نصاب اور تعلیمی اداروں میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی


تیز رفتار ترقی کے اس دور میں آگے بڑھنے کے اندر معیاری تعلیم کے حصول کو یقینی بنانے کے حوالے سے تجاویز کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں جب کہ اس حوالے سے تعلیمی اداروں کا کردار روز روشن کی طرح عیاں اور صورتِ ماہتاب واضح ہے۔

تعلیمی اداروں کے اندر تشدد کے بڑھتے واقعات تعلیمی اداروں کے کردار کے حوالے سے الجھن اور کنفیوژن میں اضافے کا سبب بنے ہیں جس کا تجزیہ کرنا وقت کی ضرورتوں میں سے اہم ضرورت ہے تا کہ خامیوں کو دور کر کے اور اصلاح کی سعی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے ترقی کے اس دوڑ شامل ہونے کو ممکن بنایا جا سکے۔ یونیورسٹی کے اندر طالب علم کا قتل ہو یا دار الحکومت کی مشہور و معروف یونیورسٹی کے اندر لسانی اور صوبائی بنیادوں پر طلباء کے مابین تصادم یا پھر پشاور کی مشہور اور تاریخی مادر علمی کے اندر اساتذہ کا ایک دوسرے کے اوپر حملہ آور ہوناجب کہ مزید دیگر اس طرح کے واقعات فکری و شعوری بحران کے اپنے عروج پر ہونے کے مظاہر ہوتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات کا حل عارضی طور پر ایف آئی آر کی شکل میں یا پھر گرفتاری کی شکل میں ڈھونڈنا دور رس اثرات کا ضامن نہیں ہو سکتا۔ بلکہ شعور و آگہی جیسے قیمتی جواہر سے نوجوان نسل کو آشنا کرنے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ جہاں پر معلم کی قابلیت اور تعلیمی نصاب کی ہمہ گیری جیسے عوامل شامل حال ہو جاتے ہیں۔

بد قسمتی سے طلباء موجودہ نصاب کی طرف توجہ سے گریزاں ہیں۔ جس کی کئی ساری وجوہات ہیں۔ شارٹ کٹ کلچر کی بدولت طالب علم کا تعلق نصابی کتب سے ٹوٹ کر نوٹس، گائیڈزاور امدادی کتابچوں کے ساتھ مضبوط ہوتا جا رہا اس حقیقت سے بے خبر کہ نوٹس اور گائیڈز طلباء کی تخلیقی صلاحیتوں کے لئے میٹھے زہر کا کردار ادا کرتے ہیں اور رٹا کلچر کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ کچھ جگہوں پر ناشرین کی جانب سے بھی غفلت کا مظاہرہ کیا جا رہا جو مواد کی صحت کا جائزہ لئے بغیر طباعت کے عمل کو صرف کاروباری نکتہ نظر سے دیکھ کر چھاپنے کے عمل میں مصروف ہیں۔ اس ناگفتہ بہہ صورت حال کے باوجود درخشاں مستقبل کا خواب دیکھنا سادہ لوحی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔

نصاب کی تیاری کے وقت ماہرین کو مشکل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جو ملک و معاشرے کی سماجی، مذہبی اور سیاسی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک نصاب طے کرتے ہیں۔ تا کہ نصاب پڑھ کر نوجوان نسل ترقی کے اس دوڑ میں شامل ہو سکیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ ہم علم کے گنج ِ گراں مایہ کو نظر انداز کر کے اختصار پسندی کی لت میں مبتلاء ہو چکے ہیں۔ شارٹ کٹ کلچر کی بدولت علم و دانش سے تہی دست اور فکری و شعوری جمود کا شکار ڈگری بردار فوج تیار ہو رہی ہے جب کہ اہل علم اور ماہرین کی پیداوار نایاب ہورہی ہے۔ بفرض محال اگر ان کتابچوں کی اشاعت کو ناگزیر مان بھی لیا جائے لیکن اس کی تصحیح اور سند سے قطع نظر نہیں کیا جا سکتا۔

ارباب نظر اور نگران اداروں کا اس معاملے کی طرف توجہ دینا نہایت قابل توجہ امر ہے۔ نگران اداروں کو چاہیے کے ایسے تمام شائع کنندگان کو مذکورہ امدادی کتب کے حوالے سے قبل از اشاعت تصحیح کا پابند بنائیں اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلا ف کارروائی کرے۔ جب کہ سکولوں اور خاص کر کالجوں کے اساتذہ کو بھی چاہیے کہ طلباء کے اندرشعور اجاگر کرنے کے حوالے سے نصابی کتب کی طرف طلباء کا رجحان بڑھانے میں کردار ادا کرے اور امدادی کتابچوں پر بھروسہ کرنے کی حوصلہ شکنی کرے تا کہ علم و آگہی اور شعور کی دولت سے مالا مال نسل تیار کی جا سکے جو ان تمام خوبیوں سے مزین اور اعلیٰ اخلاقی اقدارکی حامل ہو۔

محمد نعمان کاکا خیل کینگ پوک نیشنل یونیورسٹی ساؤتھ کوریا میں پی ایچ ڈی ریسرچ سکالر جب کہ یونیورسٹی آف واہ میں تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے۔
جی میل:
nouman.kakakhail@gmail.com

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).