ایک اور طرح کی آنر کلنگ


مولوی امیر الدین کا پارہ ہمیشہ کی طرح آج بھی ساتویں آسمان پر تھا۔ گرجتے برستے مولوی کا ہوائی فائر کرنے میں تو کوئی ثانی ہی نہیں تھا۔ حالانکہ سیّدانی بھی بڑی دل گردے والی عورت تھی۔ زبان کی کافی تیز۔ کرنے پر آتی تو ذرا لحاظ نہ کرتی مگر جب مولوی امیر الدین فائر کھولتے تو سیّدانی سیز فائر کر دیتی۔ زندگی کی گاڑی بس یونہی چھک چھک کرتی ہوتی چلی جا رہی تھی۔ کسی اسٹیشن پر ذرا زیادہ دیر رک جاتی اور جب تک سبز جھنڈی ہلتی نظر نہ آتی زمین و آسمان سانس روکے رکھتے۔

مگر آج تو حد ہی ہو گئی تھی مولوی امیر الدین کو رہ رہ کر غصے کے دورے پڑ رہے تھے۔ سب بچے اپنے اپنے کمروں میں دبکے بیٹھے تھے بس تیروں کی بوچھاڑ سہنے کے لیے سیّدانی میدان میں ڈٹی ہوئی تھی بات کچھ بھی نہ تھی بڑی بیٹی شرمین نے کالج میں داخلے کی ضد کر ڈالی تھی مولوی امیر الدین کو یوں لگا جیسے اس نے باپ دادا کی عزت پر کالک پوت دی ہو۔ بیٹی بھی دھن کی پکی تھی۔ ایک ہی رٹ تھی کہ ’’آخر وہ کب تک گھر میں بیکار بیٹھی رہے گی۔ نہ آگے پڑھنے کی آزادی۔۔۔ نہ ہی کوئی ملازمت کرنے کا ماحول۔۔۔ ایسے میں کوئی کرے تو کیا کرے؟ انگلینڈ میں رہتے ہوئے بھی اس قدر دقیانوسی ماحول۔۔۔ ؟‘‘ شرمین اکثر بڑبڑاتی۔۔۔۔ ! مولوی امیر الدین بیوی اور بیٹیوں کو تو تہہ خانے میں چھپا کر رکھتا مگر محلے بھر کی نئی نئی جوان ہوتی ہوئی شوخ و شنگ لڑکیوں کو کن اکھیوں سے دیکھنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتا تھا۔ مولوی کے اسی دوغلے پن سے اس کی بیٹی شرمین کو چڑ تھی کہ ’’خود میاں فضیحت اور دوسروں کو نصیحت۔۔۔۔ !‘‘ مولوی کی دو بیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔ شرمین اور ریان جڑواں بہن بھائی تھے اس کے بعد نرمہ اور کامران۔۔۔۔ بچے ماں باپ کے درمیان ہونے والی سرحدی جھڑپوں میں ملوث نہ ہوتے وگرنہ ماں کی طرفداری کرنے کی پاداش میں ان کی شامت آ جاتی۔

سیدانی محلے بھر کی بچیوں کو قرآن پاک پڑھا کر ثوابِ دارین حاصل کرتیں۔ بسم اللہ۔ آمین۔۔۔ عقیقے۔۔۔ میلاد۔۔۔ گیارہویں۔۔۔ نذر نیاز۔۔۔۔ نذرانے بس ایک شور سا مچا رہتا۔ چند ایک عورتیں ہمیشہ سیّدانی کے پاس دعا کروانے کی غرض سے موجود رہتیں۔ ہر جمعرات کو خاص دعا کا اہتمام کیا جاتا۔ درودسلام کی محفل منعقد ہوتی۔ جو مولوی امیر الدین کے گھر لوٹ آنے سے پہلے ہی ختم کر دی جاتی۔

اگر کبھی عورتوں کو اٹھنے میں دیر ہو جاتی اور مولوی امیر الدین گھر لوٹ آتا تو اس کے قدموں کی چاپ سن کر سبھی عورتیں دوپٹے، چادریں دوبارہ سے درست کرنے لگ جاتیں۔ سیّدانی ہاتھ کے اشارے سے انہیں خاموش رہنے کو کہتی کہ ’’مولوی امیر الدین راہداری سے گزر جائیں تو وہ پھر نکلیں۔ ‘‘ گویا ایک ہنستا بستا گھر نہ ہوا بیگار کیمپ ہو گیا۔ جہاں ہر وقت کسی انہونی کا دھڑکا لگا رہتا۔

مولوی کی بڑی بیٹی شرمین زندگی سے بھرپور لڑکی تھی۔ جی بھر کر جینا چاہتی تھی۔ ہنسنا۔ کھیلنا۔ کودنا چاہتی تھی مگر گھر کا ماحول یوں تھا جیسے شہر خموشاں۔ ایسے میں تنہائی سے گھبرا کر وہ کسی نہ کسی سہیلی کو گھر پر بلاتی کیونکہ اسے کہیں آنے جانے کی اجازت نہیں تھی۔

چھوٹی بیٹی فرمین اللہ میاں کی گائے تھی۔ سکول ختم کرتے ہی گھر کی زیادہ تر ذمہ داری اس کے کندھوں پہ ڈال دی گئی تھی۔ کیونکہ اس کے اندر ایک فطری رکھ رکھاؤ اور سلیقہ تھا جو کہ شرمین میں قدرے کم تھا۔ اس کی نٹ کھٹ طبیعت اسے کبھی سنجیدہ ہونے کا موقعہ ہی نہ دیتی۔ جبکہ فرمین بہت کم ہنستی اور بولتی۔۔۔ اس نے کبھی شکایت کا موقعہ ہی نہیں دیا تھا۔ اس کے مقابلے میں شرمین ہمیشہ مولوی کے لیے دردِ سر بنی رہتی۔ شکل و صورت اور رنگ روپ میں فرمین سے کافی دبتی تھی اس لیے اور کئی حیلوں بہانوں سے نمایاں ہونے کی کوشش میں لگی رہتی۔ کبھی بھڑکیلا لباس تو کبھی تیز میک اپ بات بے بات قہقہے لگانا۔ جن کی آواز سے مولوی کو سخت چڑ تھی۔ مولوی کا بس نہیں چلتا تھا کہ بے فکری سے قہقہے لگاتی ہوئی شرمین کا گلا دبوچ لے کیونکہ مولوی کے خیال میں ’’عورتوں کو زیادہ وقت گھرداری، عبادت، توبہ استغفار اور گریہ زاری میں گزارنا چاہیے کیونکہ اپنے ناشکرے پن کی وجہ سے جہنم میں زیادہ عورتیں ہی ہوں گی اور انہیں اس دنیا میں ہی اپنی بخشش کا سامان کرنا چاہیے۔ ‘‘

مولوی امیر الدین کو فکر تھی کہ کسی طرح شرمین کے ہاتھ پیلے کر دے۔ کئی جاننے والوں سے رشتے کے بارے میں کہہ رکھا تھا مگر جب بھی کوئی رشتہ آتا شرمین کوئی نہ کوئی ڈرامہ رچا کر لوگوں کو گھر سے بھگا دیتی اور سیّدانی کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اس کی نادانیوں پر پردہ ڈال دیتی۔ دراصل شرمین کو شادی کے نام سے ہی نفرت تھی۔ ابا اور اماں کے بے جوڑ رشتے کی نوعیت دیکھ کر تو وہ شادی کے نام سے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتی تھی کیونکہ وہ ابا جیسے کسی اور شخص کے پلے پڑ کر گھٹ گھٹ کر مرنا نہیں چاہتی تھی۔

اس قدر بے رنگ زندگی سے شرمین سمجھوتہ نہیں کر پا رہی تھی۔ ایک دن بڑے بھائی کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے اس نے رنگین ٹی وی اور وی سی آر کرایے پر لے لیا۔ مولوی امیر الدین جیسے ہی گھر میں داخل ہوا۔ غیر مانوس سی آواز سن کر اس کے کان کھڑے ہو گئے۔ لونگ روم میں ٹی وی اور وی سی آر دیکھ کر تو وہ جیسے پاگل ہی ہو اٹھا۔ پہلے تو بیوی کی خوب خبر لی۔ کہ وہ جہنمی عورت تھی جو اولاد کو غلط راہ پر لگا رہی تھی۔ سیدانی کے ترکی بہ ترکی جواب کے نتیجے میں آج پہلی بار مولوی امیر الدین کا ہاتھ اس پر اٹھ گیا تھا۔

’’ہائے پاجی۔ مردود۔ ظالم۔ ارے لوگو دیکھو۔ بڑھاپے میں زندگی بھر کے صبر کا کیا صلہ مل رہا ہے۔ ارے میں تو سہاگن سے رانڈ بھلی۔ یہ خصم نہیں۔ سینے کا زخم ہے۔ ہائے کدھر جاؤں میرے مولا۔ ایسے دوزخی سے کب رہائی ملے گی۔ ‘‘ آج سیدانی کے صبر کا پیمانہ چھلک اٹھا تھا۔۔ ’’ٹھہر جا حرامزادی۔ حرافہ۔ ابھی مزہ چکھاتا ہوں تجھے۔۔۔ ‘‘ ایک اور زناٹے دار تھپڑ سیدانی کا دوسرا گال بھی گلال کر گیا۔ سیدانی نے سینہ پیٹ پیٹ کر لال کر لیا۔ مولوی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ بیٹے کو پیٹنا شروع کر دیا۔ شرمین بھاگ کر بیڈ روم میں جا چھپی۔ بڑا سا لوہے کا راڈ اٹھا کر مولوی نے پوری قوت سے ٹی وی اور وی سی آر توڑنے شروع کر دئیے۔ جیسے اس کے اندر الہ دین کے چراغ کا جن گھس گیا ہو۔ ٹی وی اور وی سی آر پر زور آزمائی سے تھک جاتا تو بیٹے کو پیٹنا شروع کر دیتا۔ بیٹا بھی ایسا بسم اللہ کا تخم کہ اُف تک نہیں کی۔ وگرنہ کڑیل جوان تھا۔ باپ کا ہاتھ تو روک ہی سکتا تھا۔ مگر مولوی امیرالدین نے گھر میں اپنی کچھ ایسی دہشت پھیلا رکھی تھی کہ کوئی اس کے مقابل نہ آتا۔ سیدانی اپنے گال سہلاتی ہوئی جھر جھر روئے جا رہی تھی۔ آج تو اس نے مولوی امیر الدین کو بے نقط سنا ڈالیں گویا اگلے پچھلے سب حساب برابر کر ڈالے۔ ’’بے غیرت، رانڈ۔ تیری کبھی بخشش نہ ہو گی۔ تو دوزخ کے سب سے نچلے طبقے میں پھینکی جائے گی۔۔۔ ناشکری۔۔ بے حیا۔ ‘‘ مولوی بکتا جھکتا گھر سے باہر چلا گیا۔

گھر میں درجہ حرارت ابھی کم نہیں ہوا تھا۔ دوسرے دن پھر ہنگامہ ہو گیا۔ مولوی کا خیال تھا کہ شرمین اور ریان دونوں کی اب شادی کر دینی چاہیے۔ ریان کے لیے تو اس نے رشتے کے بھائی کی بیٹی سے۔ بغیر کسی سے مشورہ کیے۔۔۔ پاکستان میں بات طے کر لی تھی، آج سیدانی نے اسے فون پر بات کرتے سنا تو گھر پھر سے پانی پت کا میدان بن گیا۔ سیدانی کا موقف تھا کہ ’’بچے جب پاکستان میں شادی کرنا ہی نہیں چاہتے تو تم کیوں بضد ہو ؟‘‘ ’’دیکھتا ہوں کس میں میرے فیصلے کے خلاف جانے کی مجال ہے۔ یہ سب تیری ہی شہہ کا نتیجہ ہے۔ تو ہی ایک دوزخن ہے اس گھر میں۔ اور سب کو اپنے ساتھ جہنم میں لے کر جائے گی۔ ‘‘مولوی امیر الدین پھر شعلہ بیانی پر اتر آیا تھا۔ اس سے پہلے کہ سیدانی کوئی جواب دیتی۔ دروازے پر کسی نے کال بیل بجا دی۔ اور سیز فائر ہو گیا۔ اب ہر دوسرے تیسرے روز شادی کے مسئلے کو لے کر جھگڑا کھڑا ہو جاتا۔ پھر یوں ہوا کہ مطلع بالکل صاف ہو گیا۔ شادی کے ذکر سے جیسے مولوی کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ گھر بھر پر سکون سا ہو گیا تھا۔ اس کایا پلٹ پر سب حیران سے تھے۔ مولوی اور سیدانی میں بات چیت ابھی تک بند تھی۔

چند ہفتوں کے بعد مولوی امیر الدین نے ایک دن اچانک اعلان کر دیا کہ وہ کچھ عرصے کے لیے پاکستان جا رہا تھا۔۔۔ سب نے سکھ کا سانس لیا۔۔۔۔ تقریباً دو ماہ پاکستان میں رہ کر مولوی امیر الدین واپس انگلینڈ آیا توا س کے رنگ ڈھنگ ہی نرالے تھے۔ خوشی چہرے سے پھوٹی پڑتی۔ بات بات پہ باچھیں کھل جا رہی تھیں۔ سیدانی اور بچوں نے اسے اس سے پہلے کبھی اتنا نرم خو، ہنس مکھ اور مرنجاں مرنج نہیں دیکھا تھا۔ انہیں اندازہ ہی نہ ہوا کہ اس پرسکون تالاب کی تہہ میں کیسے کیسے طوفان چھپے بیٹھے تھے۔ مگر پوچھنے کی جرات کس میں تھی؟

چند روز بعد مولوی امیر الدین نے بیوی بچوں کو لونگ روم میں بلاکر ایک لرزہ خیز انکشاف کر دیا۔ ’’ہم عزت دار خاندانی لوگ ہیں۔ باپ دادا کی قائم کی ہوئی روایات پر مرنے والے۔ زبان کا پاس رکھنے والے۔ غیرت مند لوگ اپنی منگ کبھی نہیں چھوڑتے۔ اس لیے خاندانی عزت اور ناموس کو بچانے کی خاطر میں نے ریان کی منگیتر سے پاکستان میں شادی کر لی ہے۔ ‘‘

بچوں کے چہرے شرم سے زمین میں گڑ گئے۔۔۔۔ سیدانی کے تن بدن میں جیسے آگ لگ گئی اور اس نے آہ و بکا شروع کر دی۔ ’’ہائے ہائے اٹھارہ سال کی معصوم بچی تیری ان بیٹیوں سے چھوٹی۔ یہ کیا ظلم کیا تو نے۔ ہائے ہائے وہ اپنا سر پیٹتی جا رہی تھی۔ کیسے لوگوں سے نظر ملاؤں گی۔ ان بیٹیوں کی ڈولیاں اس گھر سے کیسے اٹھیں گی۔ اے میرے مولا۔ مجھے اٹھا لے۔ اب کچھ اور دیکھنے کی حسرت نہیں ہے۔۔۔ ‘‘وہ انتہائی درد ناک انداز میں بین کر رہی تھی۔ مگر مولوی امیر الدین سنی ان سنی کر کے اپنے کمرے میں چلا گیا۔

شرمین کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ باہر سڑک پر جا کر چیخ چیخ کر لوگوں کو بتائے کہ غیرت کے نام پر صرف جسموں کا قتل ہی آنر کلنگ نہیں بلکہ معصوم لڑکیوں کے ارمانوں۔ ان کے جذبوں ، ان کی آرزوؤں ان کی امنگوں اور خوابوں کا قتل بھی آنر کلنگ ہی ہے۔۔۔ !

مگر ایسے قتل کی سزا۔۔۔۔۔ ؟

ڈاکٹر رضیہ اسماعیل
Latest posts by ڈاکٹر رضیہ اسماعیل (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).