منڈیلا‘ عورتیں اور انقلاب


نیلسن منڈیلا نے بیسویں صدی میں کالوں کے حقوق کے لیے بہت جدوجہد کی‘ ربع صدی کی جیل کاٹی اور آخر میں جنوبی افریقہ میں انقلاب لانے میں کامیاب ہو گئے۔ منڈیلا کو سیاسی طور پر جتنی کامیابی حاصل ہوئی اتنی کامیابی انہیں رومانوی زندگی میں حاصل نہ ہوئی۔انہیں اپنی ازدواجی اور خاندانی زندگیوں میں بہت سی نفسیاتی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔

جب منڈیلا کے والد کا بچپن میں انتقال ہو گیا تو ان کی نگہداشت کی ذمہ داری ایک بزرگ ریجنٹ REGENT نے لی اور انہیں اپنے بیٹے جسٹسJUSTICE کی طرح پالا۔ ریجنٹ ایک روایتی باپ تھے اسلیے جب جسٹس اور منڈیلا جوان ہوئے تو انہوں نے دونوں کے لیے دو دلہنیں تلاش کر لیں۔ چونکہ منڈیلا اور جسٹس دونوں باغی تھے اور روایتی انداز سے شادی کرنے کے حق میں نہ تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ دونوں میں اتنی ہمت بھی نہ تھی کہ کھل کر ریجنٹ سے بغاوت کریں۔ چنانچہ وہ رات کی تاریکی میں گھر سے فرار ہو کر جوہنزبرگ پہنچ گئے۔ پہلے تو انہیں بہت سی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا لیکن پھر وہ بڑے شہر میں رہنے کے عادی ہو گئے۔

جب منڈیلا کی والٹر سیسولوWALTER SISULU سے ملاقات ہوئی تو ان کی زندگی میں بہت سی خوشگوار تبدیلیاں آئیں۔ والٹر نے ان کی پیشہ ورانہ اور سیاسی محاز پر بہت مدد کی۔جب منڈیلا نے تعلیم مکمل کر کے وکیل کی ملازمت شروع کی تو وہ سیسولو کے ساتھ سیاسی کاروائیوں میں بھی شریک ہونے لگے۔ ایک دن سیسولو کے گھر کی محفل میں ان کی ملاقات ایک خوش شکل نرس سے ہوئی جس کا نام ایویلن میسEVELYN MASE تھا۔ دونوں کو دوستی پھر محبت ہوئی اور دونوں نے شادی کر کےگھر بسانے کا فیصلہ کر لیا۔

وقت کے ساتھ ساتھ منڈیلا کی سیاسی مصروفیات اور خاندانی ذمہ داریوں میں اضافہ ہونے لگا۔ منڈیلا ایک محبت کرنے والے شوہر اور باپ تھے لیکن جب سیاسی اور خاندانی ذمہ داریوں میں تضاد پیدا ہوتا تو منڈیلا سیاسی کام کو فوقیت دیتے جس سے ایولن بہت ناخوش ہوتیں۔ جب منڈیلا سیاسی جلسوں میں تقریریں کر رہے ہوتے تو گھر میں ان کا بیٹا مڈیبا MADIBA ان کی راہ تک رہا ہوتا۔

منڈیلا کو احساس ہونے لگا کہ انقلابی کو انقلاب کی خاطر اپنے خاندان کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ منڈیلا گھر سے اتنا زیادہ باہر رہنے لگے کہ ان کا بیٹا اپنی ماں سے پاچھتا ’ابو کہاں رہتے ہیں۔ وہ صرف اتوار کو گھر کیوں آتے ہیں‘۔ منڈیلا کو بھی گھر سے دور رہنے کا رنج ہوتا لیکن وہ اسے اپنی سیاسی مجبوری سمجھتے۔

جب منڈیلا انقلابی کاروائیوں میں شامل ہوئے اور حکومت کو چیلنج کرنے لگے تو اصحابِ بست و کشاد کو بہت ناگوار گزرا۔ آخر دسمبر 1956 میں انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ منڈیلا کو اس بات کا بہت دکھ ہوا کہ پولیس نے ان کے بیٹوں مڈیبا اور تھیمبی MADIBA AND THEMBI کے سامنے انہیں ہتھکڑیاں لگائیں۔

جوں جوں منڈیلا کا انقلاب سے عشق بڑھتا گیا اتنا ہی ایویلن سے عشق کم ہوتا گیا۔ ایویلن کی مذہب سے دلچسپی بڑھنے لگی۔ منڈیلا ایک سیاسی انقلاب اور ایویلن ایک روحانی انقلاب لانا چاہتی تھیں۔ منڈیلا کو انقلاب سے اور ایویلن کو خدا سے محبت ہو گئی۔ ان کے نظریات کے فرق سے خاندانی مسائل بھی پیدا ہوئے وہ دونوں اپنے بچوں کی مختلف خطوط پر تربیت کرنا چاہتے تھے۔ باپ بچوں کو سیاسی تعلیم اور ماں ان کو مذہبی تعلیم دینا چاہتی تھی۔ ایک دفعہ جب منڈیلا جیل سے واپس آئے تو ان کی بیوی بچوں کو لے کر گھر سے جا چکی تھیں۔ وہ کمرے کا پردہ بھی ساتھ لے گئے تھیں۔ بظاہر بات چھوٹی سی تھی لیکن درپردہ بہت بڑی تھی جس کا منڈیلا کو بہت دکھ ہوا۔

ایویلن سے جدائی کے کچھ عرصہ بعد ان کی ملاقات ونی WINNIE سے ہوئی۔ منڈیلا خوش تھے کیونکہ ونی سماجی اور سیاسی شعور رکھتی تھیں اور منڈیلا کے ساتھ انقلاب کے خواب دیکھتی تھیں۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد منڈیلا کو دوبارہ جیل جانا پڑا۔ منڈیلا کو انقلاب کی راہ میں ونی کی قربت سے ہمت اور ڈھارس بندھتی۔ منڈیلا کو احساس ہوا کہ انقلابی کی بیوی شوہر کی زندگی میں ہی بیوہ کی طرح محسوس کرتی ہے۔ ایک دفعہ ونی کو بھی جیل جانا پڑا اور حکومت نے زور دیا کہ وہ منڈیلا کو چھوڑ دیں لیکن ونی انقلاب سے باوفا تھیں اس لیے وہ ڈٹی رہیں۔

جب منڈیلا جیل میں پچیس سال گزار کر باہر آئے تو انہیں اندازہ ہوا کہ اس طویل عرصے میں ان کی اور ونی کی راہیں جدا ہو چکی تھیں اس لیے انہوں نے ونی کو طلاق دے دی۔ اس طرح منڈیلا کی دوسری شادی بھی کامیاب نہ ہو سکی۔ وہ ڈی کلارک اور بوٹالیزی جیسے سیاسی رہمائوں سے تضاد کا حل نکال سکے لیکن ونی سے مسائل نہ سلجھا سکے۔ منڈیلا نے لکھا ہے کہ ونی نے ایک گوشت پوست کے انسان سے شادی کی تھی لیکن جیل میں پچیس سال گزارنے کے بعد وہ ایک دیومالائی کردار بن گئے تھے۔ وہ صرف اپنے بچوں کے نہیں ساری قوم کے باپ بن گئے تھے۔ منڈیلا کہا کرتے تھے کہ قوم کی محبت عزت کی اور خاندان کی محبت خوشی کی بات ہے۔ دونوں میں توازن قائم کرنا بہت مشکل کام ہے۔ منڈیلا کو جنوبی افریقہ میں پر امن الیکشن کروانے اور انقلاب لانے کی وجہ سے امن کا نوبل انعام NOBEL PEACE PRIZE دیا گیا۔

چونکہ منڈیلا عورتوں کے دلدادہ تھے اس لیے ایولن اور ونی سے طلاق کے بعد بھی انہوں نے ہمت نہ ہاری اور اسی برس کی عمر میں ایک پچپن سالہ گریسا GRACA سے شادی کی جو موزمبیک کے صدر سمورا میکل SAMORA MACHEL کی بیوی رہ چکی تھیں۔ سمورا کی ایک جہاز کے حادثے میں موت واقع ہو گئی تھی۔

منڈیلا آخری دن تک اپنی زندگی کے رومانوی اور سیاسی پہلوئوں میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن ایسا توازن قائم کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail