کوئٹہ سے کراچی تک: میرا کورا مشاہدہ


سوچا مشاہدہ کورا ہی سہی، پور ا تو ہونا چاہیے۔ تو فیصلہ کیا کہ کوئٹہ سے کراچی براستہ بس جایا جائے گا۔ میری یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے نزدیک کسی چیز کے اچھا ہونے کا معیار ایئر کنڈیشن کیوں ہے۔ صفائی کیوں نہیں؟ ہم صفائی کی ڈیمانڈ کیوں نہیں کرتے جو کہ نصف ایمان بھی ہے۔ ہم دوسروں کو اس کا احساس کیوں نہیں دلاتے۔ میری ان باتوں سے آپ ایک مہنگی ائیر کنڈیشن بس کا حال تو سمجھ ہی گئے ہوں گے۔ خیر اس سے الگ، گر صرف اپنا سفر دیکھوں تو یہ کہے بغیر نہیں رہ سکوں گی کہ بلوچستان کو اللہ نے کیا بھورے حسن سے نوازا ہے، واہ کیا کہنے۔ گاہے بگاہے حسین باغات اور پہاڑ تو کیا کہنے۔ ہائی وے کا معیار بھی بہت ہی اچھا تھا جس سے سفر میں ذرا بھی مشکلات پیش نہ آئیں۔ کہیں بس ایف سی چیک پوسٹ میں رکتی تو لوگ سوندی سوندی بلوچی پشتو بولتے سنائی دیتے۔ سورج مکھی کے بیج، کدو کے بیج اور تازے آلو چے تو کھانے سے تعلق رکھتے تھے۔

بس اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی کہ میرے سوئے ہوئے جذبہ احتجاج کو اکسانے کھانے کا اسٹاپ آ گیا۔ سوچا Daewoo بس اسٹاپ تو بہت اچھے ہوتے ہیں کیونکہ کرایہ اسی حساب سے لیا جاتا ہے۔ مگر افسوس۔ میں کسی گندگی یا غلاظت کی دہائی نہیں دونگی کہ یہ سب تو شرح خواندگی پر منحصر ہے، لوگوں کو سکھانے پر منحصر ہے۔ انہیں کچھ بتائیں گے نہیں، سکھائیں گے نہیں تو ہم کون ہوتے ہیں ان کی جہالت پہ انگلی اٹھانے والے۔ مگر اس لمحے اپنی فطری ضرورت کو ذرا ضبط کر کے رکھنا پڑا کہ فرش پر قدم رکھنے کی جگہ بھی نہ چھوڑی گئی تھی۔ منہ پہ ہاتھ رکھ کے وہاں سے بھاگی تو سامنے شوق سے آرڈر کیا ہوا کھانا آگیا۔ چنے کی دال، لچھے دار پیاز اور تندوری روٹی۔ دل اتنا خراب تھا کہ بس میں بیٹھ کے ہی دم لیا۔ جو کچھ۔ ’بیلہ‘ میں دیکھ لیا تھا بہت تھا۔ باقی کے رستے پانی نہ پینے کا عہد کیا۔ بلو چستان سے گزرتے ہوئے لوگوں کی بدحالی دیکھ کے مجھے ا پنا کراچی سے اندرون سندھ سفر یاد آ گیا۔ دل تڑپتا ر ہا، دونوں جانب بد حالی میں قدرے بھائی چارہ نظر آیا۔

یہ لوگ ٹوٹی ہوئی کشتیوں میں سوتے ہیں
مرے مکان سے دریا دکھائی دیتا ہے

گڈانی گزرتے ہی ہر چیک پوسٹ پہ آدھ آدھ گھنٹہ تلاشی کا عمل چلتا رہا اور پھر۔ کراچی آ گیا۔ سب سے پہلے نظر گلستان کوچ پہ پڑی جو میرے کالج کے زمانے میں بھی ہوا کرتی تھی۔ اسی طرح چھت پہ بیٹھے ہوئے لوگ اور اندر سے بری طرح بھری ہوئی۔ عجیب سی تکلیف ہوئی۔ اتنے سالوں میں بھی وہی حال۔ بدترین ٹریفک جام تھا۔

قارئین کراچی آ گیا لیکن آنکھوں کو پھر بھی یقین نہ آیا۔ آنکھوں کو اکثر انھی باتوں پہ یقین آیا کرتا ہے جو دل دیکھنا چاہتا ہے۔ میرے ہمراہ میری سہیلی تھی جس کا نام روبیلہ ہے۔ میں اسے سارے رستے بیلہ بیلہ کرتی چڑا رہی تھی۔ وہ پہلی بار کراچی آئی تھی اور بار بار پوچھ رہی تھی کہ کراچی کب آئے گا۔ میری زبان گنگ ہو گئی اور میں خود کو کوسنے لگی کہ اسے جہاز سے کیوں نہ لائی۔ میرے کراچی کی پہلی جھلک ہی ایسی دکھے گی اسے۔ و ہ تو بیلہ کو بھول جائے گی۔ کراچی میرا غرور ہے۔ مگر یہاں تو جا بجا پھیلے کچرے کے ڈھیر جو نجانے کس کے منتظر تھے۔ یہ حبیب بنک اسٹاپ کے بعد ناظم آباد کی شروعات تھی۔ فٹ پاتھ گھیرے، لائن سے بچھائے گئے تختوں پہ براجمان فراغت سے بھرپور لوگوں کا ڈھیر، جو کچرے اور گندگی سے مکمل طور پہ نا آشنا تھا یا شاید عادی تھے، عجیب و غریب کھیلوں میں مگن۔ عجیب و حشت سی ہوئی سب دیکھ کر کہ یہ تو وہی جگہ تھی جہاں ہم شوق سے مسکہ بن کھانے اور چائے پینے آیا کرتے تھے۔ اب تو تصور نہیں کیا جا سکتا تھا کہ کوئی خاتون ادھر کا رخ کرے۔ دل خون کے آنسو رو رہا تھا اور ڈھونڈ رہا تھا اس سوندھی مٹی کو جو میں وداع ہوتے وقت مٹھی بھر، اپنے ہمراہ لے چلی تھی۔ میں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ سنو، کراچی آ گیا ہے۔

کراچی میں اس دفعہ ڈر اور خوف کا راج بہت کم دکھا اور ایک بار پھر رات دو بجے بھی ٹریفک کی چہل پہل دیکھنے کو ملی۔ اس بار تو میں نے موبائل فون نکال کے بات بھی کی اور سڑک کے بنک پہ اے ٹی ایم مشین بھی استعمال کی۔ آدھی رات کو برنس روڈ کے کباب اور مچھلی سے بھی بلا خوف و خطر لطف اندوز ہوئے۔ Careem اور Uber کی بھی خوب دھوم دیکھی۔ مالدار گھرانوں کے سر پھرے چشم و چراغ بھی Uber چلاتے ملے۔ کبھی شدید گرمی میں گاڑی کے اے سی کے تمام رخ ان کے منہ پہ ہوتے تو کبھی انہیں رستہ پسند نہ آتا۔ کبھی چیک پوسٹوں پہ انھیں اپنا کارڈ رکھوانا ناگوار گزرتا تو کبھی ایسا بھی ہوا کہ میرے پاس دو سوٹ کیسز تھے مگر Captain (ڈرائیور) صاحب گاڑی سے نہ اترے کہ وہ کسی بڑے گھرانے کے بزنس مین تھے اور سامان اٹھا کے گاڑی میں رکھنا ان کی شان کے خلاف تھا۔ ایک دو بار تو فون نمبر سمیت دیگر معلومات بھی مانگی گئیں۔

اس بار نجانے کیوں زیادہ تر چہروں میں اجنبیت سی لگی کہ جیسے ہزاروں لوگ کہیں اور سے آ کے بس گئے ہوں۔ شاید اس کچرے و گندگی کے ڈھیر، توڑ پھوڑ کی ایک وجہ احساس ملکیت کا فقدان بھی تھا کہ جب ایک چیز میری ہے ہی نہیں تو میں کیوں اس کا خیال رکھوں۔ میرا گھر تو کہیں ا ور ہے۔ لیکن یہ کہہ کے اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ تو نہیں ہوا جا سکتا۔ اتنی بڑی آبادی مل کے بھی اس معمولی کچرے کا مقابلہ بھی نہیں کر پا رہی۔ آخر ہم کیوں ہر نئے آنے والے کو شاہراہ فیصل دکھا کے ڈیفنس گھمانے لے جاتے ہیں۔ میرا کراچی اتنا چھوٹا سا تو نہیں۔ کلفٹن کے ساحل پہ ڈر کی وجہ سے پاؤں نہیں رکھتے کہ جا بجا گندگی اور کچرے کے ڈھیر ہیں، پاؤں میں کچرا پھنس جائے گا۔ زیادہ پیسے ہوں تو۔ ’دو دریا‘ پہ کھانا کھلانے لے جاتے ہیں ورنہ بس۔

میری سہیلی کو کراچی بہت ہی سستا شہر لگا۔ ہر چیز مناسب داموں میں قدم قدم پہ مہیا تھی۔ اس کو محسوس ہوا کہ یہاں پہ کوئی بھی شخص بے روزگار نہیں رہ سکتا ہو گا۔ نوکری کی ریل پیل ہو گی۔ وسائل کی فراوانی ہو گی اور پانی و بجلی تو ساری کراچی کی ہی ہو گی۔ میں اپنی طرح اپنی سہیلی کے کورے مشاہدے پہ مسکرائے بغیر نہ رہ سکی۔

ہم میں اور بلوچستان کے اس اسٹاپ ’بیلہ‘ میں زیادہ فرق تو نہیں۔ دونوں ہی میں تعلیم کی کمی صاف نظر آ رہی ہے، آگہی سے دور، دونوں ہی اپنے حقوق سے نا آشنا ہیں۔ دونوں ہی خاموش ہیں۔ پھر میرا مشاہدہ کورا ہی ٹھیک ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).