سگریٹ چھوڑنے کا ‘گرل فرینڈ فارمولہ’


ہم سب جانتے ہیں کہ تمباکو صحت کے لیے نقصان دہ ہے. سگریٹ بیڑی پینا نقصان دہ ہے۔ پھر بھی لوگ سگریٹ بیڑی پیتے ہیں اور بڑی شان سے دھواں اڑاتے ہیں۔ اسی طرح تمباکو اور تمباکو نوشی کے نقصانات کے حوالے سے حکومتیں اور سماجی تنظیمیں لوگوں کو آگاہ کرتی رہتی ہیں، لیکن لوگ پھر بھی تمباکو نوشی کرتے ہیں.

ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں تقریبا ایک سو کروڑ لوگ تمباکو نوشی کرتے ہیں. ان میں سے زیادہ تر کو معلوم ہے کہ یہ ان کے لیے نقصان دہ ہے، لیکن وہ پھر بھی وہ اسموکنگ کرتے ہیں.

آخر لوگ تمباکو نوشی کرتے کیوں ہیں؟

بی بی سی انگریزی کے ریڈیو پروگرام انكوائری میں سنگیتا بھاسکر نے اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی اور اس سلسلے میں انہوں نے کئی ماہرین سے بات بھی کی.

پروفیسر رابرٹ ویسٹ لندن کی مشہور یونیورسٹی، یونیورسٹی کالج میں صحت کی نفسیات یا ہیلتھ سائیکالوجی پڑھاتے ہیں۔ تمباکو نوشی کے مواوی پر اپنی کتاب میں ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ وہ آج لوگوں کو بتاتے ہیں کہ سگریٹ پینا نقصان دہ ہے لیکن کالج میں وہ خود بھی اس نشے کے شکار ہو گئے تھے۔ انھوں نے تقریبا تین سال تک سگریٹ پی. لیکن ان کی گرل فرینڈ کو ان کی اس عادت پر شدید اعتراض تھا۔ اگرچہ انھوں نے اپنی گرل فرینڈ کو سختی کرنے سے روک دیا لیکن انھوں نے سگریٹ چھوڑ دی۔

پروفیسر رابرٹ ویسٹ کہتے ہیں کہ سگریٹ چھوڑنے کا شرطیہ فارمولہ ’گرل فرینڈ فارمولہ‘ ہے۔ اگر آپ کی گرل فرینڈ کو سگریٹ پینے سے نفرت ہے، تو آپ کو بڑی آسانی سے اس لت سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ پروفیسر ویسٹ نے اپنی اُس دوست کے ساتھ زندگی کے تیس سال گزارے.

پروفیسر ویسٹ کہتے ہیں کہ سگریٹ کی لت پڑنے کی وجہ سائنسی ہے. اصل میں تمباکو میں ایک کیمیکل ہوتا ہے جس کا نام ہے نکوٹین۔ جب آپ سگریٹ کا دھواں اپنے اندر کھینچتے ہیں، تو آپ کے پھیپھڑوں کی تہیں اس دھوئیں سے نکوٹین لینا شروع کر دیتی ہیں۔ چند سیکنڈ کے اندر اندر یہ نکوٹین آپ کے دماغ کے اعصاب تک پہنچ جاتی ہے. نکوٹین کے اثر سے ہمارا دماغ ڈوپامائن dopamine نام کا ہارمون خارج کرتا ہے جس سے ہمیں بہت اچھا احساس ہوتا ہے۔

جب بھی دماغ ڈوپامائن چھوڑتا ہے، تو ہمیں بہت مزا آتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہمیں کسی کام کا اجر ملا ہے۔ یعنی دماغ کو یہ اشارہ جاتا ہے کہ اگر آپ سگریٹ پئیں گے تو آپ دماغ محسوس کرے گا کہ آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ دماغ یہ جان بوجھ کر نہیں کرتا بلکہ وہ ایسا وہ نکوٹین کے اثر کی وجہ سے کرتا ہے۔

لیکن جلد ہی دماغ کو نکوٹین کی ایسی لت لگ جاتی ہے کہ آپ بار بار سگریٹ یا بیڑی یا سگار پیتے ہیں۔ یہ لت ٹھیک ویسی ہی ہوتی ہے، جیسے کسی منشیات کی لت، مثلا ہیروئن. نکوٹین کا نشہ اس قدر طاری ہوتا ہے کہ وہ آپ کے رویے کو کنٹرول کرنے لگتا ہے۔

پروفیسر رابرٹ ویسٹ نے نکوٹین کا اثر جاننے کے لیے کچھ ایسے لوگوں پر ریسرچ کی جن کو گلے کا کینسر ہو گیا تھا۔ ان لوگوں کے گلے کی نالی، جو پھیپھڑوں سے جڑی ہوتی ہے، اسے کاٹنا پڑ گیا تھا۔ مگر ان لوگوں کو نکوٹین کی اس قدر لت پڑ گئی تھی، کہ وہ گلے سے ہی سگریٹ پیتے تھے۔ دھواں براہ راست ان کے پیٹ میں جاتا تھا. اس سے شدید جلن ہوتی تھی۔ کینسر کی واپسی کا بھی خطرہ تھا۔ مگر تمباکو کے یہ عادی افراد اس سے بھی نہیں ڈرتے تھے۔

یعنی نکوٹین کا نشہ ہیروئن جیسا ہوتا ہے۔ اب ہیروئن پر تو دنیا بھر میں پابندی ہے، مگر تمباکو کے استعمال کی ممانعت نہیں ہے اور یہ فیصلہ لوگوں پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ تمباکو استعمال کریں یا نہ کریں۔

تمباکو میں پایا جانے والی نکوٹین ہمارے دماغ کے اس حصے کو کنٹرول کر لیتا ہے جس کے ذریعہ ہم غور و فکر کرتے ہیں اور فیصلے کرتے ہیں۔ جب نکوٹین دماغ تک پہنچتی ہے تو یہ صرف ہمارے دماغ کی سوچنے سمجھنے کی طاقت نہیں چھینتی، بلکہ یہ ہمارے دماغ کو بار بار سگریٹ پینے پر اکساتی ہے۔

دماغ ہمیں خبردار بھی کرتا ہے، لیکن ہم اس کی سنی ان سنی کر دیتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ عام انسانوں سے لے کر امریکہ کے سابق صدر براک اوباما جیسے لوگ تک سگریٹ کی لت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یعنی انسان کتنا بھی عقل مند کیوں نہ ہو، نکوٹین کا نشہ اس پر حاوی ہو جاتا ہے۔

پروفیسر ویسٹ کے مطابق ہمارے کچھ جین بھی ہمارے تمباکو کے نشے کے ذمہ دار ہیں۔ ہمارے جسم میں تقریباً 70 سے 80 فیصد جینز ایسے ہوتے ہیں، جو ہمیں سموکنگ کی لت کی طرف دھکیلتے ہیں. نکوٹین اس کام کو آگی بڑھاتی ہے اور وہ ہمارے سوچنے سمجھنے کی طاقت کو قابو کرنے لگتی ہے۔

نکوٹین کی اسی طاقت کا فائدہ سگریٹ بنانے والی كمپنياں اٹھاتی ہیں۔ وہ نہ صرف ہمیں نکوٹین کی لت لگواتي ہیں اور اس سے بھاری منافع کماتی ہیں، بلکہ نکوٹین سے ہونے والے نقصان کی حقیقت بھی چھپاتی ہیں.

1990 کی دہائی میں اس بات کا انکشاف کر کے ایک شخص نے امریکہ اور یورپ میں ہنگامہ برپا کر دیا تھا. ان کا نام ہے ڈاکٹر جیفری۔ ڈاکٹر جیفری ایک بايوكیمسٹ ہیں اور وہ نوے کی دہائی میں امریکہ کی بڑی سگریٹ کمپنی براؤن اینڈ ولیم سے منسلک تھے جہاں سے انھیں بہت بڑی تنخواہ ملتی تھی۔

مگر کمپنی میں رہتے ہوئے ڈاکٹر جیفری کو پتہ چلا کہ ان کی کمپنی سگریٹ فروخت وقت اس سے ہونے والے نقصان کی معلومات لوگوں سے چھپاتی ہے۔ انھیں معلوم ہوا کہ نکوٹین کا اثر بڑھانے کے لئے براؤن اینڈ ولیمز کمپنی اپنی سگریٹ میں امونیا اور كومارن جیسے انتہائی خطرناک کیمیائی اجزا ملاتی ہے۔ کمپنی کے حکام کو یہ بات معلوم تھی، مگر وہ اس پر خاموش تھے۔ جب ڈاکٹر جیفری نے اس پر سوال اٹھایا، تو انہیں خاموش رہنے کو کہا گیا۔ لیکن وہ کمپنی کے اندر مسلسل سوال اٹھاتے رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ڈاکٹر جیفری کو نوکری سے نکال دیا گیا اور انھیں خبردار کیا گیا کہ وہ اپنا منہ بند رکھیں۔

ڈاکٹر جیفری واگیڈ خاموش ہی رہتے، لیکن ایک دن انہوں نے دیکھا کہ امریکہ کی سات بڑی سگریٹ کمپنیوں کے حکام نے امریکی پارلیمنٹ میں پیش ہو کر کہا کہ سگریٹ سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ یہ سراسر جھوٹ تھا۔ سگریٹ کمپنیوں کے جو اہلکار سراسر جھوٹ بول رہے تھے ان میں ڈاکٹر جیفری کی پرانی کمپنی براؤن اینڈ ولیمز کے افسران بھی شامل تھے۔

ڈاکٹر جیفری کو محوس ہوا کہ اگر وہ اب نہیں بولے تو بہت نقصان ہوگا۔ چنانچہ انھوں نے میڈیا کے سامنے سگریٹ کمپنیوں کی سازش کا پردہ فاش کردیا جس کے بعد سگریٹ کمپنیوں نے تسلیم کیا کہ تمباکو صحت کے لیے نقصان دہ ہے اور اس سے جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

اس کے بعد امریكا میں سگریٹ کمپنیوں کو ہدایت دے دی گئی کہ وہ پیکٹ پر قانونی انتباہ جاری کریں۔ اس کے علاوہ ان پر بھاری ٹیکس عائد کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی مغربی ممالک نے عوامی مقامات پر سگریٹ پینے پر پابندی لگا دی۔ اس کے علاوہ سگریٹ کمپنیوں پر بہت سی شرائط لگا دی گئیں تاکہ لوگوں کو سگریٹ کے نقصان سے بچایا جا سکے۔

ڈاکٹر جیفری کے سنسنی خیز انکشافات کے حوالے سے ہالی وڈ میں فلم بھی بنی تھی، جس کا نام تھا’ دی انسائیڈر The Insider۔ اس کے بعد انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے لگیں جس پر حکومت نے انھیں خفیہ محافظ مہیا کر دیے تھے۔

ڈاکٹر جیفری واگیڈ کہتے ہیں کہ سگریٹ بنانے والی کمپنیاں بہت طاقتور ہیں۔ مغربی ممالک میں سختی کے بعد یہ کمپنیاں اب غریب اور ترقی پذیر ممالک میں سگریٹ فروخت کر رہی ہیں اور ان لوگوں کو تمباکو نوشی کے جال میں پھنسا رہی ہیں، جو اس کے خطروں سے بے خبر ہیں۔ افریقہ اور ایشیا کے کئی ممالک میں سگریٹ بغیر کسی قانونی انتباہ کے بیچی جاتی ہے۔

سگریٹ کمپنیوں کا دعوی ہے کہ وہ کسی کو سگریٹ پینے کے لیے مجبور تو نہیں کرتیں، لوگ چاہیں تو سگریٹ نہ پئیں۔ لیکن، سگریٹ کمپنیاں اس خطروں کو لوگوں سے چھپاتی ہیں۔ پہلے مفت میں سگریٹ کے ڈبے بانٹ کر لوگوں کو اس کا عادی بنایا جاتا ہے اور پھر وہ نکوٹین کے اشارے پر ناچتے لگتے ہیں اور سگریٹ کمپنیاں لوگوں کی اس نشے کی عادت سے بھاری منافع کماتی ہیں۔

مگر اس لت کے لیے مکمل طور پر سگریٹ کمپنیوں کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ سگریٹ پینا یا نہ پینا آپ کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ لوگ سگریٹ پینے کا فیصلہ کیوں کرتے ہیں؟

یونیورسٹی کالج لندن سے منسلک نفسیاتی امراض کی ماہر ڈاکٹر ایلڈیکو کو بچپن سے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ لوگ اسموکنگ کیوں کرتے ہیں۔ ان کی والدہ بھی سگریٹ پیا کرتی تھیں۔ ڈاکٹر ایلڈیكو بتاتی ہیں کہ اکثر لوگ سماجی دباؤ میں سگریٹ بیڑی پینا شروع کرتے ہیں، جیسے، کالج میں کچھ نوجوان جو سگریٹ پیتے ہیں، انھیں ‘کُول‘ سمجھا جاتا ہے۔ ان کی دیکھا دیکھی بہت سے نوجوان سگریٹ پینے لگتے ہیں کیونکہ وہ بھی اس “کُول” گروہ کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔

یہی بات معاشرے کے دوسرے طبقوں میں بھی دیکھی جاتی ہے۔ ایک خاص گروپ کا حصہ بننے کے لئے لوگ تمباکو نوشی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر ایلڈیكو کہتی ہیں کہ اکثر سگریٹ کا نشہ لوگ تعلیم کے دوران شروع کرتے ہیں جبکہ بہت سے لوگ دفتر میں بھی اپنے ساتھیوں یا باس کی دیکھا دیکھی تمباکو نوشی کرنے لگتے ہیں۔

ڈاکٹر ایلڈیكو کے مطابق لوگ جان بوجھ کر سگریٹ پینا شروع کرتے ہیں۔ وہ اپنی خاص پہچان بنانے کے لیے یہ نشہ اپناتے ہیں اور پھر نکوٹین اپنا اثر دکھاتی ہے اور لوگوں کو اس نشے کی عادت پڑ جاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر لوگوں کو سگریٹ اور تمباکو کے نقصان معلوم ہیں، تو وہ کیوں اس کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں؟

اس کا جواب دیتے ہیں امریکہ کی كینسس یونیورسٹی کے کارل لیجوی جن کا کہنا ہے کہ نشہ کرنے والے اصل میں اپنی صحت کے ساتھ جوا کھیلتے ہیں۔ مسٹر کارل کہتے ہیں کہ انھوں نے سگریٹ کے دیوانوں پر خاصی تحقیق کی ہے۔ خود ان کی والدہ بھی چین سموکر تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جو لوگ سگریٹ پیتے ہی وہ اپنی صحت کو داؤ پر لگاتے ہیں، ’ جیسے جواری کو داؤ لگانے کی لت پڑ جاتی ہے، تمباکو نوشی کرنے والوں کا رویہ بھی بالکل ویسا ہی ہوتا ہے۔‘

مسٹر کارل نے اس حوالے سے ایک دلچسپ ریسرچ بھی کی تھی۔ انہوں نے کچھ لوگوں کو غباروں میں ہوا بھرنے کو کہا۔ جو لوگ سگریٹ نہیں پیتے تھے، وہ احتیاطا سے پھیلتے ہوئے غباروں میں ہوا بھر رہے تھے تاکہ وہ پھٹ نہ جائیں۔ لیکن سگریٹ پینے والوں نے اس کا خیال نہیں رکھا اور ان گے غبارے زیادہ ہوا بھرنے کی وجہ سے پھٹ گئے۔

کارل کہتے ہیں کہ اس تجربے سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سگریٹ پینے والے زیادہ خطرات مول لینے کے لیے تیار تھے اور وہ اس کے نقصان سے بے پرواہ تھے۔

کارل کہتے ہیں کہ سگریٹ پینے والے اپنی صحت کو خطرے میں اس لیے ڈالتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے خطرہ دور ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ سگریٹ پینے سے مستقبل میں کوئی بیماری ہو سکتی ہے، لیکن ہو سکتا ہے کہ بیماری نہ ہو۔

نکوٹین کا اثر یہی ہوتا ہے کہ ہم سوچ سمجھ کر سگریٹ نہ پینے کا فیصلہ نہیں کر پاتے۔ اور یوں ہر ایک سگریٹ جلانے کے ساتھ ساتھ خطرہ بڑھتا جاتا ہے اور سگریٹ کا ہر کش یہ خطرہ بڑھاتا جاتا ہے۔ بہت سے لوگوں کے لیے سگریٹ جان لیوا ثابت ہوتی ہے لیکن پھر بھی آج دنیا میں ایک ارب افراد سگریٹ پی رہے ہیں۔

کہیں آپ بھی تو ان لوگوں میں سے نہیں ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp