غالب سوال کیوں پوچھتا تھا ؟


ویسے تو یہ ایک عام مشاہدے کی بات ہے کہ ہر انسانی بچہ اپنی ذات‘ فطرت اور ماحول کو سمجھنے کے لیے اپنے بزرگوں سے سوال پوچھتا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اکثر انسانی بچے جوانی کی سرحدوں تک پہنچتے پہنچتے چند سوالوں کے جواب تو پا لیتے ہیں لیکن اکثر سوال راستے میں کھو آتے ہیں۔ وہ لوگ جو خوش قسمتی سے ان سوالوں کو ضائع نہیں ہونے دیتے بہت سے شاعر پیدا کرتے ہیں۔  یوں تو ہر شاعر کا حساس دل اور تخلیقی ذہن زندگی کے ہر موڑ پر نئے سوالوں کی آماجگاہ بنا رہتا ہے لیکن شاعر کا قد جتنا بڑا ہو اس کے سوالوں کا کینوس اتنا ہی وسیع ہوتا ہے۔ وہ اتنا ہی سوالوں کی گہرائی تک جانے کی کوشش کرتا ہے اور اس کی تخلیقات میں فن کی اتنی ہی عظمت جھلکتی نظر آتی ہے۔  ایک بڑا شاعر اپنے کلام میں ماحول کی روایات کو چیلنج کرتا‘ انسانوں کے انفرادی اور اجتماعی مسائل پر غور کرتا اور نئے نقطہِ نظر پیش کرتا نظر آتا ہے۔  وہ ایسے سوال اٹھاتا ہے جو دوسرے لوگوں کی سوچوں کے لیے مہمیز کا کام کرتے ہیں اور اس کی موت کے بعد بھی لوگوں کے ذہنوں اور زندگیوں میں ان کی گونج سنائی دیتی رہتی ہے۔

جب ہم اس نقطہِ نظر سے غالب کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس میں حرف و معنی کی ایک وسیع دنیا پھیلی نظر آتی ہے۔  غالب اپنی تخلیقات میں ایک سراپا سوال بن کر ابھرتا ہے۔ وہ انسان کی زندگی کے ہر پہلو کو‘اسکی پیدائش‘ اس کی موت‘ اس کی ذات‘ اس کے رشتوں‘ اس کے مذہب‘ اس کے فلسفے اور روایتی سوچ کے ہر انداز کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھتا نظر آتا ہے۔ شاید اسی لیے اس کے کلام میں جگہ جگہ کیا‘ کب‘ کہاں‘ کس‘ کیوں اور کیونکر کے الفاط بکھرے نطر آتے ہیں۔ وہ کسی چیز کو بھی سطحی طور پر قبول کرنے کو تیار نہیں۔ وہ ہر چیز میں مخفی حقیقت کو جاننا چاہتا ہے اور اگر اس حقیقت کو نہیں پا سکتا تو اپنے تجسس اور جستجو کا برملا اظہار کرتا ہے۔  غالب نئے راستوں اور نئی منزلوں کی تلاش کا اظہار اس خلوص سے کرتا ہے کہ اس جدوجہد میں اور لوگ خود بخود شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔  اسی لیے غالب کی کاوشیں اردو ادب کا گراں قدر سرمایہ اور قیمتی وراثت کا حصہ بن گئی ہیں۔ کسی کے فن کا یہی کمال ہے کہ ایک انسان کی جدوجہد پوری انسانیت کی جدوجہد بن جائے۔ ایک شاعر کی عظمت کی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ اس کا کلام زیادہ سے زیادہ انسانوں کے جذبوں اور خوابوں کو آئینہ دار بن جائے۔

جب ہم غالب کے تخلیقی سفر کا جائزہ لینے کے لیے اس کا دیوان کھولتے ہیں تو ہمیں پہلے صفحے کے پہلے شعر کے پہلے مصرعے سے ہی اس کی نظر کی گہرائی کا اندازہ ہونے لگتا ہے۔  وہ کہتا ہے

 نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا

یہ بے ساختہ مصرعہ پوری کائنات کو سوالیہ نگاہ سے دیکھتا نظر آتا ہے اور ہمیں انسان‘ اس کے ماحوال اور فطرت کے مظاہر کے مخلوق ہونے اور اس کے خالق کی تلاش کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔  دوسرے مصرعے میں غالب یہ کہتے ہوئے

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

ہماری زندگی کے عارضی ہونے کی طرف توجہ مبزول کرواتا ہے۔  اگر زندگی کی ہر چیز فانی ہے تو یقیناٌ انسانی زندگی بھی عارضی ہے اور اگر انسان اس دنیا میں چند دنوں کے لیے آیا ہے تو اس کی زندگی کی حقیقت کیا ہے اور اس کے پیدائش سے موت تک کے سفر کا مقصد کیا ہے۔  غالب اپنے آپ سے سوال کرتا ہے

نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا؟

کیا انسان کے نہ پیدا ہونے سے اس کائنات میں کوئی فرق آ جاتا یا یہ چاند اور ستارے‘کہکشائیں اور سمندر اپنی فطرت کے مطابق زندگی گزارتے رہتے۔  غالب جب اس سوال پر غور کرتا ہے تو اسے انسان کے مختصر سے عرصے کے لیے اس دنیا میں آنا کوئی خوشی اور فخر کی بات نظر نہیں آتی بلکہ وہ سراسر خسارے کا سودا دکھائی دیتا ہے اسی لیے وہ کہتا ہے

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا۔

غالب کو انسانی زندگی ایک خسارے کا سودا اس لیے نظر آتی ہے کیونکہ اسے انسان اس وسیع کائنات اور ایک پیچیدہ معاشرے میں مجبور و مغموم ہی نہیں ذلت کی زندگی بھی گزارتا نظر آتا ہے۔ اگرچہ انسان اپنے آپ کو اشرف المخلوقات اور زمین پر خدا کا نائب سمجھتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے ہر موڑ پر اس کی انا کو چرکے لگتے ہیں۔ کہیں بھوک‘کہیں بیماری‘ کہیں لاچاری اسے اوروں کے دست نگر کرتے ہیں اور اس کے لیے عزت اور خودداری کی زندگی گزارنی مشکل ہو جاتی ہے۔  جب غالب انسان کو عظمت کی بلندیوں سے گرتا دیکھتا ہے تو خالق سے سوال کرتا ہے

ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند

گستاخیِ فرشتہ ہماری جناب میں

غالب جب بار بار سوال کرنے پر بھی جواب نہیں پاتا تو انسان کی قسمت پر اتنا مغموم ہوتا ہے کہ دن رات آنسو بہانے لگتا ہے۔  وہ بنیادی طور پر انسان کی عزت اور عظمت کا قائل ہے۔ جب لوگ اس کے گریہ و زاری پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں تو وہ ان سے سوال پوچھتا ہے

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ جائے کیوں

روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں

غالب کو اس بات کا بھی اندازہ تھا کہ انسان کے دکھ‘ اس کے غم‘ اس کے مصائب اور اس کے مسائل چند دنوں کے لیے نہیں بلکہ پوری زندگی پر محیط ہیں۔  وہ پیدائش سے مرتے دم تک انسان کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ اس لیے وہ ان لوگوں سے جو زندگی میں خوشیوں اور مسکراہٹوں کی تلاش میں رہتے ہیں پوچھتا ہے

قیدِ حیات و بندَ غم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

غالب کا خیال تھا کہ اس دکھ بھری زندگی کو قابلِ برداشت بنانے کے لیے اکثر انسان یا تو بے حسی اور یا بے خودی کے لمحے تلاش کرتے رہتے ہیں اور بہت سے انہیں شراب میں گھول کر پی جاتے ہیں۔ اسی لیے جب لوگ غالب کی شراب نوشی پر تعیش کا بہتان لگاتے تھے تو وہ یہ سوال کرتے ہوئے اپنی صفائی پیش کرتا تھا

مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو

اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے

لیکن یہ بے خودی کے لمحات بھی شراب کے نشے کی طرح عارضی ہوتے ہیں اور پھر۔ ۔ ۔ وہی انسانی زندگی۔ ۔ ۔ وہی غم کی طویل رات اور وہی دکھوں کا لا متناہی سلسلہ انسان کو اندر سے دیمک کی طرح کھا جاتا ہے اور جوانی کے سارے جذبے اور خواب ریت کی دیواریں بن جاتے ہیں ۔ اسی لیے غالب سوال کرتا ہے

مارا زمانے نے اسد اللہ خان تجھے

وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی؟

یہ غم‘ یہ دکھ‘ یہ تکالیف‘ اور یہ مسائل انسانی زندگی میں ہر روز اتنا زہر گھولتے رہتے ہیں کہ انسان ساری ساری رات کروٹیں بدلتا گزار دیتا ہے اور اپنے آپ سے پوچھتا رہتا ہے

موت کا ایک دن معین ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟

غالب کا خیال تھا کہ انسان جب اپنی تنہائی کے کرب‘ ذاتی مسائل اور شکستہ خوابوں سے پریشان ہو جاتا ہے تو وہ اس امید پر دوسرے انسانوں کی قربت کی خواہش کرتا ہے کہ ان کی موجودگی میں اسے کچھ سکوں ملے گا‘کچھ تسلی ہوگی‘ کچھ غم غلط ہوگا اور زندگی کا کرب کچھ عرصے کے لیے قابلِ برداشت ہو جائے گا لیکن اسے حیرت اس بات کی ہوتی ہے کہ جب وہ دوسروں کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیتا ہے تو وہ اسے نصیحتیں کرنی شروع کر دیتے ہیں۔  وہ دوست کی تلاش میں نکلتا ہے اور جب اس کی ہر موڑ پر ناصح سے ملاقات ہوتی ہے تو وہ بے اختیار پکار اٹھتا ہے

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا

ان نصیحتوں سے درد کم ہونے کی بجائے اور زیادہ ہو جاتا ہے اور وہ یہ سوال کرتا ہوا لوٹ آتا ہے

شورِ پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا

آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا

لیکن ناصح سے چھٹکارا حاصل کرنا بھی اتنا آسان نہیں جتنا بظاہر نظر آتا ہے۔ جب ناصح کو یہ پتہ چل گیا کہ انسان دکھی ہے تو وہ اس کے گھر آ کر نصیحتیں کرنا چاہتا ہے۔ غالب کو اس کی اطلاع ملتی ہے تو وہ حیرت سے سوال کرتا ہے

حضرتِ ناصح گر آویں دیدہ و دل فرشِ راہ

کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا

غالب کہتا ہے کہ وہ لوگ جو نصیحتیں کرتے ہیں بہت سادہ اور کوتاہ نظر ہوتے ہیں۔  وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کے مسائل‘تنہائی کے دکھ‘ اور جنونِ عشق کے زخم چند لمحوں کی نصیحت اور گفتگو سے مندمل ہو جائیں گے۔  وہ ان ناصحوں کی سادگی سے یہ سوال کرتا ہے

گر کیا ناصح نے ہم کو قید اچھا یوں سہی

یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا؟

غالب پھر سوچتا ہے کہ اگر اس کے غموں کا علاج ناصح کے پاس نہیں تو شاید محبوب کے پاس ہو جو اپنے لطف و کرم سے اس کے زخموں پر مرہم رکھ دے اور شاید اس کی تنہائی کی دنیا میں کچھ قربتوں کے پھول مسکرا اٹھیں لیکن اسے یہ جان کر مایوسی ہوتی ہے کہ محبوب دن رات صبر کی تلقین کرتا رہتا ہے جبکہ اس کا بیتاب دل انتظار نہیں کر سکتا چنانچہ غالب سوال کرتا ہے

عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب

دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک

غالب کی امیدوں پر پانی پھر جاتا ہے ۔ وہ ہر شام محبوب کی محفل میں آرزوئوں کے جام لے کر جاتا ہے اور رات گئے تشنہ کام واپس لوٹ آتا ہے وہ اپنا بھرم رکھنے کے لیے توبہ کا لبادہ اوڑھے ہوتا ہے لیکن درپردہ یہ سوال کرتا ہے

میں اور بزمِ مے سے یوں تشنہ کام آئوں

گر میں نے کی تھی توبہ ساقی کو کیا ہوا تھا

اور آخر کبھی کبھار اگر لطف و کرم کا جام اس تک پہنچتا بھی ہے تو وہ محرومی کا اتنا عادی ہو گیا ہوتا ہے کہ وہ اس محبت کے جام کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور سوال کرتا ہے

مجھ تک کب اس کی بزم میں آتا تھا دورِ جام

ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں

آخر غالب کے محروم و مغموم دل کو جب چند لمحوں کے لیے خوشیوں اور محبت کا خمار نصیب ہوتا ہے تو وہ اس وقت بھی حیرت سے پوچھتا ہے

تھا دل وابستہِ قفل بے کلید

کس نے کھولا؟ کب کھلا؟ کیونکر کھلا؟

لیکن پھر غالب یہ دیکھ کر مغموم ہو جاتا ہے کہ اس کا محبوب اس سے انسانوں کی طرح نہیں بلکہ خدائوں کی طرح ملنا چاہتا ہے۔ اس سے غالب کی انا مجروح ہوتی ہے۔ اس نے تو زندگی کے چرکوں پر مرہم رکھنے کے لیے محبوب کے دامن میں پناہ لینے کی کوشش کی تھی لیکن جب محبوب نے بھی چرکے لگانے شروع کر دیے تو غالب پکار اٹھا

تم ہو بت پھر تمہیں پندارِ خدائی کیوں ہے؟

تم خداوند ہی کہلائو خدا اور سہی

غالب محبت کی دنیا سے اتنا دلبرداشتہ ہوتا ہے کہ اس کے لہجے میں طنز کا زہر بھر جاتا ہے اور وہ ہر چیز کو کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔  آخرکار جب محبوب کا دل پسیج جاتا ہے اور وہ عمر بھر کا پیمانِ وفا باندھنے پر رضامند بھی ہوتا ہے تو غالب اس سے طنزیہ اندازمیں پوچھتا ہے

عمر بھر کا تو نے پیمانِ وفا باندھا تو کیا

عمر کو بھی تو نہیں ہے پائداری ہائے ہائے

جس طرح غالب ناصح سے بیزار ہو جاتا ہے اسی طرح وہ محبوب کے در سے بھی یہ سوچتے ہوئے لوٹ آتا ہے کہ

کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا

ناصح اور محبوب سے دل برداشتہ ہونے کے بعد غالب اپنے خاندان کی طرف بڑھتا ہے اور اپنے منہ بولے بیٹے عارف کو اپنی محبت اور قربت میں شریک کرتا ہے لیکن یہ تعلق بھی انسانی رشتوں کی طرح زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ پاتا اور عارف جوانی میں ہی اسے داغِ مفارقت دے کر جہانِ فانی سے کوچ کر جاتا ہے۔ اس حادثے سے غالب کا دل ٹوٹ جاتا ہے۔  وہ عارف اور عارف کے خالق سے شکایت کرتا ہے۔  وہ عارف سے پوچھتا ہے

لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دن اور

تنہا گئے کیوں؟ اب رہا تنہا کوئی دن اور

اور پھر وہ آسمان کی طرف نگاہ کر کے اپنی محرومیوں کا یہ سوال کر کے اظہار کرتا ہے

ہاں اے فلکِ پیر جواں تھا ابھی عارف

کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور

ناصح‘ محبوب اور بیٹے سے ناامید ہو کر آخر میں غالب سکونِ دل کی تلاش میں اپنے خالق کی طرف رجوع کرتا ہے لیکن وہ ابھی زیادہ دور نہیں چلا ہوتا کہ اس کی ملاقات زاہد سے ہو جاتی ہے جو اس کے سامنے نہ صرف جنت‘ دوزخ اور خدا کی عجیب و غریب تصویریں پیش کرتا ہے بلکہ اسے مذہب کے احکام اور شرعی حدود میں پابند بھی کرنا چاہتا ہے۔ ان باتوں سے غالب کی مجروح انا غیرت میں آ جاتی ہے اور وہ اپنی خودداری اور آزادی کا یہ کہتے ہوئے اعلان کرتا ہے کہ

بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں کہ ہم

الٹے پھر آئے درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا

وہ اس دنیا کی خوشیوں کے بدلے جنت کے وعدوں کو یہ کہتے ہوئے رد کر دیتا ہے

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

غالب کے ذہن میں زاہد کی شرعی حدود اور جنت‘ دوزخ کے تصورات پر بیسیوں سوال ابھرتے ہیں۔ پہلے تو اسے غریبوں پر شرعی احکامات نافذ کرنا سمجھ نہیں آتا اور وہ طنزیہ انداز میں پوچھتا ہے

جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو

روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے

اور پھر قیامت کے دن گناہ و ثواب کی عدالت کے بارے میں پوچھتا ہے کہ

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق

آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا

غالب صرف ان مذہبی روایات اور اعتقادات کو ہی چیلنج نہیں کرتا بلکہ وہ خدا سے برابری سے مخاطب ہوتا ہے اور اسے مشورے تک دیتا ہے۔ وہ خدا سے سوال کرتا ہے

کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یا رب

سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی

جب غالب کو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے سوالات کو زاہد اور خدا دونوں نظر انداز کر دیتے ہیں تو وہ آخر میں یہ بنیادی سوال کرتا ہے

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے ؟

غالب معاشرے کے ہر پہلو کو للکارتا اور انسانی عظمت کی راہ میں حائل ہر روایت‘ ہر جہالت اور ہر نا انصافی کو سوالوں سے چیلنج کرتا زندگی گزار دیتا ہے وہ سوالوں کے تیشوں سے زندگی کے کوہ گراں کو کاٹتا ہے تا کہ حرف و معنی کی جوئے شیر دریافت کر سکے اس جدوجہد میں غالب ایک دن جان دے دیتا ہے لیکن وہ جانتا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد بھی اگر لوگ اسے یاد رکھیں گے تو اس کے سوال کرنے کے وصف کی وجہ سے۔  اسی لیے وہ کہتا ہے

ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے

وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا؟

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail