ایک سے زیادہ شادیاں شہوت پرستوں کے لیے ایک مذہبی ڈھکوسلا ہیں


وسطی ایشیا کے ملک ازبکستان میں ایک سے زیادہ شادیوں کے خلاف کریک ڈاؤن پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر شدید بحث شروع ہو گئی ہے۔

ازبکستان میں حالیہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب وزارتِ انصاف کی ایک اہلکار دلبہار یقوبووف نے’ان پڑھ ملاؤں’ پر الزام عائد کیا کہ وہ شادی کی غیر سرکاری رسومات ادا کر رہے ہیں۔ دلبہار یقوبووف نے ایک زیادہ شادیوں کے رجحان کا ذمہ دار ان پڑھ ملاؤں کو ٹھہرایا

دلبہار یقوبووف نے یہ بیان مشہور ٹی وی ٹاک شو کے دوران دیا اور اسی شو کے دوران پروفیسر دلفوزا رحمت اللہ یوا نے دعویٰ کیا ہے کہ مسلم اکثریتی ملک میں ایک سے زیادہ شادیوں میں اضافہ کی وجہ’ مذہبی آزادی’ کا دوبارہ ابھرنا ہے۔

اس مباحثے کے نتیجے میں ملک میں ایک سے زیادہ شادیوں کے معاملے پر طویل عرصے سے جاری بحث میں شدت آ گئی۔

خواتین کے ایک حمایتی نے بی بی سی ازبک کے فیس بک صفحے پر لکھا ہے کہ’ تاشقند کے بہت سارے دیہی اضلاع میں جاہل ملاؤں کی وجہ سے نوجوان مرد دوسری بیوی کر رہے ہیں۔ کیونکہ ان کی شادیوں کا اندراج نہیں ہوتا تو وہ شریعہ قانون کے تحت آزادی سے ایک بیوی کو طلاق دیتے ہیں اور کسی دوسری خاتون سے دوبارہ شادی کر لیتے ہیں۔ ملک کی تین کروڑ 20 لاکھ آبادی میں اس وقت سینکڑوں ہزاروں شادیاں ایسی ہیں جن کا کوئی اندراج نہیں ہے۔’

تاہم اسی صفحے پر ایک دوسرے شخص نے ایک وقت میں ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری حکام کی بجائے مذہبی افراد کو شادیوں کا معاملہ دیکھنے کے مرکزی اختیارات ہونے چاہیں۔

‘رجسٹری دفاتر میں زیادہ تر اہلکاروں کا نہ تو اپنا خاندان ہے اور خود بھی طلاق شدہ ہیں۔ وہ مذہبی تعلیم سے دور ہیں اور کیوں ان خاتون کو اماموں کی رہنمائی کرنے کی ضرورت ہے۔’

یوٹیوب پر کئی صارفین نے کہا ہے کہ ‘اسلامی یا شریعہ قانون ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت دیتا ہے، کوئی بہادر شخص ہے جو کہے کہ شریعہ قوانین ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت دیتے ہیں۔’

ازبکستان میں حالیہ دنوں کثیر الازدواج کا معاملہ ایک بڑا موضوع بحث ہے۔ گذشتہ ماہ جون میں صدر شوکت میرضیایف نے کہا تھا کہ اس فعل کے نتیجے میں ناگوار نتائج برآمد ہوں گے جبکہ سرکاری میڈیا نے کثیر الازدواج کے خلاف مہم شروع کی تھی۔

اگرچہ ازبکستان میں کثیر الازدواج غیر قانونی ہے لیکن روایتی طور پر شریعہ قوانین کے حامی اس کا دفاع کرتے ہیں جبکہ ناقدین اور حقوق نسواں کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ متروک پریکٹس ہے اور اس کے حامی مذہب کی آڑ میں مردوں کے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کا دفاع کرتے ہیں۔

ملک میں اس وقت ایک قانون کا مسودہ تیار کیا جا رہا ہے جس کے تحت اس طرح کے معاملے میں نکاح کرنے والے امام اور ملا کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے گا۔ ملک میں قدامت پسندوں کا کہنا ہے کہ اس قانون کے نتیجے میں طلاق اور جسم فروشی کے رجحان میں اضافہ ہو گا۔

اس پر ایک بلاگر نے لکھا ہے کہ’یہ متنازع معاملہ نہیں ہے اور جو مسلمان ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے پر اختلاف کرے گا وہ ملحد ہو جائے گا۔’ تاہم ایک دوسرے بلاگر نے لکھا ہے کہ’ کثیر الازدواج شہوت پرستوں کے لیے ایک مذہبی ڈھکوسلا ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp