ایک تھرڈ کلاس وکیل کا غیرقانونی مکتوب


میں اس وقت کمپالا، یوگنڈا میں ہوں۔ یہاں انٹرنیشنل کنزرویٹو ٹریڈ سمٹ میں قطر، پولینڈ، اٹلی، انڈیا اور برطانیہ سمیت دنیا کے کئی ممالک کے مندوبین شریک ہیں لیکن پاکستان کا کوئی نام و نشان نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے مراکش میں ایک سفارتی تقریب میں شرکت کی، وہاں بھی پاکستان کی طرف سے کوئی نظر نہیں آیا۔ دس جولائی کو لندن میں روس کے قومی دن کی تقریب میں بھی مجھے کوئی پاکستانی سفارت کار نظر نہیں آیا۔ ان سارے مواقع پر میری جس سفارت کار سے بھی بات ہوتی ہے، اور وہ اگر انڈین پروپیگنڈا کے زیر اثر بات کرتا ہے تو مجھے حیرت نہیں ہوتی۔ امریکا اگر ہماری حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے امداد روک لیتا ہے تو مجھے تب بھی حیرت نہیں ہوتی کیونکہ ہمیں فارن پالیسی پر بس الله چلا رہا ہے۔ ملٹری چاہے کتنے بھی جتن کیوں نہ کرلے، مغرب کو فارن پالیسی پر بات کرنے کے لئے ایک سویلین چاہیے جو کہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ “وہ” وزیر خارجہ نہ ہونے پر نواز شریف کو کوستے ہیں، پی ایم ایل این “نا معلوم سازشیوں” پر روتی ہے جو کہ فارن پالیسی چلانے نہیں دیتے۔ دوسری طرف سلامتی کونسل جماعت الاحرار پر بین کے بعد بلوچستان کے ہیومن رائٹس پر نظر جمائے بیٹھی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس نے الگ بتا دیا کہ”اگر پاکستان سے زندہ بچ کے بھاگنا ہو” تو کس کا سر پر ہاتھ ضروری ہے- ایکس مینوں (جو اب پارلیمنٹیری بھی ہیں) پر مشتمل جو وفد باہر جا رہے ہیں وہ وہاں “حکومت جانے کے بعد” کسی تھنک ٹینک میں اپنی جگہ بنائے جانے پر زیادہ لابنگ کر رہے ہیں تو پاکستان میں پاناما کے علاوہ اور کیا چیز بکے گی؟

ہماری معزز عدالتوں نے بھی اس لحاظ میں قوم کو محظوظ کرنے کا بہت خیال رکھا ہے۔ جے آئی ٹی رپورٹ عدالت میں پیش کرنے سے پہلے ہی لیک کردی یا کروا دی گئی، تاکہ ٹنڈو الله یار کا تفضل حسین بھی تجزیہ کرسکے کہ “گلی گلی میں شور ہے، موٹو گینگ چور ہے” لہذا جیسا کہ توقع کی جارہی تھی، سپریم کورٹ نے مسلسل پانچ سماعتوں کے بعد تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد اور روزانہ عدالت کے سامنے سیاسی جماعتوں کے بیانوں کی دکانوں کو برداشت کرتے ہوئے پاناما کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔ اس دوران مزید تبصروں کی زبردست بھرمار ہوگی، جس کے بھی ایک ہزار ریٹویٹ ہونگے اس کے مشورے پر بھی غور کیا جائے گا-

اسٹاک ایکسچینج تو چلیں ڈوب گئی لیکن کروڑوں روپوں کے سٹے نے آمدنی کا ذریعہ بہرحال دے ہی دیا، خوب روپیہ کمایا جائے گا، اس کے ساتھ اینکرز کو بھی ویک اینڈ تک اپنی ریٹنگس بڑھانے کا موقع مل جائے گا۔میاں صاحب پر الگ “اؤے استیفا دے” کا اخلاقی پریشر۔ تو ماحول بن رہا ہے اور خوب بن رہا ہے۔

کون بنے گا وزیر ا عظم کہہ کر الگ خود نون لیگ میں بھی پوری کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ جو کمر درد کا کہہ کے ناراض ناراض پھر رہا ہے اس کو مصطفیٰ کمال 2۔0 بنوا دیا جائے تو بندر کے ہاتھ میں الیکشن سے پہلے ہی استرا آنے کا سین ہوسکتا ہے لیکن زرداری صاحب اڑے ہوئے ہیں کہ بندر کو کرسی کبھی نہیں مل سکتی۔ اس ہبڑ گبڑ میں اگر کوئی جمہوریت کی بات کرتا ہے تو عاصمہ جہانگیر جیسے غدار اس کو ڈراتے ہیں کہ یہاں دکان صرف اسی کی چلنی ہے جس کا سیاں کوتوال ہے- ورنہ میرے تیرے جیسے تھرڈ ریٹ لوگوں کی نانی تک جایا جا سکتا ہے۔ایسے ہی جمہوریت پسند جرنلسٹوں کے لئے گالی بریگیڈ الگ توپیں سجائے بیٹھی ہے- جو ان کا یار نہیں وہ بس مشال کی طرح موت کا حقدار ہے، توہین عدالت کی تڑی الگ جان نکال دیتی ہے تو یونیورسٹی آف لندن سے قانون کی ڈگری لینے والی ایک تھرڈ کلاس وکیل یہ بھی نہیں پوچھ سکتی کہ “میں نے کرمنل لاء، کنٹریکٹ لاء، ایکویٹی اینڈ ٹرسٹ، اور ٹورٹ کے ماڈولز پڑھنے کے دوران میں نے لارڈ ڈیننگ کے فیصلوں کو بھی پڑھا۔

1944 سے 1999 کے بستر مرگ تک کے اپنے ہائی کورٹ سے لے کے ہاؤس آف لارڈز میں بطور جج کے کیریئر میں لارڈ ڈیننگ نے کئی ایسے انقلابی فیصلے کیے، جس سے برطانیہ کی پارلیمان کو اپنے قوانین تک بدلنا پڑے۔ یورپی یونین کو سپریمیسی دینے سے لے کے بیواؤں کو انصاف دینے تک۔ برطانیہ کی قانونی تاریخ لارڈ ڈینینگ کے انقلابی فیصلوں سے بھری ہوئی ہے۔ ایکویٹی کا قانون بنا ہی لارڈ ڈینننگ کی وجہ سے۔ برطانیہ کے قانونی حلقوں میں لارڈ ڈینننگ کو جانا ہی “نارم بریکر” کے نام سے جاتا ہے، لیکن اس لارڈ ڈینننگ نے اس کے باوجود اپنے معرکہ آرا متنازع اور تاریخی فیصلوں میں پریس کو تاریخی آزادی اور اپنے کیسوں کی کوریج کرنے کی حوصلہ افزائی کرنے کے باوجود کبھی کسی اینکر یا جرنلسٹ سے متاثر ہوکے ماریو پازو، کسی گاڈ فادر، سسیلین مافیا کو کوٹ نہیں کیا۔ ہر دوسرے جج کی طرح اس کے فیصلوں میں صرف جیریمی بینتھم، کبھی آسٹن، کبھی کیلسن اور ہارٹ کے نام دکھائی دیتے ہیں۔ وہ چاہتا تو فکشن کو قانون میں لا کے بھی ایک نیا نارم وجود میں لا سکتا تھا لیکن اس کی ہر دلیل میں آپ کو قانون نظر آئے گا، یہی وجہ ہے کہ وہ قانونی تاریخ میں مولوی منیر، مولوی مشتاق، یا چوہدری افتخار نہیں بلکہ بیسویں صدی کی سب سے زیادہ پر اثر قانونی شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس تھرڈ کلاس وکیل کی پچھلے سال برطانیہ کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس لارڈ نیوبرگر سے گلدفورڈ چرچ میں ایک تاریخی ملاقات ہوئی تھی جس میں انہوں نے اس کی ریسرچ کے لئے پاکستان کی عدلیہ اور کرپشن کے حوالے سے یادگار تبصرہ کیا “اگر تم سول ملٹری تعلقات میں عدلیہ کا کردار متعین کرنے اور کرپشن کو روکنے کا حل تلاش کرنے میں کامیاب ہوگیئں تو تمہیں نوبل انعام مل جائے گا”۔

اس کے بعد وہ کافی دیر تک افتخار چوھدری کا ذکر کرتے رہے کہ وہ پاکستان کا لارڈ ڈیننگ بن سکتا تھا ۔ لیکن وہ پی ایچ ڈی کرنے والی تھرڈ کلاس وکیل لارڈ نیوبرگر کو یہ نہ بتا سکی کہ جس افتخار چوھدری کو وہ پاکستان کا لارڈ ڈینینگ کہہ رہے تھے اس کا سیاسی ایجنڈا کیا تھا۔ یا جس طرح دنیا بھر کے قانون دانوں نے ہماری عدالتوں کے “نظریۂ ضرورت” پر تحقیقات کی ہیں اس سے تاریخ میں ان کو کیسے یاد رکھا جائے گا

حالانکہ سن رہے ہیں کہ عمران کو تاریخ پر تاریخ دینے والی عدلیہ اسی باسٹھ تریسٹھ کے تحت اگلے ہفتے تک فیصلہ سنا دے گی۔ اور یوں ہنگامے، تناؤ اور ٹکراؤ کا سامنا کرنے والی ملکی سیاست اپنے حوالدار اینکرز کے مطابق صرف چند دنوں کے بعد ہی کنٹرول میں آجائے گی، موٹو گینگ کی گرفتاری کے بعد پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ ہوجائے گا۔ سندھ میں اگر ہوتی بھی رہے تو کیونکہ خان صاحب کو پرواہ نہیں تو کوتوال بھی پرواہ نہیں کرتے، لہٰذا زرداری صاحب نئے پولیس لاء بنایئں، نیب کو کک آؤٹ کریں یا پانی میں پاخانہ ملا کر دیں، فی الحال صرف میاں اینڈ فیملی ٹارگٹ ہے۔ یہی وجہ کہ بندر کو کرسی کے خوابوں کی طرح پیپلے بھی ناچ رہے ہیں کہ آنے والے وقتوں میں صرف یہی پڑتی رہنی ہے- ان کو نہیں پتہ کہ آگے آ کیا رہا ہے ۔ لہٰذا میاں صاحب کے خلاف فیصلہ آئے، تب بھی تناؤ بڑھے گا، حق میں آئے تو تب بھی۔ کیونکہ جب محمد منیر کے نظریہ ضرورت سے لے کے مولوی مشتاق کے بھٹو کا ایکسٹرا جوڈیشل قتل ، پی سی او والے افتخار چوھدری کے کالے ایڈونچرز اور اب ماریو پازو کے قاری ججوں پر مشتمل عدلیہ پانامہ کیس کے فیصلے سے پہلے ہی فکشن کو فیصلوں میں جگہ دے کے قانونی دنیا میں ایک نئی نظیر بنا دے کہ جس کا سیاں ہو کوتوال اس کو ڈر کاہے کا – تو کیا کہا جا سکتا ہے؟

لیکن اس کے باوجود”وہ” اس سارے معاملے میں جہاں مجھ سمیت اور کئی دوسروں کو “ہم چپ ہیں اور دیکھ رہے ہیں” کا پیغام دے کے واضح کر چکے ہیں کہ ان کا اس سارے ڈرامے میں کوئی ہاتھ نہیں لیکن پھر بھی پتہ نہیں کیوں یا تو تصویریں لیک کرکے ٹھٹھا مچا دیا جاتا ہے یا اپنے ہی کزن کی پانچ سو پاؤنڈ لینے والی ون مین فرم کو تیس پرسینٹ ڈسکاؤنٹ کے بعد بھی پچاس ہزار پاؤنڈز (ستر لاکھ پاکستانی روپے) دینے والی جے آئی ٹی کو ایمانداری کا سرٹیفکیٹ بھی دے کے “لگے رہو منا بھائی” کے مصداق گرین سگنل دے دیا جاتا ہے۔ پھر جھڑکا جاتا ہے کہ ہمارا کوئی رول نہیں لیکن 1979 کے ڈائیلاگ کی طرح اگر” بھٹو کو چھوڑا گیا تو وہ ضیاء کو نہیں چھوڑے گا” کے سیکوئل میں اگر “میاں صاحب کو معاف کیا گیا تو وہ جے آئی ٹی کو نہیں چھوڑے گا” کا کہلوا کے ہماری سسلین مافیا سے خائف عدلیہ کو گاڈ فادر کے انتقام سے بھی ڈرایا بھی جاتا ہے گویا نواز شریف نہیں، اپنا بوری والا الطاف بھائی ہوگیا جو چن چن کے بوری تیار کرے گا۔

لہٰذا پہلے ہی اندازہ کرلیں کہ اس بے یقینی کی فضا میں ” کیا پک کے سامنے آ سکتا ہے۔” لیکن وہ تھرڈ کلاس وکیل پھر بھی اپنی تھرڈ کلاس ڈگری پر اترا کے کہتی ہے کہ بچوں کا جو بھی ہو، میاں صاحب قانونی طور پر نا اہل نہیں ہوسکتے، آگے جو ان کی مرضی!

شمع جونیجو

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمع جونیجو

شمع جونیجو علم سیاسیات میں دلچسپی رکھنے والی ماہر قانون ہیں۔ یونیورسٹی آف لندن سے ایل ایل بی (آنرز) کے علاوہ بین الاقوامی تعلقات میں میں ایم اے کیا۔ ایس او اے ایس سے انٹر نیشنل سیکورٹی اسٹڈیز اور ڈپلومیسی میں ایم اے کیا۔ آج کل پاکستان مین سول ملٹری تعلاقات کے موضوع پر برطانیہ میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ تعلیم کے لئے بیرون ملک جانے سے پہلے شمع جونیجو ٹیلی ویژن اور صحافت میں اپنی پہچان پیدا کر چکی تھیں۔

shama-junejo has 15 posts and counting.See all posts by shama-junejo