عمران خان رشوت کی اجازت نہیں دیتا، اسے ووٹ کیسے دیں؟ ایک ووٹر


دو چور باہم دست و گریبان تھے۔ ایک شخص بیچ بچاؤ کروانے لگا کہ چونکہ تم دونوں ہی چور ہو لہذا آپس میں جھگڑا مت کرو بلکہ افہام و تفہیم سے کام لو تاکہ تمہارا کام چلتا رہے۔ تصفیہ کروانے والا یہ شخص ان دونوں چوروں کے ہاتھوں بارہا لٹ چکا تھا۔ موجودہ احتسابی عمل سے خائف ہونے والے جمہوریت پسند دانشوروں کی مثال بھی چوروں میں صلح کروانے والے اس چغد کی سی ہے۔ بقول غالب:

اسد بسمل ہے کس انداز کا قاتل سے کہتا ہے
تو مشقِ ناز کر خونِ دو عالم میری گردن پر

جانے یہ جمہوریت پسندی ہے یا عوام دشمنی کہ جمہوریت پسند حلقوں کی جانب سے احتسابی عمل کے رد میں دلائل کے انبار لگائے جا رہے ہیں۔ جمہوریت کے خلاف سازش کی بو سونگھی جا رہی ہے۔ جے آئی ٹی کو متنازعہ ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کی جا رہی ہے۔ عدالتی کارروائی کو حکومتِ وقت کو دباؤ میں رکھنے کی چال قرار دیا جا رہا ہے۔ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ شریف خاندان کا دامن مالیاتی معاملات میں سو فیصد شفاف نہیں ہے۔ لیکن ججوں اور جرنیلوں کی کرپشن کی داستانوں کو بطور جواز پیش کیا جا رہا ہے۔ دیگر بدعنوان سیاستدانوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے عذر کو بد نیتی پر محمول کیا جا رہا ہے۔ عدالت بنام شریفین کو جمہوریت اور آمریت کی جنگ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور عوام کو ممکنہ مارشل لاء کے خطرات سے متنبہ کیا جا رہا ہے۔ جاوید ہاشمی کہتے ہیں کہ کوئی سیاستدان، جج اور جرنیل صادق و امین نہیں ہے لہذا کوئی کسی کا احتساب کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ گویا ہاشمی صاحب چاہتے ہیں کہ تمام کاذب و خائن ایک دوسرے سے سمجھوتہ کر لیں تاکہ سسٹم چلتا رہے۔ کذب و خیانت کا سسٹم چلتے رہنے میں ایک سیاستدان کا تو بھلا ہو سکتا ہے لیکن لٹنے والا کیوں چاہتا ہے کہ اس کو لوٹنے والے افہام و تفہیم سے گٹھ جوڑ بنا کر رہیں؟ کیونکہ وہ سوچ رہا ہے کہ یہ تمام فساد ایک نئی فوجی آمریت مسلط کرنے کے لئے برپا کیا جا رہا ہے۔

ممکنہ مارشل لاء کے خوف سے تھرانے والے یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ دراصل اداروں کا گٹھ جوڑ ہی آمریت کا پروردہ رہا ہے۔ ہر دستور شکن کارروائی کے پس پشت فوج اور عدلیہ کی ملی بھگت کار فرما رہی۔ لیکن پھر ایک چیف جسٹس کے حرفِ انکار نے اس کہکشانی راستے کو ان پتھروں سے اٹ دیا کہ جن پر گھسٹنے کے خیال سے بڑے بڑوں کے پر جلتے رہے۔ اب جو سرکاری ملازمین نے اپنے باس کی کرپشن کو بے نقاب کیا ہے تو ان کی نیت جو بھی ہو لیکن اس کارروائی میں دستور اور جمہور کی سر بلندی ہی پنہاں ہے۔ گٹھ جوڑ کی سیاست کا خاتمہ ہو گا تو غدار سزا یاب ہوں گے، لٹیرے سڑکوں پر گھسیٹے جائیں گے اور پیٹ پھاڑ کر پیسے نکلوائے جا سکیں گے۔ کارٹیل ٹوٹے گا تو ادارے مضبوط ہوں گے اور بلا امتیاز اور کڑا احتساب ممکن ہو گا۔ اور احتساب کا خوف ہو گا تو حکمرانی کی سیج کانٹوں کا بستر ہو گی اور عوام کی خدمت کا مقصد لیڈران کی نیندیں حرام کیے رکھے گا۔

جمہوریت پسندوں کی ایک اور طرفہ خوش گمانی حکمران منتخب اور برطرف کرنے کے عوامی اختیار اور نام نہاد عوام کی عدالت کے فیصلے سے وابستہ ہے۔ بقول ان کے، حکمرانوں کو تبدیل کرنے کا اختیار صرف عوام کے پاس ہونا چاہیے کہ بتدریج کم تر چور کا انتخاب انہیں چند ہی دہائیوں میں یوٹوپیا کے دروازے پر لا کھڑا کرے گا۔ عوامی انتخاب سے وابستہ اس حسنِ ظن کی پائیداری کی داد دینی چاہیے کہ پنجاب میں سرمایہ داروں، سندھ میں وڈیروں اور کراچی میں بھتہ خوروں کے کئی دہائیوں تک مسلسل انتخاب کے باوجود ماند نہیں پڑتا۔ عوام الناس سے وابستہ اس معصومانہ خوش گمانی کے ضمن میں صرف ایک قصہ جو بچوں کی اسکول ٹیچر کی جانب سے فیس بک پیغام میں بھیجا گیا، انہی کی زبانی سن لیجیے۔

’لاہور سے کوہاٹ آئے کچھ ہی دن ہوئے تھے۔ پشاور سے ایک آنٹی شام کے بعد ملنے آئیں۔ پشاور کے ایک سرکاری اسکول میں پڑھاتی ہیں۔ میں نے چائے ان کے سامنے رکھی۔ جونہی چائے کپ میں ڈالنے لگی تو واپڈا کی مہربانی سے لائٹ چلی گئی۔ آنٹی غصے سے بولنے لگیں کہ ہمارے پشاور میں نہ لائٹ جاتی ہے نہ پانی کا کوئی مسئلہ ہے۔ جب سے عمران خان آیا ہے سب بدل گیا ہے۔ لیکن اگلی دفعہ ہم عمران خان کو ووٹ نہیں دیں گے۔ کیونکہ اب نہ رشوت چلتی ہے نہ سفارش۔ اور تو اور پڑھائی اتنی سخت کر دی ہے کہ ہمیں مصیبت پڑ گئی ہے۔ اب تو گھر سے لیکچر تیار کر کے جانا پڑتا ہے۔ میں مسکرا دی اور آنٹی سے کہا چائے پئیں ٹھنڈی نہ ہو جائے‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).