نظام کو چکر کیوں آتے ہیں


صف آرائی واضح ہوتی جا رہی ہے۔ اس میں کوئی دو آراء نہیں ہیں کہ دو گروہ سینگ پھسائے بیٹھے ہیں۔ ہمارے بہت سے دوستوں کا خیال بلکہ یقین ہے کہ ہر ابتلا کے پیچھے ایک سازش چھپی ہے۔ عین ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو۔ یہ بھی درست ہے کہ جمہور کی رائے آخر میں کبھی بوٹ کی ٹھوکر پر رکھ لی جاتی ہے کبھی ترازو سے گر جاتی ہے۔ ایک نیا دور چلتا ہے۔ پرانی کہانی پھر سے لکھی جاتی ہے۔ کچھ کردار کچھ عرصہ پردے کے پیچھے رہتے ہیں پھر ڈرامہ ایک قبل ازوقت کلائمکس کی طرف بڑھتا ہے۔ اسٹیج پر کچھ نئی انٹریز ہوتی ہیں۔ ہدایت کار کونے میں پیچھے کھڑے لقمے دیتے ہیں۔ پھر اچانک پردہ گر جاتا ہے۔ تماشائی ہکا بکا رہ جاتے ہیں۔ تماشہ ختم، پیسہ ہضم۔ کوئی منی بیک گارنٹی نہیں۔ اب اگلے دن کا سورج اگے گا تو ملتے جلتے اسکرپٹ پر ایک اور تھیٹر سج جائے گا۔

میرا مقدمہ وہی ہے جو پہلے تھا۔ جمہور کی رائے مقدم تو ہے پر یہ رائے کسی کو تجاوز کا حق دینے کے لیے نہیں ہے۔ ادارے اپنا کردار ادا کریں تو معاملہ سنورنے کی نوید ہو پر ادارے کی بنیاد پہلے دن سے ٹیڑھی ہو اور یاروں کو پیسا ٹاور ہی بھاتا ہو تو پھر کوئی سیدھا کیونکر کھڑا رہ سکتا ہے۔

ہم ایک غیر متبدل رائے قائم کرتے ہیں۔ ایک کو ابلیس اور دوسرے کو جبرائیل کا درجہ دیتے ہیں اور پھر اپنے جبرائیل کے پیچھے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس میں موقف کی ہر کمزوری قالین کے نیچے کھسکا دی جاتی ہے اور حق کا اپنا اپنا مینارہ استوار کر لیا جاتا ہے۔ میری رائے میں مسئلے کا حل کل میں نہیں، جزئیات میں چھپا ہے۔ جمہوریت یکطرفہ پیکج ڈیل نہیں ہے۔ اس میں ہر گروہ کی اپنی ذمہ داری ہے جس کو زمینی حقائق کے تناظر میں ہی پرکھا جا سکتا ہے۔ سیاسی اشرافیہ جمہوری اقدار سے جڑی روایات کا تحفظ کرنے کی خود ذمہ دار ہے۔ اس کے بعد باقی ذمہ داران یا ذمہ واران پر تنقید کا دفتر کھولنا ان کے لیے بھی آسان ہو جائے گا اور آپ کے اور میرے لیے بھی۔ اسی پارلیمان نے ایمان کا ترازو قائم کیا تھا کہ پاپولر بیانیے کے ساتھ کھڑا ہونا تھا۔ یہی پارلیمنٹ ایمانی آئینی شقوں کو ختم تو کیا کرتی اسے اور سخت کر گئی۔ یہی نمائندگان ایک دوسرے کی ٹانگ میثاق جمہوریت کے دونوں طرف کھینچتے رہے۔ میمو گیٹ میں کالا کوٹ پہن کر پہنچنے والے کو دوسروں پر سازش کا الزام دھرنے سے پہلے اپنی عقل کو ہاتھ بھی تو مارنا چاہیے۔ جس باسٹھ تریسٹھ کی تلوار سینے میں ترازو ہے اسے میان کرنے کا وقت تھا تو یہی آج کے سیاسی شہداء آڑے آئے تھے۔ پر ایک گروہ پر تنقید کا مطلب دوسرے کیمپ کی حمایت ہر گز نہ سمجھی جاوے۔ حمام میں سب آتے ہیں۔ کوئی وردی اتار کر کوئی شیروانی اتار کر اور ننگے پنڈے پر ٹھپے تو لگے ہوتے نہیں۔

زمینی حقائق یہ ہیں کہ آپ کے اور میرے مطالبے پر تو کسی نے راستہ نہیں دینا۔ جنہوں نے راستہ بنانا ہے وہ خود ایک دوسرے کے گریبان میں موقع ملنے پر ہاتھ ڈالنے سے نہیں چوکتے۔ بندوق کے مقابل کون کھڑا ہو سکتا ہے۔ وہ جو خوفزدہ نہ ہو۔ خوف کو شکست دینے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی الماری میں شکستہ استخوان نہ ٹنگے ہوں ورنہ جو چل رہا ہے سو چلتا رہے گا۔ آپ اور ہم اور ہمارے جیسے کتنے ہی اپنی اپنی بولیاں سنا کر فنا ہو جائیں گے۔ تو اپنے کتھارسس کی حد تک تو یہ اچھا ہے پر اس سے تبدیلی کی توقع رکھنا بڑی خوش فہمی ہے۔

اعداد وشمار کا قارورہ کچھ اور بھی کہتا ہے۔ کچھ باتیں سیاسی رومانویت کے پرے بھی ہیں جس سے ایک عام آدمی کے اصل مسائل جڑے ہیں۔ جب جمہور کے علمبردار ان مسئلوں سے روگردانی کرتے ہیں اور کرتے ہی چلے جاتے ہیں تو پھر عام آدمی ایک بے حس زومبی کی طرح اقتدار کی کشمکش دیکھتا ہے۔ تاج اور سر گرتے ہیں۔ تخت پر چہرے بدلتے ہیں۔ سولیاں لگتی ہیں۔ صلیبیں گڑتی ہیں۔ گلوٹین کا بلیڈ افقی سفر جاری رکھتا ہے اور زومبی کی پلک نہیں جھپکتی۔

ہم سازشی تھیوریوں کے اسیر ہیں۔ پر کیا بہتر نہ ہو کہ ہم اندازوں کو اندازہ ہی رہنے دیں تو اچھا ہے۔ بادی النظر کی اصطلاح کا پہلے ہی مذاق بن چکا ہے۔ رائے رائے ہے، وہ حقیقت ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ اگر اتنی شدومد سے ہر سازشی تھیوری کو منوانا ہے تو بیرونی طاقت، خفیہ ہاتھ اور را کے پہاڑے کو بھی ساتواں اور آٹھواں کلمہ سمجھ لیتے ہیں۔

موجودہ مقدمے کو جو مرضی کہیے یہ ”بادی النظر“ میں فرد کے خلاف تھا، منتخب حکومت کے خلاف نہیں۔ اب کسی بھی جمہوری قدر کے تحت نظام چلتا رہنا چاہیے اور پالیسی بھی۔ دور کیوں جائیے، یوسف رضا گیلانی کو قربان کر کے کسی نے پی پی پی کا کیا بگاڑ لیا تھا۔ میاں صاحب میں زرداری صاحب جیسی سیاسی فراست نہیں ہے تو یہ تو عمران خان کا قصور نہیں ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ خان صاحب اس معاملے میں میاں صاحب سے بھی پیدل ہیں۔

ہماری سیاسی اشرافیہ رومن شہنشاہیت سے بھی دو ہاتھ آگے رہنا چاہتی ہے۔ اسے فرد نظام کے گرد نہیں گھمانا، نظام کو فرد کے گرد گھمانا ہے اور پھر شور بھی مچانا ہے کہ نظام کو چکر آ رہے ہیں۔ خاندان کا ایک فرد گیا تو دوسرا تیار۔ اب ویسے شنید ہے کہ باقر نجفی اور نام حدیبیہ دیوار پر لگے نظر آ گئے ہیں تو شاید ارداہ بدل دیا جائے۔ لڑائی لڑنے کے لیے مخالف کی طاقت اور کمزوری دونوں کا ادراک ضروری ہے اور بے تیغ جنگ صرف بانگ درا کے صفحات پر لڑی جا سکتی ہے اور بیل کو سینگوں سے صرف انگریزی گرامر کی کتاب میں پکڑا جاتا ہے۔ بپھرے جانور کو زمیں بوس کرنا مقصود ہو تو تیکنیک، صبر، تربیت اور موزوں ہتھیار ضروری ہیں۔ میٹا ڈور کھڑا ہو اور نہ ہاتھ میں تلوار ہو، نہ پنجوں پر رقص کناں ہونے کا سلیقہ تو سینگ میٹاڈور میں گھسیں یا میٹاڈور سینگوں میں، خربوزے والا ہی حشر ہو گا۔

سوال وہیں کھڑا ہے۔ نظام اہم ہے کہ بس نام اہم ہے۔ اس کا جواب مل جائے تو آگے بڑھتے ہیں۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad