سابق گورنر سندھ ڈاکٹرعشرت العباد خان کا انٹرویو


[contact-form][contact-field label=”Name” type=”name” required=”true” /][contact-field label=”Email” type=”email” required=”true” /][contact-field label=”Website” type=”url” /][contact-field label=”Message” type=”textarea” /][/contact-form]

صحافی: کنول زہرا۔

شخصیت کا مختصر تعارف:

سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان 2 مارچ 1963 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ڈاؤ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔ 27 دسمبر2002 کو ڈاکٹر عشرت العباد خان نے صوبہ سندھ کے ستائسویں گورنر کی حیثیت سے حلف اٹھایا اور پاکستان کے سب سے کم عمر اور طویل عرصے ( 14 سال ) تک گورنر رہںنے کا اعزاز اپنے نام کیا۔ چند وجوہات کی بنا پر انہوں نے 27 جون 2011 کو اپنے منصب سے استعفی دیا واضح رہےاس دوران وہ دبئی میں تھے تاہم ان کا استعفی پاکستان کے اس وقت کے صدر آصف زرداری نے قبول نہیں کیا۔ صدد، وزیراعظم سمیت بزنس کمیونٹی اور ملک کےعوام کے پر زور اصرار پر ڈاکٹرعشرت العباد وطن واپس آگئے اور 19 جولائی 2011 کو دوبارہ اپنے منصب (گورنر ) کی ذمے داری سمبھالی۔ بعد ازاں 9 نومبر 2016 کو وہ جبری استعفی دے کر دبئی روانہ ہو گئے۔ ”ہم سب“ نے اپنے قارئین کے لئے ان کے ساتھ ایک تفصیلی نشست کا انعقاد کیا۔

صحافی : گورنر کا عہدہ علامتی طور پر سمجھا جاتا ہے مگر ہم نے آپ کو انتہائی متحرک دیکھا۔ صوبہ سندھ کی خدمت کس طرح ادا کی؟

ڈاکٹرعشرت العباد: یہ حقیقت ہے کہ صوبے کے گورنر کا کام محدود ہوتا ہے۔ یہ عہدہ ہوتا ہی سمبولیکل ہے۔ مگر اخلاقی جواز کے تحت گورنر کو صوبائی سطح پر کسی کام میں مشورہ دینے پر کوئی قدغن نہیں ہے کیونکہ گورنر وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں جب میں گورنر تھا تو اس وقت کی میری پوزیشن اور میرا کام سب کے سامنے ہے۔ میں نے اور میری ٹیم نے گورنر ہاوس کو مضبوط بنانے میں ہر ممکن کوشش کی۔ ہم نے شہر میں دہشت گردی، جرائم، بھتہ خوری، ٹرانسپوٹ کے مسائل کے حل سمیت عام آدمی کے دیگر مسائل کے حل کے لئے
وفاقی و صوبائی حکو مت کے تعاون سے
Public Grievances redressl cell ( PGRC)
کا قیام ممکن بنایا۔ اس سیل کے قیام کا مقصد جرائم کی فوری روک تھام تھا۔ عام آدمی کے مسائل کے حل کے لئے اپنے آفس کو اتنا مضبوط کیا کہ کوئی بھی اپنامسئلہ سادہ کاغذ پر لکھ کر دے جاتا تھا۔ علاؤ ازاں ای میل، اور ایس ایم ایس کے ذریعے بھی ہم اللہ کے حکم سے ہر ممکن کوشش کے ذریعے سے ہم فریاد رسا کی داد رسی کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ سی پی ایل سی کا ادارہ بھی میرے ہی دور میں قائم ہوا۔ میں آپ کو بتاتا چلوں کہ میری ہمیشہ کوشش ہوتی تھی کہ میں صوبائی و وفاقی حکومت کے درمیان پل کا کردار ادا کروں۔ جس سے صوبے کے عوام کی بھلائی ہو اور صوبہ میں ترقیاتی کام کا عمل ممکن ہواگرچہ اس دوران کچھ اختلافات بھی دیکھنے میں آ ئے مگر ہم نے اسے افہام و تہفیم سے حل کیا اور محا ذ آ را ئی سے گر یز کیا۔

صحافی : یہ آپ غریب آدمی کے کن مسائل کے حل کا ذکر کر رہے تھے؟

ڈاکٹرعشرت العباد: یہ وہ چھوٹے چھوٹے مسائل تھے جیسے کسی کی ایف آئی آر درج نہیں ہو رہی ہے وہ اس سلسلے میں پریشان ہے تو ہم نے اس شخص کی پر یشانی کو ختم کیا۔ کسی کی پینشن کامسئلہ، کسی کے ساتھ ملازمت کے دوران کسی قسم کی زیادتی، کوئی بنیادیمسئلہ یا کوئی بلد یات کے حوالے سے پریشانی یعنی کوئی بھی ایسامسئلہ جو غریب آدمی کے لئے بہت اہم ہوتا ہے اس کا فوری حل تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور اللہ نے کامیابی بھی نصیب کی۔

صحافی : گورنر کے منصب پر فائز ہو نے کے بعد سب سے پہلے کس چیلینج کا سامنا کیا؟

ڈاکٹرعشرت العباد: دیکھیں جب اللہ نے مجھے اس قابل سمجھا اور میں نے گورنر کا منصب سمبھلا تو اس وقت بہت سارے مسائل تھے۔ شہری و دیہائی آبادی کے درمیان دوریاں تھیں۔ دیہات کے لوگ اپنی محرومیوں کا ذمے دار شہریوں کو سمجھتے جبکہ شہری آبادی میں بھی اسی قسم کے رجحانات پائے جاتے تھے۔ ہم نے عوامی رابطے کے ذریعے سے اس خلیج کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔ بجٹ کی تقسیم کے لئے وفاقی و صوبائی حکومت سے رابط کیا۔ اپنی تجویز دونوں حکومتوں کو سامنے رکھا۔ نہ صرف اتنا بلکہ مکمل ہوم ورک کر کے اپنے خیالات و تجویز کو مرکزی وصوبائی نمائندوں کے سامنے رکھا تاکہ بجٹ کی رقم کا برابری کی سطح پراستعمال ہو۔ شہر دیہات کے رہنےوالوں کے مسائل کا حل برابری کی بنیاد پر ہو تاکہ دوریاں مٹیں اور صوبہ ترقی کرئے۔ اگرچہ اعلی سطح کے تعلیمی مراکز تو گورنر ہاؤس کی ذمے داری ہے مگر ہم نے اخلاقی تقاضے کے تحت پرائمری تعلیم کے کام میں بھی اپنا حصہ ڈالا اور شہر سمت دیہات کے اسکولوں کی حالت بھی بہتر کی۔ گھوسٹ اسکولز کو ختم کیا۔ کوالٹی ایجوکیشن اور ماڈرن ایجو کیشن کے لئے بھی سرگرم رہے۔ صحت کے مراکز کے قیام اور ان کی حالت موثر بنانے میں بھی ہم ایک قدم پیچھے نہ رہے۔ جبکہ انفرا اسٹکچر کے امور میں بھی پیش پیش رہے۔

صحافی : اعلی سطح کے تعلیم مراکز کے حوا لے سے کچھ بتائیں گے؟

ڈاکٹرعشرت العباد: جب میں گورنر بنا تو پبلک سیکٹرز میں 11 یا 12 یونیورسٹیز تھیں مگر جب میں اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش ہوا تو ماشا اللہ آج صوبہ سندھ کے پاس 50 سے زائد جامعات ہیں میرے خیال میں 55 سے 58 تک کی جامعات کی تعمیر و ترقی میرے دور میں ممکن ہوئی۔ جس پر میں اللہ کا بہت شکر ادا کرتا ہوں۔ ہم نے نہ صرف نئی جامعات کا قیام کیا بلکہ پرانی جامعات کی فیکلٹیز میں بھی اضافہ کیا۔ این ای ڈی میں کل تین ڈیپارٹمنٹ تھے ہمارے دور میں ان کی تعداد چالیس تک جا پہنچی تھی۔ اس کے علاوہ صوبے بھر کی جامعات کے داخلی و خارجی دروازوں کی حالات زار کو بہتر کیا۔ شٹل سروس کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔ بیرونی ممالک سے آئے طا لب علموں کے لئے دور حاضر کے تقا ضوں کے تحت جدید سہو لیات فراہم کرنے کی کوشش کی جس کے ذریعے سے دنیا بھر میں پاکستان کا مثبت تاثر گیا اور بین الاقوامی طالبعلم زیادہ تعداد میں پاکستان آ نے لگے۔ موجودہ صورت حا ل کے پیش نظر پاکستان میں کوئی فرانزک لیب کا باقاعدہ قیام نہ تھا جبکہ اللہ نے ہمیں موقع دیا اور کراچی یونیورسٹی میں بوٹنی گاڈرن اور ڈیجیٹل سائنس انسیٹیوٹ قائم کیا جو میرے ہی نام سے منسوب ہے۔ میں خوش نصیب ہوں کہ جس مدرسے سے بانی پاکستان نے تعلیم حاصل کی اسے یونیورسٹی کا درجے بھی میرے دور میں ملا۔ پاکستان کی پہلی لا یونیورسٹی کا قیام بھی اللہ نے میرے ہاتھوں ممکن بنایا۔ یہ بھی ایک اعزاز کی بات ہے کہ پوری دنیا میں تین لا اینڈ ریسررچ انسیٹوٹ ہیں جس میں سے ایک پاکستان کی پہلی قانون کی جامعہ میں ہے جو سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کے نام سے لیاری میں واقع ہے جبکہ اس میں قائم ریسررچ انسیٹوٹ میرے نام سے منسوب ہے۔ لیاقت یونیورسٹی جامشورو میں بھی اپنی خدمات پیش کیں وہاں بھی نئی فیکلٹیز کا قیام کیا اور سندھ کی پہلی ڈی این اے لیباٹری قائم کی۔ اس کے علاوہ بے شمار کام ہیں جس کا اللہ نے موقع دیا اور ہم لوگوں کے کام آئے۔

صحافی: صحت کے حوالے سے کن کن چیلنجز کا سامنا کیا؟

عشرت العباد: ڈاؤ یونیورسٹی جہاں سے میں بذات خود زیور تعلیم سے آراستہ ہوا ہوں۔ جو میرے زمانہ طلب علمی میں میڈیکل کالج تھا۔ اسے یونیورسٹی کا درجا دیا نہ صرف یہ بلکہ اس کا ایک اور کمیپس جو اوجھا کے نام سے ہے وہ بھی میرے ہی دور میں قائم ہوا۔ وہاں مناسب فیس میں بہترین علاج کی سہولت فراہم کی یہاں جگر اور کڈنی ٹرانسپلانٹ کم فیس میں کیا جا تا ہے جبکہ علاج کی جدید سہولت بھی موجود ہے۔ علاوہ ازاں کلکشن سننٹرز کھولے اور ان کو صرف کراچی تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ پورے سندھ کو اس سہولت سے مزین کیا۔

صحافی: کراچی کا اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ بجلی پانی اور ٹرانسپوٹ بھی ہے۔ اس پر آپ کی کیا خدمات رہیں؟

عشرت العباد: میں اس پر ہی آرہا تھا۔ کے تھری کا منصوبہ جو 2003 میں شروع ہوا اور 2004 میں مکمل ہوگیا بعد ازاں ہم نے فوری کے فور پلان کر لیا تاہم مجھے افسوس ہے یہ پروجیکٹ مختلف وجوہات کی بنا پر تاخیر کا شکار ہو تا گیا۔ ٹرانسپوٹ کے حوالے سے یہ ہے کہ لیاری ایکپسریس وے ایک اہم پروجیکٹ ہے۔ ہم 2007 اس کا کام شروع کر دیا تھا مگر شہر کے لا اینڈ آرڈر مسائل کی وجہ سے اور حکومت کی تبدیلی سبب تاخیر بنی مگر الحمد اللہ 2016 میں اللہ نے ہمیں اس میں بھی سرخرو کیا پھر کراچی، حیدرآباد موٹر وے اور گرین لائن پروجیکٹ کے لئے میں کافی عرصے سے وفاقی حکومت سے بات چیت کر رہا تھا اللہ نے ایک بار پھر کامیاب کیا اور اس پر بھی کام بھی شروع ہوگیا۔ یہ تو حالیہ بات ہے۔ جب کہ پہلے بھی ہم نے کراچی کے بنیادی مسائل کے حل کے لئے اگست 2003 میں وفاقی حکومت سے 27 ارب روپے کراچی پیکج کے حوالے سے منظور کروائے تھے۔ یہ رقم تعمیر کراچی منصوبے پر بہت دیانتداری سے خرچ کی۔ ہم نے بجلی کے حوالے سے جو کام کیا وہ اس طرح ہے کہ جب کے الیکٹرک کی نجکاری نہیں ہوئی تھی۔ جب ہم نے پاور مینجمٹ کا کام کیا تھا۔ میں نے کے ای ایس سی کی انتظامیہ کو گورنرہاؤس بلا کر لوڈشڈنگ پلان تک تشکیل دیا اور ان کو کہا کہ زیادہ چوری والے علاقوں میں بھی پاور سپلائی اس وقت معطل کریں جس وقت صارف کو زیادہ تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے کیونکہ پورا علاقہ تو چوری نہیں کرتا ہو گا تو چند لوگوں کے کیے کی سزا سب کو کیوں ملے۔ میں خود لوڈ شڈنگ پلان کو مانٹر کرتا تھا دوسری جانب مسلسل نقصان کی وجہ پر بڑے بڑے بزنس مین ہم کو مشورے دے رہے تھے کہ اس کی فوری نجکاری کردیں تاکہ مزید نقصان سے بچا جا سکے۔ کے ای ایس سی کی نجکاری وقت کا تقاضا تھی۔

صحافی: سب سے بڑا چیلنج کیا تھا؟

عشرت العباد: کراچی میں امن کا فقدان، یہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ ظاہر ہے امن کے عدم استحکام کی وجہ سے ترقیاتی کام بار بار تاخیر کا سبب بن رہے تھے۔ جو کام ہم چھ ماہ میں کرنا چاہ رہے تھے وہ بار بار ناقص امن کی بدولت التوا کا شکار ہورہے تھے۔ کراچی میں قیام امن کے لئے ہم نے جان توڑ محنت کی۔ پولیٹکل اسٹریٹیجی بنائی۔ پھر 2012 میں جب کراچی کے بہت زیادہ حالات خراب ہو گے تھے۔ گینگ وار، اغوا برائے تاوان، بھتے، دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ بہت عروج پر آ چکا تھا تب ہم نے ایک حکمت علمی مرتب کی اور مارچ 2013 کو عمل کرنا شروع کیا۔ بعد ازاں کراچی میں امن بحال ہونا شروع اور پروردگار کا کرم ہے کہ اب کراچی میں امن ہے۔ اللہ کا شکر ہے میری ذمے داری کے دنوں میں 2005 بلدیاتی انتخابات، 2008 اور 2013 کے عام انتخابات اور پھر 2015 کے بلدیاتی انتخابات بہت زیادہ پرامن ہوئے۔ سیکیورٹی چیلنج سب بڑامسئلہ تھا جس پر ہم نے بہت زیادہ کام کیا ہے۔ اس حوالے سے میں آپ کو اپنے منصب کی ذمے داری کا شیڈول بتاوں تو یقین منائیں 50 فیصد وقت میرا کراچی میں بحالی امن جبکہ باقی 50 فیصد صوبے کی تعمیر و ترقی، تعلیمی معاملات، صحت کے مراکز کے قیام سمیت دیگر مشاورتی امور میں صرف ہوتا تھا۔ فائربریگیڈ گاڑیوں کے حوالے سے تشنگی رہ گی اگرچہ اس سلسلے میں بہتری کے لئے بھی بہت کوشاں رہا۔ وفاق اور صوبے کی حکومت سے اس نکتے پر بھی بہت مشاورت کی مگر اس کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہوسکے۔

صحافی: آپ کے 14 سالہ دور میں نگران سمیت 4 صدور آئے جبکہ نگران وزیراعظم سمیت 8 شخصیات نے اقتدار سنبھالا۔ آپ اپنے تجربے کی روشنی میں بتائیں کہ آپ کو کس کا دور پاکستان کے لئے بہتر ین دور لگا؟

عشرت العباد: میں سمجھتا ہوں کہ پرویز مشرف کا دور اگرچہ بہت کٹھن تھا کیونکہ جب عالمی دہشتگردی کے واقعات کی وجہ سے پاکستان پر بھی منفی اثرات تھے۔ یہ وہ دور تھا جب 9/11 کا واقعہ ہو چکا تھا۔ افغانستان پر امریکہ حملہ بھی کر چکا تھا جبکہ پاکستان بھی دہشتگردی کی لیپٹ میں تھا۔ اس حوالے سے وہ وقت بہت مشکل وقت تھا مگر اس کو پرویز مشرف صاحب نے بہت اچھے طریقے سے حل کیا تھا۔ ان ہی دنوں ملک میں تعمیر و ترقی پر بہت کام ہوا۔ ان ہی دنوں بلدیاتی نظام کی بحالی کی وجہ سے مزید بہتری آئی تھی۔ پھر 2008 میں صورت حال تبدیل ہوئی اور پیپلزپارٹی کی جانب سے آصف زرداری صاحب برسر اقتدار آ گئے۔ ان کی بھی خواہش تھی کہ ملک میں تعمیر و ترقی ہو، معاشی صورتحال میں بہتری آئے مگر ان کا زیادہ وقت سیاسی عدم استحکام کی بحالی کے لئے حکمت عملی کے نفاذ میں گزرا تو اس لئے اتنا کام نہ ہو سکا جتنا وہ چاہتے تھے۔ اگرچہ زرداری صاحب کی کا کام کرنے کی بہت خواہش تھی مگر ان وجوہات کی بنا پر وہ اپنی خواہش کو اس طرح پورا نہ کرسکے جیسا وہ چاہتے تھے۔ پھر 2013 کا وقت آیا۔ میاں صاحب آگئے۔ پھر آپریشنز کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگرچہ نواز شریف صاحب ترقیاتی ودیگر کام تو کررہے ہیں تاہم پانامہ کے معاملات میں بھی الجھے ہوئے ہیں۔

صحافی: جیسا آپ نے کہا کہ پرویز مشرف صاحب کا دور زیادہ مثبت رہا اس کے بعد سیاسی عدم استحکام نظر آیا۔ سر یہ کیسی بات ہے کہ ایک ڈکٹیٹر کے دور میں جمہوری مسائل ہو رہے ہیں جبکہ جو لوگ جمہوریت کے علم بردار ہیں وہ سیاسی محاذ آرائی کا شکار ہوجاتے ہیں؟

عشرت العباد: میرے خیال میں اس کی لوجک یہ ہوسکتی ہے کہ پرویز مشرف صاحب آرمی چیف تھے۔ صدر پاکستان تھے اور پھر چیف ایگزیٹو بھی تھے۔ اس وجہ سے ان کو کام کرنے کا زیادہ موقع ملا۔ ہاں یہ بات ہے کہ ان کی توجہ گڈ گورنس پر زیادہ تھی۔ انہوں نے بلدیاتی نظام کی بحالی کا جو اقدام کیا تھا وہ بہت ہی زبردست تھا۔ انہوں عام آدمی کو پرفارم کرنے کا موقع دیا تھا۔ پاکستان کی تاریخ ہی کچھ ایسی رہی ہے اب دیکھیں ایوب خان کے زمانے میں پاکستان میں خوب ترقی کی ہے۔ اس دور میں ہی ڈیمز بنے تھے۔ آج پاکستانی جو پانی پی رہے ہیں۔ یہ ایوب خان کی مرہون منت ہے بلکہ ڈیمز ہی نہیں ان کے دور میں اور بھی ترقیاتی کام ہوئے ہیں۔ تاہم میرا ہرگز کہنے کا یہ مقصد نہیں کہ ڈکٹیٹر کا آنا بہتر ہے۔ دنیا جمہوریت کے نظام کو ہی سب سے اچھا نظام تسلیم کرتی ہے۔

صحافی: آپ طویل عرصے تک چپ رہے، آپ کا دور بھی چلتا رہا، آپ ایک دم سے بولے پھر آپ چلے گئے، کیا وجوہات تھیں آپ کے بولنے کی جبکہ ہم نے آپ کو ہمیشہ خا موشی سے آپ کو صوبے کی خدمت کرتے دیکھا ایک دم غصے کے اظہار کا کیا سبب بنا۔ کیا یہ بات آپ بتانا چاہیں گے اوراس کے ساتھ ہی یہ بھی بتائیے گا کہ کیا آپ کا بولنا ہی عہدے سے مستعفی کا سبب بنا؟

عشرت العباد: کراچی آپریشن بہت نیک نیتی کے ساتھ 2013 میں شروع ہوا۔ اس دوران ہم نے بہت سی مشکلات دیکھی، اس کا آدھے سے زیادہ پریشر میرے اوپر تھا۔ اسی دوران مجھ سے ایم کیو ایم بھی ناراض ہو گی تھی۔ بانی ایم کیو ایم نے مجھ سے اظہار لاتعلقی کردیا تھا وہ سمجھ رہے تھے کہ کر اچی آ پریشن ان کے خلاف شروع کیا گیا ہے جبکہ یہ آپریشن کسی سیاسی جماعت کے خلاف نہیں بلکہ دہشتگردی کے خلاف شروع کیا گیا تھا جو ابھی بھی چل رہا ہے۔ اب ظاہر ہے میں صوبے کا گورنر تھا اس سلسلے میں میرا دفتر بھی اپنی ذمے داری ادا کر رہا تھا۔ میں بہت نیک نیتی کے ساتھ اپنا کام کر رہا تھا، تاکہ کراچی میں قیام ممکن ہو سکے۔ بعد ازاں مارچ 2016 میں مصطفی کمال صاحب تشریف لے آئے۔ ان کی آمد کے حوالے سے مجھے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ نہیں کہ مصطفی کمال آئے نہیں بلکہ لائے گئے ہیں۔

لہذا اس نکتے پر کچھ اپنے ہی دوستوں سے نظریاتی اختلاف ہوا۔ میرا کہنا یہ تھا کہ مجرم، مجرم ہوتا ہے۔ یہ کوئی بات نہیں ہوتی کہ یہ اچھا مجرم ہے وہ برا مجرم ہے۔ اچھا یہ بھی کہتا چلوں کہ جب اس آپریشن سے قبل اس کے رولز بنائیں گے تھے تو اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ یہ آپریشن غیر سیاسی ہوگا۔ چار چیزوں کو اس میں نمایاں کیا گیا تھا۔ یعنی دہشتگردی، اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور بھتے کی روک تھام کرنا۔ جب مصطفی کمال صاحب لائے گئے تو میں نے اصولی اختلاف کیا میرا موقف تھا کہ اس طرح آپریشن کی سمت متاثر ہوگئی۔ اس کے بعد میں نے خاموشی اختیار کرلی۔ پھر اکتوبر 2016 میں مصطفی کمال صاحب نے باقاعدہ میرا نام لے کر مجھ پر بوچھاڑ کردی۔ شروع میں، میں چپ رہا مگر جب تواتر سے یہ سلسلہ چلتا رہا تو پھر میں نے بولنا ضروری سمجھا، ان کے الزامات کا جواب دیا۔ جس میں یقینا میرے جذبات بھی شامل ہو گئے تھے۔ کیونکہ میں صوبے کی خدمت میں نے اپنا فرض سمجھ کر کر رہا تھا۔ میں نے سیاست کا دروازہ بند کر کے جرائم کی روک تھام پر نیک نیتی سے دیگر منصبی امور کے ساتھ کراچی آپریشن کے سلسلے میں بھی اپنا حصہ ڈالا تھا تاہم آخری میں آ کر صورت حال نے یک دم پلٹا کھا لیا تھا۔ جس کا مجھے افسوس تھا۔

اچھا ایک بات اور کلیر کردوں کہ میرا بولنا میرے گورنر کے عہدے ہٹنے کا سبب نہیں بنا۔ جب سے 2013 میں میاں صاحب برسراقتدار آئے تو میں نے ان سے عرض کی تھی کہ وزیراعظم صاحب یہ آپ کا اخلاقی، آئینی و قانونی حق ہے کہ آپ اپنی جانب سے کسی بھی وفاقی نمائندے کو منتخب کریں۔ بس میری آپ سے انتی گزارش ہے کہ اگر آپ کوئی ایسا ارادہ رکھتے ہیں تو مجھے دو چار روز قبل آگاہ کر دیجے گا۔ اس گذارش کی وجہ یہ تھی کیونکہ میں نے اپنے آپ کو منصبی امور میں کافی سے زیادہ مصروف کر لیا تھا۔ اب ظاہر ہے ان سب سے ایک دم سے ہاتھ اٹھانا مناسب نہیں تھا تو اس تناظر میں دو سے چار روز قبل آگاہی کی درخواست کی تھی۔ مگر میاں صاحب نے مجھ پر ہی اعتماد کیا۔ اچھا ایک بات اور 2016 بہت اہم تبدیلیوں کا سال تھا۔ 9 نومبر کو میں اپنے منصب سے دستبردار ہوا۔ 27 نومبر کو آرمی چیف کی تبدیلی عمل میں آئی جبکہ دسمبر کور کمانڈر کی تبدیلی ہوئی۔ جہاں تک میری بات ہے تو ظاہر ہے عام انتخابات قریب ہیں یہ تبدیلی تو ہونا تھی جبکہ یہ موجودہ وفاقی حکومت کا آئینی حق بھی تھا۔

صحافی: 22 اگست کی صورتحال آپ کے لئے کتنی حیران کن تھی؟

ڈاکٹرعشرت العباد: بہت زیادہ حیران کن اور اس سے کہیں زیادہ تکلیف دہ تھی۔ ایک لمحے کو میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا ایسا واقعی ہو گیا ہے۔ پاکستان ہم سب کے لئے لازم و ملزوم ہے۔ ہم کہیں بھی رہ لیں مگر وطن عزیز جیسی بات تو کسی بھی ملک میں نہیں ہوتی ہے۔ وطن تو ماں ہے اور ماں تو سب کو پیاری ہوتی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا میں نے انصار برنی اور احمد چنائی کیساتھ ملکر بحری قذاقوں کے قبضے سے ایک شپ بازیاب کروایا تھا جس میں پاکستانی ہی نہیں ہندوستانی فمیلز بھی یرغمال بنی ہوئی تھیں۔ ہمارے اس اقدام کے بعد انڈین میڈیا پاکستان کی تعریف کرنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ بین الاقومی سطح پر بھی پاکستان کو پزیرائی سے نواز گیا تھا تو ذرا سوچیں جوشخص اپنے ملک کے وقار اور سر بلندی کے لئے اپنی بساط سے بڑھ کر امور سر انجام دیں رہا ہو اس کی 22 اگست کی صورتحال دیکھ کر کیا کیفیت ہوئی ہوگی۔ اچھا اسی تناظر میں ایک بات اور بتاتا چلوں ان دنوں پاکستان کی سیکورٹی فورسز کڑے امتحان سے نبرد آزما تھیں۔ مہران بیس حملے کی وجہ سے پاکستان نیوی کا دنیا بھر میں منفی تاثر گیا تھا۔ تاہم اس امر کے بعد پاکستان نیوی کی پوری دنیا میں واہ واہ ہوگی۔ انٹرنشنل میڈیا یہ ڈسکس کرنے پر مجبور ہوا کہ بھارت اپنے لوگوں کو بازیاب نہ کرا سکا جبکہ جس کو وہ دشمن ملک کہتا ہے اس نے یہ کارخیر سر انجام دیا۔ مجھے خوشی ہے اللہ نے مجھے اور پاکستان نیوی دونوں کو سرخرو کیا۔ پھر کہونگا کسی بھی پاکستانی کے لئے پاکستان مخالف نعرہ کسی بھی صورت میں کبھی بھی قبول نہیں ہوسکتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا میں نے جب 9 نومبر 2016 کو استعفی دیا ہے۔ اس کے بعد مزار قائد پر حاضری کے بعد میڈیا کے دوستوں سے گفتگو کرتے ہوئے یہ ہی کہا تھا کہ پاکستان کی خدمت کرنا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے کیونکہ ملک ہے تو ہم ہیں

صحافی : 2011 میں آپ کا اقدام قابل ستائش تھا جبکہ اس کے بعد آپ کی جانب سے استعفی پیش کردیا گیا۔ ایسا کرنے کی کیوں ضرورت پیش آئی تھی؟

ڈاکٹرعشرت العباد: کچھ باتیں فی الوقت پوشیدہ ہی رہیں تو مناسب ہیں۔ بہرحال بہت جلد میری ایک کتاب آنے والی ہے اس میں آپ کواس سوال کا جواب مل جائے گا۔ یوں سمجھ لیں میرے کچھ اچھے کام میرے لئے برے ثابت ہوئے تھے۔ 2011 میں اپنوں کے دباؤ کی وجہ سے استعفی دیا تھا مگر وطن اور دوستوں کی محبت کی خاطر اس فیصلے کو واپس لیا۔

صحافی: آپ ایم کیو ایم سے طول عرصے وابستہ رہے۔ کہا جاتا ہے کہ بانی تحریک سے بہت سی باتیں پوشیدہ رکھی جاتی تھیں۔ کیا ایسا تھا اوروہ کون لوگ تھے جو ان کو سچ نہیں بتاتے تھے؟

ڈاکٹرعشرت العباد: بالکل ایسا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے آج ان کو چھوڑ کراپنی سیاست چمکا رہے ہیں۔

صحافی: کیا کبھی آپ نے ان کو وطن واپسی کا مشورہ دیا؟

ڈاکٹرعشرت العباد: میں 2015 کے بعد سے ان سے رابطے میں نہیں ہوں اور اس سے قبل صورت حال اسقدر خطرناک نہیں تھی۔

صحافی: ایم کیو ایم سے اردو اسپینگ کو کتنا فائدہ اور نقصان ہوا؟

ڈاکٹرعشرت العباد: دیکھیں فائدہ ہوا۔ ایک شاخت بنی۔ نما ئیدگی کے لئے پلٹ فارم ملا۔ ہر چیز میں اچھائی برائی توہوتی ہیں۔

صحافی: کیا آپ عام انتخابات سے قبل کراچی آکر اردو بولنے والوں کی سیاسی یتیمی ختم کرنے میں کوئی اہم کردار ادا کریں گے؟

عشرت العباد: میری ساری ہمدردیاں، نیک تمنائیں، دعائیں پاکستان کے عوام کے ساتھ ہیں۔ کراچی چونکہ میرا شہر ہے تو میری جذباتی وابستگی کراچی اور کراچی والوں کے ساتھ ہے تاہم میرا ابھی فی الحال کوئی ایسا ارادہ نہیں ہے۔

صحافی: ابھی فی الحال نہیں ہے تو یعنی مستقبل قریب میں اس قسم کا کوئی ارادہ ہے؟

ڈاکٹرعشرت العباد: اس بارے میں ابھی سوچا ہی نہیں ہے۔

صحافی: یہاں آپ کے کچھ سیاسی دوستوں کا کہنا ہے کہ آپ عام انتخابات سے قبل پرویز مشرف کی قیادت میں اردو بولنے والوں کے لیے اہم کردار ادا کر نے والے ہیں۔ آپ کے قدر دا نو ں کو تو آپ نگران وزیر اعظم کے روپ میں بھی نظر آ رہے ہیں۔ کیا وا قعی ایسا ہو نے جا رہا ہے؟

عشرت العباد: ( ہنستے ہوئے) اصل میں لوگوں کی محبت ہے۔ بہرحال کراچی میں ایک سیاسی خلا تو آ گیا ہے تو لہذا اسے فل کرنے کے لئے مختلف قیاس آرائیاں جنم لے رہی ہیں۔

صحافی: پاکستان میں بڑی سیاسی شخصیات تناؤ کا شکار نظر آرہی ہیں۔ آپ کو پاکستان کا سیاسی مستقبل کیسا نظر آ رہا ہے؟

ڈاکٹرعشرت العباد: مجھے کوئی تسلی بخش صورتحال نظر نہیں آرہی اور یہ بات میں مارچ 2016 سے کہہ رہا ہوں۔ تاہم میری خواہش ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا قیام دیرپا اور پائیدار رہے۔

صحافی: جب آپ کے گورنر تھے تو کس کور کمانڈر اور ڈی جی رینجرز کے ساتھ مل کر کام کرنے کا زیادہ بہتر اور یاد گار تجربہ رہا؟

ڈاکٹرعشرت العباد: سب ہی بہترین تھے۔ سب ہی اپنے کام سے مخلص ثابت ہوئے۔ سابق کورکمانڈر کراچی لفٹینیٹ جنرل احسن حیات خان، سابق لفٹینیٹ جنرل وسیم غازی، سابق لفٹینینٹ جنرل اعجازچوہدری، سابق لفٹینینٹ جنرل ظہیرالاسلام جو بعد میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی مقرر ہوئے تھے۔ ان سے بہت اچھے مراسم رہے اگرچہ جیسا میں نے پہلے کہا کہ سب ہی بہترین تھے۔ سب نے مکمل دیانتداری سے ملک وقوم کی خدمت کی ہم بھی مادر وطن کی خدمت پر مامور تھے اور مل کر پاکستان کی خدمت کر رہے تھے۔ البتہ سابق کورکمانڈر کراچی اور موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی لفٹینیٹ جنرل نوید مختار صاحب کے ساتھ ملکر کام کرنے کا تجربہ بہت زیادہ اچھا رہا۔ اس کی بنیادی وجہ کراچی آپریشن میں تیزی تھی۔ ہم گھنٹوں قیام امن کے سلسلے میں میٹنگ کیا کرتے تھے۔ وہ ایک بہترین آرمی آفیسر اور بہترین کور کمانڈر کراچی ثابت ہوئے ہیں۔ ماشا اللہ ان کی شخصیت بھی ایک جینٹل مین والی ہے۔ اب ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر فائز ہیں۔ میری نیک تمنا ئیں ہمیشہ ان کے ساتھ ہیں۔

ڈی جی رینجرز سے بھی اچھے مراسم رہے۔ ظاہر ہے رینجرز ہمارا ہی ادارہ ہے۔ سارے ڈی جی رینجرز سندھ بہترین تھے۔ سب کے ساتھ یادگار تعلق ہے۔ البتہ سابق میجر جنرل جاوید ضیاء، سابق میجر جنرل رضوان اختر اور سابق میجر جنرل بلال اکبر کے ساتھ زیادہ اچھا تعلق رہا۔ اس کی وجہ بھی کراچی آپریشن پر مل کر ہوم ورک کر نا تھی۔ یوں تو سب ہی بہت اچھے تھے۔

صحافی: پانامہ کا فیصلہ آچکا ہے۔ اس پر کچھ کہنا چاہیں گے؟

ڈاکٹرعشرت العباد: یہ بہترین فیصلہ ہے۔ پاکستان کے مستقبل کا سہنری موڑ ہے۔ یہ واقعی صدیوں یاد رکھا جائے گا۔ اس سے پاکستان محفوظ ہوا ہے۔ ریاست کے ادارے مضبوط ہوئے ہیں۔ عوام کا اداروں پر اعتماد بڑھ ہے۔

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).