رپورٹ پٹواری مفصل ہے


مرزا غالب نے فرمایا تھا

 جانے کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

 اگر مراز آج زندہ ہوتے اور انہیں ضلع کے دفاتر ک زیارت نصیب ہوتی تو ان پر راہِ سلوک کی وہ تمام منزلیں منکشف ہوجاتیں جن سے گزر کر قطرے کو گہر ہونا پڑتا ہے!

 میرے سامنے چھ درخواستوں کا پلندا پڑا ہے۔ ہ درخواستیں عیدو ولد چینا قوم جوگی سابق سکنہ موہن ماجرہ تحصیل روپڑ حال مقیم موضع روڈو سلطان تحصیل شورکوٹ ضلع جھنگ کی ہیں جو اس نے درجہ بہ درجہ فضیلت مآب گورنر پنجاب، عزت مآب سزیرِ اعلٰے، عزت مآب سزیر بحالیات فنانشنل کمشنر، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے نام بصیغہ رجسٹری ارسال کی تھیں۔ ان سب درخواستوں کا مضمون واحد ہے:۔

 “جناب عالی

 بکمال ادب گذارش ہے کہ فدوی ضلع انبالہ کا مہاجر ہے۔ موضع موہن ماجرہ تحصیل روپڑ میں فدوی کےپاس 18 گھماؤں اراضی چاہی و بارانی تھی۔ فدوی نے کلیم فارم داخل کئے تھے لیکن کسی وجہ سے خالی واپس آگئے۔ فدوی نے عذرداری کی ہوئی ہے لیکن ابھی تک سنٹرل ریکارڈ آفس سے جواب نہیں آیا۔ فدوی نے مُثنٰے کلیم فارم بھی دیئے ہوئے ہیں۔ لیکن ابھی تک کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔

 موضع روڈوسلطان تحصیل شورکوٹ ضلع جھنگ میں فدوی کو 12 گھماؤں متروکہ اراضی عارضی طور پر الاٹ ہوئی تھی۔ فدوی چار سال سے اس پر قابض ہے اور فصل کاشت برداشت کر رہا ہے۔ فدوی لگان بھی باقاعدگی سے ادا کرا رہا ہے۔ لیکن اب پٹوار حلقہ بہ طمعِ نفسانی یہ زمین کسی اور مہاجر کو الاٹ کر رہا ہے۔ جناب عالی اگر فدوی کی الاٹ منٹ ٹوٹ گئی تو فدوی کا کنبہ فاقوں سے مرجائے گا۔ دوسرا کوئی ذریعہ معاش نہیں۔ فقط کھیتی باڑی پر گزارہ ہے لہٰذا التماس بحضورِ انوار ہے کہ فدوی کا عارضی رقبہ تاتصفیہ عذراداری بحال رکھا جائے تاکہ فدوی اپنے بال بچوں کا پیٹ پالسکے فدوی تازیست حضورِ انوار کی جان و مال کو دعا دے گا۔”

لاٹ صاحب، وزیرا علٰے، وزیر مہاجریں، فنانشنل کمشنر اور کمشنر کے دفاتر سے درخواستیں یکےبعد دیگرے ڈپٹی کمشنر کے پاس “برائے مناسب کاروائی” آتی گئیں۔

 صدر کا مسل خواں ہر درخواست پر حسبِ ضابطہ نوٹ لکھتا گیا۔” بطلب رورٹ بخدمت جناب افسرمال صاحب مرسُل ہو”؛ ڈپٹی کمشنر نے تیز رفتاری مشین کی طرح اپنے دستخط ثبت کئے اور درخواستیں “بطلب رپورٹ” افسر مال سے تحصیلدار ، تحسیلدار سے نائب تحصیلدار ، نائب تحصیلدار سے گرد اور قانونگو، اور گرداور قانونگو سے اسی پٹواری کے نام مرسُل ہوتی گئیں جو ” بہ طمعِ نفسانی” اس الاٹمنٹ کو منسوخ کرنے کے درپے تھا۔

 پٹواری حلقہ نے چھ کی چھ درخواستوں کو جمع کر کے رجسٹر میں نتھی کیا اور ہفتہ در ہفتہ کے بعد ازرہِ فرض شناسی عِیدو کو طلب فرمایا۔

 “عیدوبھائی، اب تم بہت اونچا اُڑنے لگے ہو۔ لو، جی کھول کر اڑلو۔: پٹواری صاحب نے درخاستوں کا پلندہ رجسٹر سے نکال کر عیدو کے منہ پر دے مارا۔

 عیدو کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ لاٹ صاحب، وزیر اعلٰے، وزیر مہاجریں، فنانشنل کمسنر، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کی ساری تجلیاں اور وقت پٹواری صاحب کی ذات میں مرکوز ہوگئی تھیں۔ اگر عیدو کو تصوف سے کچھ مس ہوتا تو وہ اسی قت “ہمہ اوست” کا نعرہ لگا کر معرفت کی بہت سی منزلیں ایک ہی قم میں طے کر لیتا۔

 “اب تم یہ درخواستیں جھنگ، ملتان یا لاہور لے جاؤ۔” پٹواری نے عرضیوں کو جرسٹر میں دبارہ نتھی کرتے ہوئے کہا۔ ” اور ان کی بتیاں بنا کر اپنے سالے باپوں کو دے آؤ۔”

 اگر اس عمل سے عیدو کی الاٹمنٹ بحال رہ سکتی تو وہ بڑی خوشی سے یہ رائے بھی قبول کرلیتا۔

 لیکن پٹواری نے درخواستوں کو نتھی کر کے پھررجسٹر میں بند کر لیا، اور عیدو کو چند جدید طرز کی گالیاں سنا کر گھر جا کر آرام سے سونے کی ہدایت کی۔

 ایک مہینہ۔ دو مہینے۔ تین مہینے۔۔۔۔۔۔۔ عیدو ہر دوسرے تیسرے روز تحصیل اور ضلع کے دفرں میں جاتا اور وہاں سے گھرُکیاں، جھڑکیاں اور دھکے کھا کر واپس آجاتا۔ کھی کبھی اسے نہایت پیچدار گالیوں کے ساتھ کوئی مفید مشورہ بھی مل جاتا تھا۔ جس کا سلیس اردو میں یہ ترجمہ ہوتا تھا کہ تمہارے کاغزات پر مناسب کاروئی ہو رہی ہے۔ تم ہر روز یہاں آ کر دقِ نہ کرو۔۔۔۔۔۔

 اسی ہرا پھیری میں مشوروں کی تلاش میں اس کے برتن اور بیوی کے زیور بھی بک گئے۔ اب بیلوں کی جوڑی کی باری تھی لیکن پٹواری صاحب نے بروقت فیصلہ کر کے عیدو کو اس افتاد سے بچالیاں۔

 پٹواری صاحب نے عیدو کی زمیں منسوخ کر کے کسی دوسرے مہاجر کے نام تجویز کر دی اور اس تجویز کے کنفرم ہونے تک ساری درخاستوں کو جرسٹر میں بڑی احتیات سے ایک طرف نتھی رکھا۔ جب یہ سب منزلیں بخیر و خوبی طے ہوگئیں تو انہوں نے اپنا فرض منصبی انجام دنے کے لیے عیدو کی درخواستوں پر اپنی رپورٹ تحریر فرمائی:۔

 ” جناب عالی۔ سائل مسمی عیدو صول درخواست ہاء دینے کا عادی ہے۔ اُسے معتدد بار سمجھایا گیا کہ اس طرح حکامِ اعلٰے کا وقت ضائع کرنا درست نہیں۔ لیکن سائلاپنی عادت سے مجبور ہے۔ سائل کا چال چلن بھی مشتبہ ہے اور اس کا اصلی ذریعہ معاش فرضی گواہیاں دینا ہے۔ مشرقی پنجاب میں اس کے پاس کوئی زمیں نہیں تھی۔ کیونکہ اس کا کلیم فارم خالی واپس آچکا ہے۔ سائل نے دو مرتبہ عذر دار بھی کی لیکن بے سود۔ معدد گواہان کے بیان بھی لئے گے۔ ان سب سے ثابت ہوتا ہے کہ سائل کے پاس مشرقی پنجاب میں کوئی زمیں نہ تھی۔ چنانچہ ککھیوٹ نمبر 13، مربعہ نمبر 25 موضع روڈوسلطان میں 12گھماؤں زمین جس پر سائل کا ناجائز قبضہ تھا۔ اس کے نام سے منسوخ ہو کر مسمی نور بخش کے نام حسبِ ضابطہ کنفرم ہوچکی ہے۔ مسمی نور بخشچ ضلع جالندھر کا مہاجر اور سابق سفید پوش ہے۔ اس کے مصدقہ کلیم فارم واپس آگئے ہیں۔ اور موضع روڈوسلطان میں مترو کہ اراضی سے اس کی حق رسی کردی گئی ہے۔ نیز آنکہ مسمی نور بخش کار سرکار میں ہر وقت امدادی ہے اور خاکسار کی رائے میں صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کی خوشنودی کی سند کا مستحق ہے۔ بمراد حکم مناسب رپورٹ ہذاپیش بحضورِ انور ہے”۔

 گرداور قانوگو نے لکھا” فپورٹ پٹورای مفصل ہے۔ بمراد ھکوم مناسب بحصور نائب تحصیلدار پیش ہو۔”

 ناب نائب تحصیلدار صاحب نے لکھا “رپورٹ پٹواری مفصل ہے۔ بمراد حکم مناسب بحضور جناب تحصیلدار صاحب پیش ہو۔”

 جناب تحصیلدار صاحب نے لکھا۔”رپورٹ پٹواری مفصل ہے۔ بمراد حکم مناسب بخدمتافسر مال بہادر پیش ہو۔:

 جناب افسر مال بہادر نے لکھا” رپورٹ پٹواری مفصل ہے۔ بمراحکم مناسب صدر پیش ہو۔”

 صدر کے مسل خواں نے حکم لکھا۔ “رپورٹ پٹواری مفصل ہے۔ درخواست ہائے مسمی عیدو فصول ہے۔ داخل دفتر ہو۔ مسمی نور بخش کے کاغذات بوقت انتخاب برائے سندرات پیش کئے جائیں۔”صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے اس حکم پر اپنے دستخط ثبت فرمائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مسمیان عیدو اور نور بخش پر بڑی باضابطگی کے ساتھ دولتِ خداداد کی مہریں لگ گیئں۔ یہ اور بات ہے کہ مہر نور بخش کی پیشانی پر لگی اور عیدو کی پُشت پر!

قدرت اللہ شہاب
Latest posts by قدرت اللہ شہاب (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).