ہے ہمت تو نیکی کرو، بھلے چور کہلاؤ


دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا رہتا ہوں۔ بس تب چھوڑ دیتا ہوں جب حالات گڑبڑ ہو جائیں۔ بس کبھی سیکھا تھا کہ خدا سے تعلق دوستی یاری کا ہو تو پھر مشکلات سے روتے گھبراتے نہیں بس ان کا سامنا کرتے ہیں۔ اب یہ گڑبڑ دل کے معاملات میں ہو یا دنیا داری کے سوچتا ایک ہی بات ہوں۔ کہیں کوئی تعلق گڑبڑ ہو گیا ہے۔ اس کو ڈھونڈنا ہے بحال کرنا ہے۔

ہاتھ تنگ ہو جائے تو شئرنگ بڑھا دینے کی عادت ہے۔ پیسے کم ملیں تو تھوڑا مزید اپنے آپ کو آزمانا شروع کر دیتا ہوں۔ آسان سا طریقہ ہے جو ملتا ہے اس میں سے کچھ حصہ تقسیم کرتا ہوں۔ بندہ ڈھونڈتا ہوں اس کے لیے خوار ہوتا ہوں۔ ضرورت مند تو راہ چلتے مل جاتے ہیں پر تلاش ان کی ہوتی ہے جو منہ سے کچھ نہیں کہہ پاتے۔

ایسا ہی وقت چل رہا تھا کچھ پیسے ملے۔ اس میں سے شئرنگ کا حصہ نکالا تو وہ بہت ہی کم نکلا۔ پندرہ سو روپئے اب یہ کسے دیئے جا سکتے ہیں۔ ان سے کسی کا کیا بنے گا، ان پیسوں سے بھی مہینہ کسی کا گزرتا ہے کیا۔ فون کیے جس دوست کا خیال آیا اس سے گپ لگائی۔ کسی کی سمجھ نہ آئی، عادت اب ایسی ہے کہ شئرنگ کا سوچ لوں تو پھر جب تک امانت پہنچا نہ لوں نیند کدھر آتی ہے۔ کوئی سمجھ نہ آئی تو لیٹ گیا آنکھیں بند کر کے سوچتا رہا۔ اچانک ایک خاتون کا خیال آ گیا جنہیں ہم خالہ کہتے تھے ۔وہ وہاں رہتی تھیں جہاں پہلے کبھی ماموں آباد تھے۔ بیوہ ہو چکی ہیں اولاد نہیں ہے کوئی زمین نہیں ہے۔ خاوند کی آٹا پیسنے والی چکی تھی جو اب اس کے بھتیجے کے پاس ہے۔ چکی سے روزانہ گندم یا آٹا مل جاتا ہے ، اس میں جو ضرورت سے زیادہ ہو بیچ کر اپنی گزر بسر کر رہی ہیں ۔

خیال آیا تو وہیں ایک کزن کو کال کی اس سے ان کا حال پوچھا۔ کزن نے بتایا کہ بس ٹھیک ہیں گزارا چل رہا ان کا۔ کزن کو پیسے بھجوا دیئے ساتھ ہدایت دی کہ ان کو دے کر ان سے میری بات کروانا اپنے فون پر۔ اب اس فون کا سوچتے سو گیا۔ سویرے کزن کا فون آ گیا خالہ سے بات کی۔ انہیں کہا خالہ آپ یاد آ رہی تھیں تو آپ کو کچھ پیسے بھیجے ہیں۔

یہ تھوڑے سے پیسے ہیں بس رکھ لیں۔ خالہ نے کہا بیٹا تھوڑے کدھر ہیں میں نے اپنی بکری کو ٹیکہ لگوانا تھا اس کے پیسے نہیں تھے میرے پاس۔ چائے کا ڈبہ ختم ہو گیا تھا چینی نہیں تھی۔ ایک سوٹ پڑا ہے پاس وہ سلوا لونگی۔ انہوں نے وہ چھوٹی چھوٹی ڈھیروں چیزیں گنوا دیں جو انہیں درکار تھیں اور انہوں نے ان پیسوں سے خریدنے کا پروگرام بنا لیا تھا۔ خالہ بتاتی رہیں کچھ سمجھ آئی کچھ نہ آئی۔

شام کو پنڈ سے پہلے بھا کا فون آیا اوئے توں پیسے چوری کیتے یعنی تم نے پیسے چرائے ہیں۔ سمجھ نہ آئی کہ کیا کہہ رہا کیوں کہہ رہا۔ بھا بہت غصے میں تھا اس نے کہا تمھاری وہ جانگلی خالہ نے تمھاری مشہوری کر دی ہے۔ اتنے میں امی کا بھی فون آ گیا انہوں نے کہا کہ بیٹا غصہ مت کرو جب اسے خالہ کہتے ہو تو خالہ سمجھو بھی، اچھا کیا اسے کو پیسے بھیجے۔ بس اس کو شک ہوا کہ اتنی کثیر رقم اکٹھی تمھارے ہاتھ کدھر سے لگ گئی۔ اس کو یہی سمجھ آئی کہ چرائی ہو گی اس نے بڑی مشکل سے ڈھونڈ کر مجھے فون کیا تھا۔ اسے تسلی دے دی ہے کہ تمھارا بھانجا اب بڑا ہو گیا اس نے اپنی کمائی سے بھیجے ہیں۔

یہ نیکی کر کے جو بلے بلے ہوئی تھی اس کے بعد پکی نیت باندھ لی کہ اب دوبارہ ایسی نیکی نہیں کرنی۔ جب لیٹ گیا تو بڑے دن بعد خدا کا خیال آیا وہ بھی ایسے کہ میرے پیارے اللہ میاں اچھا مذاق کیا میرے ساتھ ۔

چوری کےاس الزام پر غصہ تو آیا پر سمجھ بھی جلدی آ گئی تھی۔ نیکی کے نیت کے ہم چور ہی تو ہیں دو قدم کوئی زرا زرا سی ضرورت کے لیے آسمان کی طرف دیکھ رہا ہوتا ہے۔ قدرت کو کتنی لمبی سائینس لڑانی پڑتی ہے اک نمونے کو ضرورت مند کی راہ پر چلانے کے لیے۔ ضرورت مند بھی ایسا جو ہمارا اپنا ہوتا۔ ظاہر ہے میں تو نیکی کرنے سے اب رک چکا ہوں لیکن یہ چور ہونے کا الزام بھی بڑا پیارا کبھی آزما کر تو دیکھیں ۔ ہے ہمت تو نیکی کرو، بھلے چور کہلاؤ۔
Jul 18, 2017

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi