ہم بدلتے ہیں جب وقت بدلتا ہے


ہماری کرکٹ ٹیم میں چالیس سے دو چار دانے زیادہ ہی تھے۔ کسی ٹورنامنٹ کا میچ ہوتا تو پچیس تیس لڑکے تو ضرور ہی چلے جاتے تھے۔ امپائر کا دھیان نہ ہوتا تو فیلڈنگ بھی گیارہ سے زیادہ لوگ ہی کر لیا کرتے تھے۔ اکثر تو یوں بھی ہوا کہ جنہوں نے بالنگ کی ان کی بجائے دس اور لوگ ہی بیٹنگ کر گئے۔

یہ سب کر کے بھی ہم اتنا جیتا نہیں کرتے تھے۔ حالانکہ ہمارے غیر کھلاڑی مخالف فیلڈر کو تب پاس جا کرزور سے پریدا (چھوڑ دو) کہہ آتے تھے۔ جب وہ ہمارے کسی بیٹسمین کا کیچ پکڑنے ہی والا ہوتا تھا۔ ان سب شرارتوں کی وجہ سے ہماری ٹیم کافی مشہور تھی۔ اس ٹیم میں کچھ اچھے کھلاڑی بھی تھے۔ ایک دن چار کھلاڑیوں نے بغاوت کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سنجیدگی سے کھیلنا چاہتے ہیں کھیل کی سپرٹ کے خلاف تماشوں میں شامل نہیں ہو سکتے۔

یہ چاروں ملنے آئے ان کا کہنا تھا کہ وسی تم ساتھ ملو گے تو ٹیم بنے گی۔ انہیں سمجھایا کہ یارو میں کپتان ہوں یہ سب میرے دوست ہیں کیسے چھوڑوں۔ ان کا کہنا تھا کہ تمھارے دوست ہیں تو ہمارے بھائی اور کزن ہیں۔ ہم اچھے ٹورنامنٹ جیت سکتے ہیں یہ سب بس مستی کرنے ہی آتے ہیں۔ المختصر ہم نے ٹیم الگ کر لی، اس کے بعد ہمارے گروپ نے ہم پانچوں کو خوب دھویا بڑا ‘‘ پیار’’ کیا خوب لعنت ملامت کی ہم ڈٹے رہے۔ پہلا میچ کھیلنے گئے تو ہم سات لوگ تھے۔ تین بندے بھی ہم بطور امداد کسی طرح لے آئے تھے کہیں دور سے۔ ہمارے ہی ساتھی ہماری کٹ لگانے ہمارے ہی ساتھ میچ دیکھنے پہنچے۔ ایک بڑی ٹیم کے ساتھ میچ تھا۔ ہمارے دوست ہماری مخالفت کرتے رہے خوب ہوٹنگ کی ان سب نے۔ ہم ہار گئے وجہ یہ بھی تھی کہ ہمارے پاس بیٹسمین ہی نہیں تھے جو باقی سکور کے لیے میدان میں اترتے۔

اس کے بعد پھر یوں ہوا کہ ہم کھیلتے رہے پھر جیتنے بھی لگے۔ ہماری سابق ٹیم ہر ٹورنامنٹ میں ہمارے سامنے آتی ایک بہت ٹینس میچ ہوتا پہلے جیسی ساری حرکتیں ہوتیں۔ لوگوں کو لگتا کہ ہم لڑیں گے۔ پر ہم گھر سے بھی اکٹھے جاتے تھے واپس بھی اکٹھے جایا کرتے تھے۔

وقت گزرا کھیلنے والے لڑکے اور مزہ کرنے والا گروپ الگ الگ ہو گیا۔ وقت بدل گیا تھا تو سب ہی کا گروپ بھی بدل گیا۔ سمجھ کچھ بھی نہ آئی۔

گھر سے فرنچ پڑھنے نکلا تھا۔ کچھ ہفتوں بعد ایک قیمتی پتھروں کی امریکی فرم میں ملازمت کرنے لگ گیا۔ وہاں پر عربی افغانی اور امریکیوں سے واسطہ رہا۔ مقامی سٹاف سے بھی بہت اچھا تعلق بنا ہمارا سارا دن ساتھ گزرتا تھا۔ ہم آپس میں لین دین بھی کرتے تھے اکٹھے سیر کرتے کھانے کھایا کرتے تھے۔ باس نے ایک بندے کو اک دن فارغ بیٹھا دیکھا تو خاموشی سے اس کے پاس سے ایک کافی مہنگا ہار اٹھا کر اپنی جیب میں ڈال لیا۔ اس کے بعد اس ظالم باس نے حکم دیا کہ وہی ہار ڈھونڈا جائے۔ کہیں ہوتا تو ملتا میں نے باس کو یہ سب کرتے دیکھا تھا۔ ہر تھوڑی تھوڑی دیر بعد باس سب کو بلا کر ان کی اچھی طرح تسلی کرتا رہا کہ ہار جلدی ڈھونڈو۔

یہ سب دیکھ کر بہت تنگ ہوا تو باس کی دراز سے وہ ہار نکالا اور جا کر دوست کو دے آیا کہ میں نے ڈھونڈ لیا۔ باس نے مجھے ہار اٹھا کر لے جاتے دیکھا لیکن کچھ بھی نہ کہا۔ بس اتنا ہی پوچھا کہ تم نے اسے کیوں بچایا۔ باس سے کہا کہ اک نا کردہ کام پر سب کو مصیبت میں دیکھا نہیں گیا۔ اس کے ساتھ ہی استعفی دے دیا۔ اس کے بعد کافی کچھ ہوا جو ایک لمبی کہانی ہے پھر کبھی۔ دفتر کے دوست احسان مند بھی ہو گئے تھے باس بھی عزت کرنے لگ گیا تھا۔

اپنی لائف کی پہلی اور آخری یہی نوکری تھی جو کسی دفتر میں جا کر کی۔ یہ فرم بھی کچھ عرصہ بعد دیوالیہ ہو گئے کہ اس کے غیر ملکی مالکان بھاگ گئے تھے۔ مجھے دوستوں نے واپس ڈھونڈا اور سب ہی کو ان کے ڈوبے پیسے واپس دلوا دیے۔ یہ کیسے ہوگیا اب بھی حیرت ہوتی کہ اپنی اتنی اوقات تھی نہیں۔ اس کمپنی میں کئی شیئر ہولڈر عرب اور افغان جہادی بھی تھے۔ ان سے پیسے نکلوانا ایک مشکل کام تھا جو بڑے آرام سے ہوا۔

اس دفتر کے دوست اور ساتھی جو کسی حد تک احسان مند بھی تھے۔ ان سے بعد میں ملنا نہیں ہوا۔ کبھی ملے تو کوئی کام پڑا تو وہ تو لازمی ہو گیا۔ البتہ رابطے ختم ہو گئے۔ شاید اس لیے بھی یہ رابطے جلدی ٹھکانے لگے کہ ایک دن راہ جاتے جب ایک کولیگ کو آتے دیکھا تو وہ تب منہ پھیر کر گزر گیا جب میں ابھی اپنی جپھی ہی تیز کر رہا تھا۔ وقت بدلا تھا سمجھ پھر بھی نہ آئی تھی۔ اک بدگمانی سی رہ گئی۔

انٹرنیٹ جب تازہ تازہ عام ہو رہا تھا ہم دوست ایک نیوز ویب سائٹ کو دھکا دے رہے تھے۔ خبریں ایک دوست کی مہربانی سے مفت لیتے تھے تو ٹھہر ٹھہر کر آتی تھیں جو ساری رات ہم لگاتے رہتے۔ ٹائم بہت ہوتا تھا نیٹ کی مہربانی سے ان حسینوں سے رابطے ہوئے جو باہر ہوتے ہیں۔ ہم بہت دیر باتیں کرتے پھر یہ رابطے ٹیلی فون کالوں میں بدلے۔ ایک بار تو بات بڑھ کر ملاقاتوں تک پہنچی۔ تعلق ایسے بھی بن کر بڑھتے ہیں کہ کوئی سرحدوں کو نظرانداز کرتا ہوا دور سے ملنے آئے یہ ہوتے دیکھا۔

یہ تعلق سب برقرار رہ گئے جب بات ہو تو ہم ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے تب ہوا کرتے تھے۔ وقت بدلا تو رابطے پھر نہ رہے ہم بدل گئے سمجھ پھر بھی نہ لگی۔

ہوا یوں کہ ایک دوست کو عشق ہو گیا۔ اس نے بھی بڑی دور نشانہ لگایا تھا۔ محترمہ کی پہلی شادی ناکامی سے دوچار تھی۔ دن ان کا مقدمہ بازی خاندانی پھڈوں میں گزرتا۔ رات وہ ہمارے یار سے پیار کے پہاڑے سنا کرتی تھیں۔ دوست نے پتہ نہیں کیا کرتب دکھایا کہ بندی کو زندگی میں واپس لے آیا۔ انہیں نوکری تک دلوا دی جو اتنی بابرکت ثابت ہوئی کہ بندی کو اسی کے دوران اچھا بندہ ملا اس کا گھر بس گیا۔

مکیش اور لالے عطا اللہ کے گانے سننے کو ہمارا یار رہ گیا۔ اس سے اک دن ملاقات ہوئی تو ٹھنڈی گرم آہیں باری باری بھر رہا تھا۔ سوال اس کا یہ تھا کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔ لعنت بھیجو کیوں پر وہ اب مجھ سے بات تک نہیں کرتی رات کو اسی ٹائم جس پر ہم پہلے بات کیا کرتے تھے۔

یہ وہ گھڑی تھی جب شاعروں شعر جگت بازوں پر جگتیں نازل ہوتی ہیں۔ آمد ہوئی دوست سے کہا او جھلیا کیوں لفٹ کرائے وقت بدل گیا کہ وہ راتیں چلی گئیں جب وہ تنہا ہوتی تھی، اسے ضرورت تھی تسلی کی۔ اب وہ آباد خوشحال ہے۔ اس کی ضرورت بدل گئی اب تم بھی بدل جاؤ میرے شیر دلیر۔ کہانی میں تمھارا جو کردار تھا ختم ہوا۔

وقت بدلے تو بدل جانا بھول جانا ہی اچھا ہوتا۔ کسی لمحے میں ہم قید رہ جائیں تو زندگی رکی رہ جاتی ہے۔ کہانی سے اپنا کردار نکلے تو بس آگے بڑھ جائیں فیصلہ وقت پر چھوڑ کر۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi