ضیاء کی آمریت اور سندھ کی صحافت


دور جدید میں جب ساری دنیا میں جمہوریت پروان چھڑ چکی ہے۔ وہیں ایسے ممالک بھی ہیں جو آج بھی اظہار کی آزادی اور جمہوریت کے لئے لڑ رہے ہیں۔ ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ بانی پاکستان محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے بعد کوئی بھی سیاستدان مارشل لا کو نہیں روک سکا۔ ہر مارشل لا میں آمر طاقتور سے طاقتور ہوتا گیا۔ زاہد اختر مسعود نے پاکستانی سیاست پر ایک تحقیقی مقالے میں لکھا ہے کہ: جنرل اسکندر مرزا (1955۔ 1959)، جنرل ایوب خان (1958۔ 1969)، جنرل یحیٰ خان (1969۔ 1971)، جنرل جنرل ضیاء الحق (1977۔ 1988) اور جنرل پرویز مشرف (1999۔ 2008) سب کے سب جنرل جمہوریت کا گلا گھونٹ کر اقتدار میں آئے۔ جبکہ اجمل کمال نے لکھا ہے کہ: پاکستانی معاشرے میں اختلاف راء کا گلا گھونٹنا اور عدم برداشت کی ایک طویل تاریخ ہے۔

اظہار کی آزادی کے لئے مصنفوں اور صحافیوں نے بڑی تکلیفوں کا سامنا کیا ہے۔ سن 1948 میں پہلی بار اظہار کی آزادی کو دبانے کی کوشش کی گئی جب پبلک سیفٹی ایکٹ آرڈیننس کو رائج کیا گیا۔ اس کے بعد 1952 میں پہلی قانون ساز اسمبلی نے اس بل کو مزید بھیانک شکل دے کر صحافیوں اور لکھنے والوں پر مسلط کردیا۔ اسی بل کے تحت مسلم لیگ کی حکومت نے 1948 میں پنجاب کے اندر پی پی ایل کے رسالوں کے اوپر پابندی لگادی۔ جبکہ 1949 میں سندھ کی حکومت نے اس الزام پر کہ ڈان اخبار نے کچھ وزراء کے بارے میں غلط خبریں لگائی ہیں، اخبار کی سرکیولیشن روک دی۔ سن 1952 میں ڈھاکہ سے نکلنے والا اخبار پاکستان آبزور کے مدیر اور صحافیوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیل میں ڈالا گیا۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ اخبار نے اس وقت کے وزیر اعظم کے خلاف اداریہ لکھا تھا۔ اسی سال آفیشل سیکریٹس ایکٹ کا نفاذ کیا گیا۔ جس کا مقصد پریس کی آواز کو مزید دبا کے رکھنا تھا۔

ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کے قیام کے سات سالوں (1947۔ 1953) کے اندر اندر پنجاب میں 31 اخبارات پر پابندی لگا دی گئی۔ صحافت پر شامت تو تب آئی جب خود کو فیلڈ مارشل کہنے والے ایوب خان نے 1958 میں فوجی حکومت کا اعلان کردیا۔ اس حکومت کا سب سے بڑا ہتھیار یہ تھا کہ صحافی فوجی حکومت پر کسی قسم کی بھی تنقید نہیں کرسکتے۔ اس کے بعد ہر آمر نے میڈیا کے ساتھ یہی روایہ رکھا۔ ایوب کے دور میں پریس ایڈوائس سسٹم اور پریس ایڈوائزی بورڈ (جن کو بعد میں کونسل یا کمیٹی کہا گیا) کا بنیاد رکھا گیا جن میں اخبارات کے مدیر اور سرکاری افسروں کو ممبر بنایا گیا۔ پریس ایڈوائس سسٹم نے ملک میں تحقیقاتی صحافت کے لئے تمام دروازے بند کردیئے۔ پریس کو حکومتی پالیسیوں کے خلاف کچھ بھی چھاپنے کی اجازت نہیں تھی۔ کیونکہ وہ قومی یکجہتی اور ملکی سلامتی کے خلاف ہوسکتا ہے۔ صحافی حکومت اور عوام کے درمیان صرف پیغام رسانی کا کام کرنے لگے۔

مگر 05 جولائی 1977ء ہی جنرل ضیاء نے مارشل لاء کا اعلان کیا تو ریاست کا بچا کچھا نور بھی چلا گیا۔ اسی شام جنرل ضیاء نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: سیاسی قیادت ملک کو بحرانوں سے نکالنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ ایسے میں فوج کا خاموش تماشائی بنے بٹھے رہنا کسی گناہ سے کم نہیں۔ 1977 سے 1979 تک ضیاء اور اس کے ساتھی جرنیل پوری قوم کو یہی دلاسہ دیتے رہے کے آج نہیں تو کل انتخابات کروائے جائیں گے۔ لیکں پھر جنرل ضیاء نے بحرانوں میں گھری ہوئی قوم سے خطاب کرتے ہوے کہا کہ: میں خواب میں ایک مقدس آواز سنی ہے جس نے مجھے بتایا کہ انتخابات کروانا غیر اسلامی عمل ہے۔

حقیقت میں ضیاء نے کوئی خواب نہیں دیکھا تھا۔ یہ تو اس کے چھ جنرل (جنرل چشتی، جنرل اقبال، جنرل جہانزیب، جنرل سرور خان، جنرل غلام حسن اور جنرل غلام محمد) تھےجنہوں نے اسے انتخابات ملتوی کرنے کا مشورہ دیا تھا اور انتخابات غیر معینہ مدت تک ملتوی ہوگئے۔ جنرل ضیاء کی آمریت کا سارے کا سارا ملبہ صحافیوں پر آن گرا۔ پبلک میں صحافیوں کی تذلیل کا عمل شروع ہوگیا۔ 1988 میں رجسٹریشن آف پریس اینڈ پبلیکشن آرڈیننس نامی ایک قانون متعارف کروایا گیا جس کے تحت پریس قائم کرنے یا اخبار شروع کرنے سے پہلے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سے اجازت لینا لازمی تھا۔ ہر اخبار میں ایک انفارمیشن افسر مقرر کیا جاتا تھا جس کا کام یہ تھا کہ وہ ہر خبر پر نظر رکھے اور دیکھے کے کونسی خبر شائع کرنی ہے اور کونسی نہیں۔

ضیاء آمریت اور سندھی صحافیوں کی جدوجہد کے حوالے سے سندھ کے سینئر صحافی جناب سہیل سانگی سے انٹرویو کیا (جناب سہیل سانگی ڈان اخبار میں سب ایڈیٹر، سندھی اخبار عوامی آواز کے مدیر۔ اور ہفت روزہ نیوز میگزین آرسی کے بانی ایڈیٹر رہ چکے ہیں، ضیاء دور میں صحافت کرنے کے جرم میں جیل بھی کاٹی)۔ سانگی صاحب کا کہنا تھا کہ: ضیاء کی آمریت کے دوران سندھی صحافیوں نے سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کیا۔ جب ہر طرف سینسرشپ کا بھوت چھایا ہوا تھا۔ تب بھی اردو اور انگریزی اخبارات کو کچھ نا کچھ حقیقتیں شائع کرنے کی اجازت مل جاتی۔ مگر سندھی اخبارات کو تو وہ اجازت بھی نہیں تھی۔ انفارمیشن افسر ہمیں بتایا کرتا تھا کے کیا چھاپنہ ہے اور کیا نہیں۔ جیسا کہ وقت کی کمی ہوا کرتی تھی تو نکالی ہوئی خبر کی جگہ دوسری خبر لگانا مشکل ہوجاتا تو وہ جگہ ہم خالی ہی چھوڑ دیتے جو بعد میں پریس سینسرشپ کے خلاف ہماری احتجاج کی نشانی بن گئی۔ کبھی کبھار تو آدہے کا آدہا صفحہ ہی خالی چلا جاتا تھا۔

سانگی صاحب کا مزید کہنا تھا کہ: ایک بار میں نے ایک انگریزی اخبار سے کوئی خبر ترجمہ کرکے لگائی اور یہ بھی حوالہ دیا کے یہ خبر پہلے ہی انگریزی اخبار میں شائع ہو چکی ہے۔ لیکن پھر بھی اگلے دن مقامی فوجی افسر نے بلوالیا اور مجھے میرا ہی اخبار دیکھاتے ہوئے پوچھا یہ خبر کیوں لگائی ہے۔ ؟ میں نے جواب میں اسے انگریزی اخبار کا حوالہ دیا۔ تو اس نے کہا: ہاں مگر انگریزی اور اردو کے قارئین سڑکوں پر نہیں آئیں گے مگر سندھی قارئین سڑکوں پر آجائیں گے۔

سہیل صاحب نے مزید بتایا کے صحافیوں کو جیلوں میں ڈالا گیا۔ کوڑے مارے گئے۔ ان کا قصور اتنا تھا کہ وہ صحافت کر رہے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ لاہور میں کچھ صحافیوں کو جیل میں ڈالا گیا تو حیدرآباد کے دو سندھی صحافی غنی درس اور زاہد سمو نے صحافی بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے لئے لاہور جاکر گرفتاری دی۔

اسی حوالے سے ایک اور سینئر صحافی ارشاد چنہ نے بتایا کہ: ضیاء دور میں جب روزنامہ مساوات پر پابندی لگائی گئی تو اس کے خلاف سندھ کے صحافیوں نے ایک تحریک چلائی جس میں میں نے (ارشاد چنہ) شمشیرالحیدری، غنی درس، زاہد سمو اور خیر محمد کھوکھر نے اہم کردار ادا کیا اور ہمیں جیل بھی جانا پڑا۔

پی ایف یو جی کے نائب صدر اور سینئر صحافی محترم خالد کھوکھر صاحب نے مجھے انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ: ضیاء کی آمریت کے خلاف سندھی صحافیوں نے بڑی تگڑی صحافت کی۔ ہماری آواز کو دبانے اور مسخ کرنے کی کوشش کی گئی مگر ہم سچ پر قائم رہے۔ مثال کے طور پر سندھی زبان کے مشہور شاعر اور صحافی شمشیر الحیدری نے اپنے کالم فل تھرو میں ضیاء حکومت کی پالیسیوں پر خوب لکھا۔ تب وہ مہران اخبار کے مدیر تھے۔ جیسے کے مہران اخبار پیر پگارا کا اخبار تھا۔ حیدری کو کہا گیا کہ وہ ضیاء حکومت کے خلاف لکھنا بند کریں۔ جب انہوں نے ایسا نا کیا تو ان کو اخبار سے نکال دیا گیا۔

خالد صاحب کا مزید کہنا تھا کہ: جیسے کہ ان دنوں چند ہی سندھی اخبارات جیسے عبرت، مہران، ہلال پاکستان، آفتاب وغیرہ شائع ہوتی تھیں مگر ان اخبارات نے اپنا کردار خوب سے نبھایا۔ خاص طور پر ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران۔

آج بھی اگر ہم دیکھیں تو ہمارا حکمران طبقہ صحافیوں اور صحافت کو دبانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ ڈان لیکس کا مثال آپ کے سامنے ہے۔ ایک صحافی کو صرف اس لئے قصوروار ٹہرایا جاتا ہے کہ اس نے خبر کیوں دی جو کہ اس کا کام ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).