الوداع اصغر شاد


نوالہ حلق میں پھنس گیا میں نے پانی کے گھونٹ سے اسے نگلنے کی کوشش کی۔ جولائی کا سخت حبس زدہ موسم تھا موبائل پر آئے میسیج نے ماحول کویکسر بدل دیا۔ روم کولر کی ٹھنڈی ہوا بھی اچانک گرم ہو گئی۔ مزیدار حلیم کا ذائقہ مجھے کڑوا کڑوا سا لگنے لگا۔ ہفتے کو میری چھٹی ہوتی ہے۔ چھہ دن کی جہد مسلسل کے بعد بس وہی ایک دن ایسا ہوتا ہے جب خاندان کے کچھ افراد سے ملاقات ہو جاتی ہے یا پھر سیر و تفریح۔ آج بھتیجا احسن بٹ بیوی بچوں سمیت میری طرف مدعو تھا۔ بچے بھی خوش تھے غیر رسمی گپ شپ جاری تھی۔ ڈنر کے وقت ابھی چند نوالے ہی تناول کیے کہ موبائل پر آئے میسیج نے ماحول کو بدل دیا۔ اصغر شاد انتقال کر گئے۔ نوالہ حلق میں پھنس گیا۔ پانی پینے کے بعد میں کئی لمحے گم سم ہی رہا۔ اگرچہ وہ کافی عرصہ سے جگر کے عارضے میں مبتلا تھے لیکن موت کی خبر کو ایک دم سے ہضم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ میں نے خاموشی سے کھانا کھایا۔ ہشاش طبیعت پر افسردگی نے پنجے گاڑ دیے۔ ماضی کی یادیں کسی فلم کی طرح دماغ کے پردے پر چلنے لگیں۔

یہ شاید96۔5199 کا دور تھا جب میری راولپنڈی پریس کلب میں ان سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ انہیں نوائے وقت چھوڑے ایک سال کا عرصہ ہوا تھا۔ صحافت میں نووارد ہونے کی وجہ سے میں سینیرز کے سامنے بہت کم بولا کرتا تھا۔ ان سے پہلی ملاقات میں محض تعارف اور سلام دعا ہی ہوا۔ پھر اکثر تقریبات کی کوریج کے دوران ان سے رسمی ملاقاتیں ہونے لگیں۔ وہ روزنامہ مرکز کے ایڈیٹر بنے تو انہوں نے مجھے اپنے دفتربلا کر نوکری کی پیشکش کی۔ لیکن میں نے مشکور ہو کر ان سے معذرت کر لی۔ 1997 میں انہوں نے نوائے وقت بحیثیت بیورو چیف دوبارہ جوائن کر لیا۔ اور وہاں مجھے ان کی شخصیت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا کیونکہ میں بینک روڈ نوائے وقت بیورو دفتر میں سینیر فوٹو گرافر ایم جاوید صاحب سے ملنے روزانہ جایا کرتا تھا۔ محترم سلطان سکندر، فہیم انور، عترت جعفری نواے وقت جبکہ ابرار سعید صاحب نیشن کے لیے بیورو چیف شاد صاحب کے زیر سایہ کام کرتے تھے۔ شاد صاحب کی متاثر کن شخصیت ایسی تھی کہ پہلی ملاقات میں ہی گرویدہ بنا لیتے۔ میانہ قد، چوڑا سینہ، سانولا رنگ۔ بالوں سے بھری کلائی پر گھڑی، آنکھوں پر نظر کا چشمہ، خوبصورت انداز میں تراشیدہ بال ان کے ماتھے کا بوسہ لیتے رہتے۔ لکھتے وقت وہ عجب شان بے نیازی سے انہیں ہاتھوں سے اوپر کرتے اور اگلے ہی لمحے بال پھر ماتھے کو چومنے لگتے۔ انہوں نے شاید کبھی اپنا ہیئر سٹائیل تبدیل نہیں کیا کیوں کہ بیس بائیس سالہ رفاقت میں میں نے ان کو ایک ہی ہیر سٹائل میں دیکھا۔

وہ بہت خوش لباس بھی تھے۔ شرٹ کا اوپر والا بٹن ہمیشہ کھلا رہتا۔ کام کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح، چٹکلے اور قصہ گوئی ان کی شخصیت کا خاصہ تھی۔ میں روزانہ نوائے وقت کا ایک چکر لگایا کرتا۔ شام ہوتے ہی ان کے دفتر میں سیاسی، سماجی، اور ہر مکتبہ فکر کے دوستوں کا تانتا بندھ جاتا۔ کریم ہوٹل کے سموسے، چائے کی چسکیاں اور شاد صاحب کے شہر کی سیاست پرمزاحیہ تبصرے محفل کو زعفران بنائے رکھتے۔ میں ان کی باتیں غور سے سنتا اور مسکراتا رہتا۔ ان دنوں وہ پی ٹی وی کے لیے بھی لکھتے تھے۔ انہوں نے کئی بار مجھے ماڈلنگ کرنے کا مشورہ دیا او ربھر پور کامیابی کا یقین دلانے کی کوشش کی لیکن میں ان کی یہ بات ہنس کر ٹال دیا کرتا۔ مجھے ماڈلنگ کی فیلڈ پسند نہ تھی۔ یہ وہی دن تھے جب میں نے بھی نوائے وقت اسلام آباد جوائن کر لیا لیکن کچھ دن بعد ہی کچھ وجوہات کی بنا پر واپس اساس آ گیا۔ اور پھر میرا دفتر پشاور روڈ سے رحمن آباد شفٹ ہو گیا اور یوں میرا نوائے وقت آنا جانا روز کی بجائے کبھی کبھار تک محدود ہو گیا۔ لیکن شاد صاحب سے اکثر تقریبات میں ملاقاتیں رہتیں۔ سال گزرتے رہے۔

فوٹو جرنلسٹ سے چھوٹا موٹا لکھاری بننے کے سفر میں بھی شاد صاحب کا کلیدی کردار ہے۔ کچھ سال قبل کی بات ہے جب میں نے اپنی زندگی کا پہلا آرٹیکل لکھا۔ دو بار پڑھنے کے بعد مجھے اس کی کسی سینیئر لکھاری سے درستگی درکار تھی۔ پہلا فون میں نے اپنے دیرینہ دوست کہنہ مشک لکھاری سلیم خان سابق ایڈیٹر اساس جو آج کل ایک جاپانی میڈیا گروپ کے پاکستان میں بیورو چیف ہیں، کو کیا اور ان کو آرٹیکل ای میل کر دیا۔ چند منٹوں بعد ہی ان کا مثبت جواب آ گیا میں حیرت انگیز خوشی اور ہیجان میں مبتلا سوچ رہا تھا کہ اور کسے یہ درستگی کے لیے بھیجا جائے کہ اصغر شاد صاحب فیس بک پر آن لائن دکھائی دیے اور میری مشکل حل ہو گئی۔ میں نے سلام کر کے انہیں آرٹیکل ان باکس کر دیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد ان کا فون آیا پوچھنے لگے سچ بتاؤ یہ کس نے لکھ کر دیا ہے۔ درستگی کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ یہ میری ہی تحریر ہے۔ انہوں نے خوب شاباش دی اور کہا کہ شاید تم پاکستان کے پہلے فوٹو گرافر کالم نگار بنو گے۔ واہ کیا انداز ہے لکھنے کا کمال ہے۔ ان کی جانب سے حوصلہ افزائی کی یہ باتیں میرے کانوں میں رس گھول رہی تھیں۔ میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی۔ میں نے کپکپاتی آواز میں پوچھا سر کیا یہ شائع ہونے کے قابل ہے؟ انہوں نے کہا بٹ صاحب آپ کا کالم روزمرہ کے اخبارات میں چھپنے والے بہت سے کالموں سے اچھا ہے۔ یہ کالم نوائے وقت میں چھپے گا۔ ریاض اختر صاحب کو بھیج دو میں ان سے بات کرتا ہوں۔ اور یوں میرا پہلا کالم ہی نوائے وقت کے ایڈیٹوریل صفحہ کی زینت بن گیا۔ شاد صاحب کی جانب سے مجھ ناچیز کی ایسی پذیرائی پر میں ششدر رہ گیا تھا۔ واقعی دل گردے کی بات تھی اس معاشرے میں جہاں کوئی کسی کو بھی ماننے کو تیار نہیں ہے۔ وہ ایک بڑے آدمی تھے۔ اس کے بعد وہ میری شائع ہونے والی ہر تحریر کو سراہتے اور میرا حوصلہ بڑھاتے رہے۔

شاد صاحب کی زندگی کے بہت سے پہلو تھے۔ ایک بڑا دانشور صحافی، بڑا مصنف، ایک فرمانبردار بیٹا، ایک شفیق باپ، ایک خدا ترس پڑوسی، وہ تین کتابوں کے مصنف تھے۔ انہوں نے بے نظیر بھٹو شہید کی سوانح عمری بھی لکھی۔ ان کا نوائے وقت میں شائع ہونے والا کالم شہر کی بات بہت شوق سے پڑھا جاتا تھا۔ راولپنڈی شہر کے بے شمار سیاسی لیڈروں کا نام ان ہی کا مرہون منت ہے۔ غریب اور لاچار شہریوں کے لیے ان کے دل میں بہت تڑپ تھی۔ انہوں نے مختلف این جی اوز کی مدد سے شہر کے غرباء کے علاج معالجے کے لیے بے شمار کام کیا۔ اس رمضان سے انہوں نے شہریوں کے لیے اجتماعی سحر و افطار کا بڑے پیمانے پر اہتمام کیا۔ جو کہ عید کے بعد سے کھانے میں تبدیل ہو گیا۔ کون جانتا تھا کہ دوسروں کو کھانا کھلانے والے کا اپنا رزق اس فانی دنیا سے اٹھ چکا ہے۔ لاچار مریضوں میں دوائیاں بانٹنے والے پر اب ہر دوا بے اثر ہے۔ محض دعا ہی پر تاثیر ہے۔ فانی سے لافانی جہاں کی جانب کوچ کرنے والے اصغر شاد صاحب کے لیے دعا ہے کہ ہمیشہ شاد ہی رہیں۔ الوداع اصغر شاد الوداع۔

خرم بٹ
Latest posts by خرم بٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

خرم بٹ

خرم بٹ(سابق سینئر جوائنٹ سیکریٹری نیشنل پریس کلب اسلام آباد)۔ بائیس سال سے فوٹو جرنلسٹ ہیں۔ مزاح نگار۔ کالم نگار۔ بلاگر۔ ون لائنر۔ بٹ گمانیاں کے نام سے طنز ومزاح لکھتے ہیں۔ ان کی غائب دماغی کی وجہ ان کی حاضر دماغی ہے

khurram-butt has 10 posts and counting.See all posts by khurram-butt