ہم سب والو! ہمیں نواز شریف نے تیس برسوں میں آخر دیا کیا ہے؟


آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن پر ”خواتین“ ہی کے خلاف پوسٹ ڈالی تو وصی بابا نے ”ہم سب“ پہ لگوا دی۔
ہم کئی روز تک منہ چھپائے پھرے کہ ایسی بھی کیا بات تھی جو اتنا اچھا لکھنے والوں کے درمیان ہی لگا ڈالا وہ بھی فوٹو سمیت۔
کئی ہفتے اسی سوچ بچار میں گزرے کہ انباکس ڈانٹ پڑی۔ “لکھتی کیوں نہیں ہو“ کہا کیا لکھوں جواب آیا جو ”دل چاہے“
مکالمے سے ہی اندازہ ہوگیا ہوگا فریق ثانی وسی بابا ہی تھے۔

خیر پھر سے موبائل اٹھایا اور لکھ ڈالا اس بار دل چاہنے والا ہی لکھا۔ اور پھر کئی خامہ فرسائیاں کیں۔ تین چار تصویریں بھی بدلیں۔ اور وہ ساری چیزیں ”ہم سب“ نے چھاپیں۔
انسان کی فطرت ہے اس کو چیزوں سے لوگوں سے وابستگی ہو جاتی ہے۔ گو محسوس نہیں ہونے دیتے لیکن ہیں ہم بھی انسان ہی۔ ہمیں بھی خاموش ہی سہی ہم سب سے تعلق سا محسوس ہونے لگا۔ لگے ہم سارے مضمون پڑھنے آتے جاتے گروپس میں ہم سب کے مضامین کا دفاع بھی کرنے لگے۔ کبھی تو کسی پوسٹ پہ یہ بھی کہہ دیتے کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔ لیکن فطرت کا ایک اور قانون ہے فقط ثبات تغیر کو ہے زمانے میں۔ ہم سب ہی کی طرح ہم سب بھی بدل گئے۔ اچھا خاصا رائٹنگ پلیٹ فارم بدل گیا۔ نواز شریف کی محبت ہم سب کے حواسوں پہ چھانے لگی۔ اور نوبت یہاں تک آ پہنچی ہم جو دفاع کیا کرتے تھے یہ کہنے پہ مجبور ہوگئے کہ کوئی پتھر سے نہ مارے نواز شریف کے دیوانوں کو۔ ہم جو پی ٹی آئی کو اچھا آپشن سمجھتے تھے ہم سب پر مضمون پڑھ پڑھ کے پی

ٹی آئی کے باقاعدہ ممبر بن گئے۔
خیر یہ تو ذاتی سی بات ہے۔

یہاں پر اتنی لمبی تمہید نما گفتگو کا مقصد میں اپنے سوال آپ سب کے ”ہم سب“ کے سامنے رکھنا چاہتی ہوں۔
میں چاہتی تو یہ سب کہیں بھی اور چھپوا سکتی تھی۔ ایک نئی بحث شروع کر سکتی تھی۔ مضمون اور پھر جوابی مضمون۔ کسی بھی ویب سائٹ پر یہ فارمولا چلا سکتی تھی۔ لیکن یہ میرا سٹیٹس نہیں مجھے یہ زیب نہیں دیتا کہ کسی کی شکایت کسی سے لگاتی پھروں۔ اگر تعلق کا وابستگی کا اظہار کر سکتی ہوں تو اتنی جرات ہے کہ آپ سب لوگوں کو یہ بھی بتا سکوں آپ سب ہمیشہ سو فیصد صحیح نہیں ہوتے۔
یعنی خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے۔
میرے کچھ سوال آپ سب سے ہم سب سے۔

پہلا سوال کیا اس ملک کا اور اس جمہوریت کا منظر نامہ اتنا ہی خوبصورت ہے کہ اس سے بیزاری کا نفرت کا یا اکتاہٹ کا اظہار نہ کیا جاسکے؟
کیا یہ سسٹم اتنا ہی مقدس اور پوتر ہے کہ اسے بدلا نہیں جا سکتا؟ بدلنا تو درکنار اس کے خلاف بات بھی نہیں کی جاسکتی؟
آپ سب یقینا بہت اعلی دماغ ہیں اچھا سوچنے والے وسیع مطالعے کے حامل۔
تو کیا آپ سب نے کبھی سوچا ساٹھ فیصد یوتھ میں سے نوے فیصد سے زیادہ عمران خان کی بات پہ آمنا صادقنا کیوں کہتی ہے؟
کیا ہم بے وقوف ہیں؟ آپ کی ساری یونیورسٹیز کے گریجوائٹس؟ آپ کے ڈاکٹرز انجینئرز آپ کے ٹیچرز پروفیسرز؟ سب جذباتی بے وقوف جمہوریت دشمن ہیں۔
بکاؤ مال ہیں؟ عمران خان کے ساتھ مالی فوائد کی چاہ میں جڑے ہیں؟

نہیں آپ سب کو سوچنا پڑے گا ہمیں ہمارے دوستوں کو سی ایم، پی ایم نے لیپ ٹاپس ونگلز دییے۔ لیکن کیا ہوا؟ ہم نے اس نواز شریف کے خلاف پوسٹنگ شروع کردی۔ اور خواجہ سعد رفیق کو کہنا پڑا یوتھ وزیر اعظم سے لیپ ٹاپ لے کہ عمران خان کی کمپیئن چلاتی ہے۔ ایک اور ضمنی سوال اگر وزیر اعظم نے لیپ ٹاپ دیا بھی تھا تو خواجہ سعد رفیق یا کسی کے بھی پاس کیا رائٹ ہے تھا ایسا کوئی بیان دے کہ اپنے ملک کی کریم کی سیلف ایسٹیم ہرٹ کرنے کا؟ کیا آپ سب میں سے کسی نے ان کے اس بیان پر خاموشی توڑی؟ ان سے کہا کہ یہ بچے میرٹ پہ آئے تھے ساٹھ اور اسی فیصد نمبر فور سی جی پی اے لینے والے بچے ہیں ساری نون لیگ کے ٹوٹل آئی کیو سے زیادہ کے حامل۔ کسی نے کہا یہ یعتھ یہ ینگسٹرز یہ ہمارے بچے ہیں۔
نہیں! کیوں کہ آپ سب کا خیال ہے کہ یوتھ بے وقوف پاگل ہے۔

چلیے پاگل ہی سہی آپ یہ بتائیے آپ کے ممدوح کی پارٹی کے پاس ہمارے لیے کیا ہے؟ میری بہن ڈاکٹر ہے آپ کی پارٹی کے پاس اس کے لیے سروس سٹرکچر ہے؟
میرے نمبر اسی فیصد سے زیادہ آئیں تو آپ کی پارٹی مجھے نوکری پر پریفر کرے گی؟
میرا کوئی ہم جماعت کالج یوینورسٹی میں ہی بیمار پڑ جائے تو آپ کی جماعت کے انڈر چلنے والے ادارے اسے دو گولی پیناڈول دینے سے قاصر ہوتے ہیں۔ میں نے اپنی کلاس فیلو کو جگر ٹرانسپلانٹ کراتے اور قطرہ قطرہ ذرہ ذرہ مرتے دیکھا ہے وہ جو ہماری کلاس کی ٹاپر تھی وہ روز موت کی زردی چہرے پہ اوڑھے جب کالج آتی تھی تو میرے اندر آپ کے ممدوح کی نفرت جڑیں پکڑتی تھی۔ جو پارٹی چالیس سالوں میں کسی ہسپتال ڈاکٹر کو اس قابل نہ بنا سکے کہ وہاں ایسی بیماریوں کا علاج ہوسکے تو لعنت ایسی حکمرانی پر۔
ہمارے ملک کی سڑکیں دنیا کی تیسری خطرناک ترین سڑکیں ہیں کیا کرنا ہے اس کا؟

تیس سالوں میں اگر کوئی لیڈر قوم کو سڑک پہ بہیو کرنا نہیں۔ سکھا سکتا تو تف ایسے پلوں پر اور سٹرکچر پر۔ میں ستر لاکھ آبادی والے شہر میں رہتی ہوں جس میں ایک ڈی ایچ کیو ہے جسے مشرف نے ری نیو کیا تھا۔ میرا شہر لاہور کا ٹوین سٹی ہے۔ اور ایک فیڈرل یونیورسٹی میں ٹوٹل چار ڈیپارٹمنٹس ہیں۔ ساری ٹریفک یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب جاتی ہے۔ ٹھہریے اسے مزید واضح کرتی ہوں سب لوگ میاں عامر محمود کی یونیورسٹی میں جانے پر مجبور ہیں۔ کیا اب یہ بات کلئیر ہوئی؟

اور میرا سوال بھی کہ کیا ہے نون لیگ کے پاس ہمارے لیے۔
بلکہ آدھی صدی حکومت کرنے والی پارٹیز کے پاس کیا ہے ہمارے لیے؟
چلیے کچھ دیر کے لیے فرض کرتے ہیں م غلط ہیں ینگسٹرز غلط ہیں کیا۔ کہتے ہیں وہ فیک ہوپس کا شکار ہیں۔ چلیں فرض کرتے ہیں ہم غلط ہیں۔
اب بتائیے آپ لوگوں کے ”صحیح“ پولیٹیکل کلچر نے کیا دیا ہمیں؟
کرپٹ پولیٹیکل ایلیٹ، موروثی سیاست، غلام ذہنیت؟ فرسودہ سوشل سیٹ اپ؟ پست معیار تعلیم صحت کی سہولتوں کی عدم دستیابی؟ عدم تخفظ؟
تھانہ کلچر پٹواری سسٹم؟

کیا ہے ایسا اس جمہوریت میں مہذب دنیا والا؟
کیا دیا ہے ہمیں پولیٹکل ایلیٹ نے؟

اور یہ جو سب ہی لوگ جمہوری روایات اسٹیبلشمنٹ فوجی گملہ وغیرہ وغیرہ کا بھونپو بجاتے رہتے ہیں ان سب سے پوچھنا ہےکونسی جمہوریت؟ ایوب خان کے ڈیڈی ہونے والی یا جنیجو لیگ والی؟ اور کس اسٹیبلشمنٹ کی بات کرتے ہیں آپ لوگ؟
جنرل کیانی سے ملیں نون لیگ والے تو یہ اچھے اور کوئی اور پارٹی ملے تووہ برے؟
یہ بہت پرانا قصہ تو نہیں اس پر کیوں نہیں لب ہلے کسی کے؟
کیا یہ ہوتی ہے جمہوریت؟ ایسے چلتے ہیں ملک؟

یوتھ ناراض تو لیپ ٹاپ دے دو انٹرنیٹ تھما دو۔
اپوزیشن ناراض ہو تو سینٹ کی چیرمین شپ دے دو۔
میڈیا ناراض ہو تو اشتہار دے دو۔
دوست ناراض ہوں تو کوئی قومی ادارہ تھما دو۔

قطری سعودی ناراض نہ ہوں لہذا تلور مروا لو اپنے ملک کا نام پرندوں کے لیے بھی خطرناک ملکوں میں لکھوا لو بس یار راضی رہنے چاہیے۔
ہمیں نہیں چاہیے ایسی ”جمہوریت“ جسمیں پرندے دھنک رنگ خوشبو شاعر ادیب غیر مخفوظ ہوں۔
ہم ڈاکٹر انجینئرز پروفیسرز کے عدم تخفظ والی بستی نہیں چاہیے مزید۔
ہم اس پستی کے ساتھ کمپرومائز نہیں کر سکتے۔

ہمیں ایک مہذب ملک چاہیے مہذب حکومتوں والا جس میں میں اور مریم نواز صاحبہ برابر کے حقوق رکھتے ہوں۔
جس میں بی بی مریم کی بٹیی کی شادی میرے ٹیکس کے پیسوں سے نہ ہو۔ اور جس کو دنیا عزت کی نگاہ سے دیکھے۔
اگر یہ غلط بات ہے تو میں میری نسل غلط ہی اچھے۔

اگر یہ خواب سچے خواب نہیں تو بھی ہمیں قبو ل ہم نے کم از کم بدصورت حقیقتوں کو مقدر تو نہیں۔ سمجھ لیا نا۔
ہم اس ملک کو ملکوں کی صف میں آگے دیکھنا چاہتے ہیں اور اگر اس کے لیے ہم نے کسی ایسے شخص سے امیدیں وابستہ کی ہیں جو ضدی ہے سخت گیر ہے اور مستقل مزاج ہے تو برا کیا کیا ہے؟
آپ لوگ ہمیں غلط ثابت کرنے پر توانائیاں لگائیے ہمیں ذینوں میں خوابوں کی پنیری لگانی ہے تاکہ کل میفے بچے مجھ سے کوشش ہی نہ کرنے کا گلا نہ کر سکیں۔ تاکہ میری آنے والی نسلیں میرے ”دور اندیش ” نہ ہونے پر بات کریں بھی تو مجھے بد نیت جھوٹا مت سمجھیں۔
اور آخری بات آپ سب تسلیم کر لیجیے ہم آنے والے وقت کی سب سے بڑی حقیقت ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).