ہزارہ ہم خدا دارہ


پتہ نہیں قربان علی آج کہاں ہے۔ وہ جو اپنے ہر دکھ میں مغموم، خوشی میں مسرور، ناکامی پہ پرامید اور کامیابی پہ مست ہوکر چلّاتا تھا۔ ”ہزارہ ہم خدادارہ “ یعنی ”ہزاروں کی بھی خدا سنتا ہے“۔ جو ہر مصیبت، ہر راحت، ہر مشکل اور ہر آسانی پہ صبر اور شکر کیلئے یہی ایک نعرہ لگاتا تھا۔ ”ہزارہ ہم خدادارہ“۔

قربان علی کون تھا اور آج کیوں مجھے اتنی شدت سے یاد آرہا ہے۔ اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے میں آپ سے ”ہزاروں“ کا تعارف تو کروا دوں، کیونکہ آپ میں سے اکثر لوگ یہ نہیں جانتے، ”ہزارہ“ کون ہے؟ جیسے پاکستان کی نصف سے زیادہ آبادی بلوچ کو سندھی اور پنجابی کے ہم وزن بلوچی کہہ کر پکارتی ہے، ویسے ہی ہزارہ نسل سے بھی شناسائی کا یہ عالم ہے کہ اچھے خاصے لوگ ان کا تعلق ضلع ہزارہ سے جوڑتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ ایبٹ آباد اور مانسہرہ کے اردگرد کے لوگ کوئٹہ جا کر آباد ہوئے ہیں۔ اس لئے جب بھی کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے، تو لاہور میں اُنہیں ”گرائیں “ سمجھ کر کڑھتے ہیں۔ اور کراچی والے اُنہیں ہزارہ کے ”ہندکو “سمجھ کر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ حالانکہ کمپیوٹر پہ بس ایک کلک کرنے کی دیر ہے۔ آپ ”ہزارہ“ لکھ کر بٹن دبائیں، سب کچھ اسکرین پر کھل جائے گا آپ کے سامنے۔ آپ کو پتہ چل جائے گا کہ یہ منگولوں کی وہ نسل ہے، جو دھاڑتے ہوئے، کھوپڑیوں کے مینار لگاتے، جب سینٹرل ایشیا سے سینٹرل افغانستان تک پہنچے، تو اپنی اس بربریت سے منکر ہو گئے۔ شاید علم کے خزانے دریا برد کرتے ہوئے ان کے کسی بزرگ نے چپکے سے کوئی ایک ”کتاب“ بغل میں دبا لی تھی۔ بس اُسی کی برکت سے اس نسل نے ایک مہذب اور متمدن زندگی کا آغاز کیا۔ تلواریں پھینک کر انہوں نے کتابیں اٹھالیں اور گھوڑوں سے اتر کر علم و ہنر کے حصول کے لئے خاک نشین ہوگئے۔ ناموں کے ساتھ ان میں سے اکثر لوگ آج بھی ”چنگیزی “ لکھتے ہیں۔ لیکن سر یہ در مصطفی پہ ہی جھکاتے ہیں۔ وہ کتاب شاید فارسی میں تھی، اسلئے اُن کا منگولی لہجہ اختیار کرکے ہزارگی  Dialect بن گئی۔ اور یہ اب وہی زبان بولتے ہیں۔

 لیکن افغانستان کے امیر عبدالرحمان کو اُن کی اس شرافت کے باوجود اپنے لئے کوئی خطرہ محسوس ہوا کہ اُس نے مذہب کو بنیاد بناکر ان کی نسل کشی شروع کردی، جو وقتاً فوقتاً آج تک جاری ہے۔ بلکہ ہزارہ نسل کی ہجرت کے ساتھ ساتھ اُن کا پیچھا بھی کر رہی ہے۔ اس لئے امیر عبدالرحمان کے دور میں بلوچستان اور ایران تک ہجرت کرنے والے ہزارے اب اپنی جان بچانے کے لئے آسٹریلیا اور یورپ کے کونوں کھدروں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس تعارف کے باوجود بھی اگر یہ لوگ آپ کے لئے ابھی تک اجنبی ہیں،تو میں تھوڑا سا اور تعارف کروادوں۔ قاضی محمد عیسیٰ (تحریک پاکستان)، جنرل موسیٰ (کمانڈر انچیف پاکستان 1958-1966)، شربت علی چنگیزی ( ایئر مارشل1965-1971)، قیوم چنگیزی (کیپٹن قومی فٹبال ٹیم 1960)، اسحاق بیگ ہزارہ (باڈی بلڈر۔ مسٹر پاکستان) ابرار حسین (باکسر)، محسن چنگیزی (شاعر)، سجاد احمد (پروڈیوسر ”دھواں“) یہ سب لوگ کوئٹہ کی صاف ستھری اور سلیقے سے سجائی اُن ہی گلیوں سے نکلے ہیں، جو امیر عبدالرحمان کے دور میں آکر آباد ہونے والے اُن کے آباﺅ اجداد نے کوئٹہ کے ”مہردار “ نامی پہاڑ کا سینہ چیر کر بنائی تھیں۔ جو اب آہستہ آہستہ ویران ہورہی ہیں۔

اس تعارف کے بعد آپ یقینا ہزارہ کو ہزارہ ہی سمجھ کر اُس کے دکھ پر افسوس کا اظہار کریں گے۔

ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ مجھے آج قربان علی یاد آرہا ہے کیونکہ میرا تعارف بھی ”ہزاروں“ سے قربان علی کے توسط سے ہوا تھا۔ اس تعلق کی ابتدا دشمنی سے ہوئی تھی، شدید دشمنی۔ نہیں۔ آپ غلط سمجھے۔ یہ دشمنی شیعہ سنی والی نہیں تھی، کیونکہ ان دنوں تک امیر عبدالرحمان کی سوچ افغانستان کی سرحد پار کر کے پاکستان تک نہیں پہنچی تھی، نہ ہی دیواروں پر ”شیعہ کافر“ کے نعرے لکھے ہوئے تھے۔ اُن دنوں میں تو محرم کا ماتمی جلوس بھی بے خوف و خطر سنی تماشائیوں کے بیچ میں سے ہوکر گزرتا تھا۔ ہماری دشمنی تو سینما کے ٹکٹ پر تھی۔ تب کوئٹہ کے سینما ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ساتھ جلائے نہیں گئے تھے۔ اُن میں انگریزی فلمیں لگتی تھیں اور فلمیں بھی وہ، جن کو آج ”کلاسک“ کا درجہ حاصل ہے۔ پہلے دوچار دنوں تک کے تینوں شوز میں اردگرد کی سڑکیں جام ہوا کرتی تھیں۔ ٹکٹ کا حصول جان جوکھوں کا کام ہوا کرتا تھا۔ کم و بیش ویسا ہی منظر، جیسے آج کل آفت زدہ علاقوں میں راشن کی تقسیم کے وقت نظر آتا ہے۔ باقاعدہ گروپس بنے ہوئے تھے اور ہر گروپ کا ایک جانباز ٹکٹ حاصل کرنے کا ذمہ دار ہوتا تھا۔

قربان علی بھی اپنے گروپ کا جانباز تھا۔ کیونکہ ”ہزاروں“ میں ہر دوسرا لڑکا باکسنگ، جوڈو اور جمناسٹک کی ٹھرک میں مبتلا ہوتا ہے۔ اس لئے قربان علی اپنی قمیض اتارکر (لو چلتی ہو یا برف باری) سرسوں کا تیل جسم پہ ملتا اور باکسنگ، جوڈو اور جمناسٹک کے سارے کرتب دکھا کر کم و بیش ہر بار کامیاب لوٹتا اور فاتحانہ انداز میں نعرہ لگاتا۔ ”ہزارہ ہم خدا دارہ“۔ یہ نعرہ ہمیں کسی طعنے کی طرح چبھتا، جب ہمارے گروپ کا جانباز خالی ہاتھ لوٹتا۔ اور پھر ایک بار ہم سے یہ نشتر برداشت نہیں ہوا اور قربان علی کے نعرے کے جواب میں ہمارے گروپ کی طرف سے ایک مکا بلند ہوا اور قربان علی کی ناک سے خون بہنے لگا۔ بس پھر کیا، دونوں طرف سے ایسی مکا بازی ہوئی کہ مداخلت کرنے والی پولیس کے ایک سپاہی کا دانت بھی ٹوٹ گیا۔ اب آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اس کے بعد پولیس نے ہمارا کیا حشر کیا ہوگا۔

ہم دونوں گروپس 3 دن تک حوالات میں بے یارومددگار پڑے رہے۔ شروع میں تو ایک دوسرے پہ غراتے رہے لیکن پھر نظریہ ضرورت کے تحت اتنے قریب آ گئے کہ اگلی فلم کے ٹکٹ کے حصول کے لئے ہم دونوں گروپس کا ایک ہی جانباز تھا، ”قربان علی“۔ پھر یہ دوستی صرف ٹکٹ تک محدود نہیں رہی۔ پکنکوں اور دعوتوں تک پھیل گئی۔ اگر کوئی نئی فلم نہ لگتی تو جمعہ کی چھٹی کبھی ”ہنہ اوڑک“ میں پکنک مناتے گزرتی، کبھی ”چلتن“ میں۔ اور محرم کے دن تو ہم مری آباد میں ہی گزارتے تھے۔ امام حسین کے نام کی خیرات ہو، یا امام جعفر کے کونڈے۔ افطار پارٹیوں میں وقت کی اونچ نیچ کی اٹکھیلیاں، یا زنجیر زنی کے وقت قربان علی کو ہماری طرف سے ہونے والے فرینک اشارے۔ عقیدت اور مذاق کی تفریق، احترام اور برداشت اپنی اپنی جگہ سب موجود تھا۔

آج مجھے قربان علی کیوں اتنی شدت سے یاد آیا ہے، کیونکہ کوئٹہ سے کراچی جاتے ہوئے ایک کار میں سوار چار ہزارہ نوجوانوں کو مستونگ میں عین اُس مقام پر گولی ماردی گئی، جہاں کبھی قربان علی کی سائیکل پنکچر ہوئی تھی۔ ہم پکنک کی غرض سے ایک باغ میں آئے ہوئے تھے اور وہاں پہ یہ سیاپا ہوگیا۔ پنکچر کا سامان قربان علی کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی، جو وہ بھول گیا تھا۔ ہماری تمام لعنت ملامت اور دھتکار پھٹکار کے جواب میں اُس نے پھر وہی نعرہ لگایا۔ ”ہزارہ ہم خدا دارہ“۔ اور پھر واقعی خدا ہزارے کی مدد کو پہنچ گیا۔ قریب ہی مدرسے کے طالب علموں کا ایک غول اپنی Extra curricular activities کے لئے باہر نکلا۔ ہماری بے بس شکلوں کو دیکھ کر وہ رک گئے اور تھوڑی دیر بعد ہم سب مدرسے کے صحن میں کھڑے قربان علی کی سائیکل کا پنکچر لگتا دیکھ رہے تھے۔قربان علی کے ساتھ ہمارے باقی ساتھی امداد علی، علمدار اور جعفر حسین۔ یہ چاروں تب بھی ہزارے اور شیعہ تھے، مگر کافر قرار نہیں دیئے گئے تھے۔ اس لئے چائے، پانی اور پنکچر، ہر طرح سے ان کی خدمت ہوئی اور ہم صحیح سلامت کوئٹہ لوٹ آئے۔

پچھلے کئی برسوں میں ٹارگٹ کلنگ اور بم بلاسٹ کے کئی واقعات میں لاشوں کے انبار لگے۔ شاید قربان علی بھی مرگیا ہے، یا پھر اُس کی آواز چلاتے چلاتے بیٹھ گئی ہے۔ ”ہزارہ ہم خدا دارہ“

3 مئی 2018


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).