کام لکھنے والوں کے لئے خاص طور پر پڑھنے کی تلقین کرتا ہے، جس کے بعد ہم نے بھی تھوڑا بہت پڑھنا شروع کیا ہے۔ کیونکہ وسی بابا، فرنود عالم، عدنان کاکڑ، وجاہت مسعود صاحب سمیت ایڈیٹر صاحبان کسی کی سفارش نہیں مانتے اور اگر میں کہوں کہ ان حضرات کی موجودگی میں ہم سب کے لئے لکھنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے تو بے جا نہ ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).