ایم ایم اے کی بحالی کس کے اشارے پر؟


خدا سلامت رکھے مولانا شیرانی صاحب کو! جب ایم ایم اے کا نام لیا جاتا تو فرماتے بھائی یہ متحدہ مجلس عمل نہیں بلکہ ملا ملٹری الائنس ہے۔ وہ جب چاہتے ہیں ایک کر دیتے ہیں جب چاہتے ہیں تنکوں کی طرح بکھیر کے رکھ دیتے ہیں۔ گزشتہ الیکشن میں ایم ایم اے اس لیے دوبارہ بحال نہیں ہوئی کہ وہ نہیں چاہتے تھے۔

خیر یہ پانچ سال مذہبی جماعتوں نے بھی الگ الگ ہو کر گزار لیے۔ جمعیت نون لیگ کے ساتھ تھی اور جماعت اسلامی تحریک انصاف کے ساتھ۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے کارکنوں کی چپقلش تو دیکھی مگر نون لیگ اور جمعیت کے کارکنان کو کہیں جھگڑتے نہیں دیکھا۔

بظاہر تو جمعیت کی نون لیگ۔ پیپلز پارٹی۔ اور اے این پی کے ساتھ بھی اچھی یاری چل رہی ہے مگر اس کے باوجود مولانا فضل الرحمن کی طرف سے ایم ایم اے کی بحالی کے لیے اقدامات اٹھانا مشکوک سا لگ رہا ہے۔

آخر مولانا کو کیا ضرورت پڑی کہ وہ اچانک ایم ایم اے کی بحالی کے لیے وفد بھیجنا شروع ہو گئے؟ مجھے عبدالغفور حیدری صاحب کے اس جملے پر بھی اعتراض نہیں کہ خدا نے مجھے دوبارہ زندگی اسی لیے بخشی ہے کہ میں مذہبی جماعتوں کو ایک کر سکوں۔

یقینا یہ نیک کام وہ اپنے بل بوتے پر کر رہے ہیں ان کے پیچھے فقط قوت ایمانی ہے۔ وہ صدق دل سے چاہتے ہیں کہ پاکستان جس مقصد کے لیے بنایا گیا تھا اس مقصد کے نفاذ کے لیے مذہبی جماعتوں کو ایک ہو جانا چاہیے

مگر ذرا رکیے

اس سوال کا ممکنہ جواب کیا ہو سکتا ہے؟ کہ ایم ایم اے فقط دینی جذبے کے تحت بن رہی ہے کوئی مولانا شیرانی سے پوچھے وہ کیا کہتے ہیں؟

کہنے والے کہتے ہیں کہ اندرون خانہ ایک کہانی یہ بھی چل رہی ہے کہ میاں صاحب کے خلاف مذہبی جماعتوں کو اسی طرح اکٹھا کیا جائے جس طرح بھٹو صاحب کے خلاف کیا گیا۔ ممتاز قادری کو بنیاد بنا کر پنجاب کی فضا میاں صاحب کے خلاف کر دی جائے اور اس پر کئی سالوں سے محنت بھی ہو رہی ہے۔ اس تھیوری میں جان ہو سکتی ہے مگر مولانا فضل الرحمن اس طرح کا کردار ادا نہیں کر سکتے۔

کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ تحریک نظام مصطفی کی جب بات کی جائے تو مولانا کہتے ہیں بھائی اس تحریک کا نام نہ لو اس کے پیچھے امریکہ تھا واللہ اعلم

البتہ دو کہانیاں اور بھی ہیں جو ذہن کو لگتی ہیں کہ جماعت اسلامی و دیگر مذہبی جماعتیں جس طرح سیاسی تنہائی کا شکار ہیں انہیں اپنے ساتھ ملانے کے لیے مولانا نے نون لیگ کے کہنے پر یہ قدم اٹھایا ہے؟ کیونکہ بریلوی مکتب فکر کے علماء بھی سیاسی طور پر اکھٹے ہو رہے ہیں۔ تحریک لبیک یارسول اللہ والے خادم حسین رضوی صاحب نے جس طرح اپنے لوگوں کو جمع کیا ہے قریب تھا کہ الیکشن قریب آتے ہی وہ دیگر مذہبی جماعتوں کی طرف بھی اتحاد کا ہاتھ بڑھاتے اور ممتاز قادری کی لاش کو لے کر چل پڑتے۔ اس کا نتیجہ مولانا کی مذہبی جماعتوں سے دوری کی صورت میں نکلتا۔ مولانا کسی اور مذہبی شخصیت کو سامنے لانے کی بجائے پھر خود سامنے آ گئے اس سے ان کو بھی فائدہ ہو گا اور نواز شریف کے خلاف مذہب کا ہتھیار بھی استعمال نہیں ہو گا۔

ایک فضول سی در فطنی یہ بھی ہے کہ مولانا نے ایم ایم اے بحالی کا شوشہ چھوڑ کر دیگر مذہبی جماعتوں کو الیکشن مہم سے روک دیا ہے۔ مولانا اپنے پتے کھیل رہے ہیں وہ جماعت اسلامی کو سیاسی تنہائی کی طرف مزید دھکیلنا چاہتے ہیں۔ جماعت نے مولانا کی صوبے سے حکومت چھینی ہے مولانا اس دکھ کو آسانی کے ساتھ ہضم کر سکتے ہیں؟ نون لیگ کے لئے تو جماعت کے دروازے بند ہو گئے تحریک انصاف کے ساتھ بھی آثار اچھے نہیں۔ لے دے کر ایم ایم اے ہی بچتی ہے اس کا لولی پاپ دے کر مولانا جماعت کو اپنے پیچھے لگوانا چاہتے ہیں۔ اور عین وقت پر جماعت پر پچاس نشستوں کا لیبل لگا کر بانہیں نون لیگ اے این پی اور پیپلز پارٹی کے گلے میں ڈال دیں گے اور جماعت خشک کھجوروں کا رونا روتی رہی گی۔

خیر یہ تو وقت بتائے گا کہ اس ہلچل کے پیچھے عسکری اسٹیبلشمنٹ ہے یا سیاسی اسٹیبلشمنٹ؟ مگر اب دعا ہی کر سکتا ہوں کہ اللہ تعالی مذہبی لوگوں کو اس نیک مقصد میں کامیاب فرمائے تاکہ پاکستان صیح معنوں میں اسلام کا قلعہ بن سکے۔

آمین یا رب العالمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).