وہ لوٹ کر نہیں آئے گا


لاہور میں ایک نیم صحافی قسم کے دوست کا فون آیا۔ فرمایا یہ سب کچھ راحیل شریف کو واپس لانے کے لیے ہو رہا ہے۔ عرض کیا پہلے اتنے عرصے سے سارا کچھ انھیں یہاں سے بھیجنے کے لیے ہو رہا تھا اب واپسی کیسے ہو گی؟

کراچی کے دوست بھی گاہے بگاہے ٹھنڈی آہ بھر کر مشرف دور کو یاد کرتے ہیں اور جب بھی سیاسی افق پر کسی نئی سازش کے آثار نظر آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ شاید مشرف کو واپس لانے کی تیاری ہو رہی ہے۔

نواز شریف کی نااہلی پر خوش ہونے والے ایک بھائی سے میں نے مذاقاً کہا کہ لگتا ہے کہ واقعی الطاف حسین کی آہ لگ گئی ہے اور وہ خوش ہوئے۔ میں نے پوچھا آگے کیا ہو گا؟ بولے ہم تو بس تبدیلی چاہتے ہیں۔ میں نے کہا آپ بھی؟ کہنے لگے کراچی کے زیادہ تر لوگ تو یہی چاہتے ہیں کہ مشرف دور واپس آ جائے۔

میں نے پھر عرض کیا کہ کتنے جتن کر کے، ایمبولینس کا راستہ بدل کر، ایکس رے کی تصویریں دکھا کر، کسی کو ڈرا کر، کسی کو دھمکا کر، جنرل مشرف کو ملک سے نکالا گیا، اب واپس لانے کے لیے کیا کرنا پڑے گا۔

مجھے اپنے کراچی کے دوستوں کا ناسٹیلجیا سمجھ آیا ہے۔ جب مشرف حکمران تھے تو ایسا ہی ماحول تھا جو سیّاں کے کوتوال بننے کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ الطاف بھائی کی ایک کال پر ٹی وی چینل بند ہوتے اور کھلتے تھے۔ شہر کو بند کرانے کی ضرورت صرف اس وقت پڑی جب مشرف نے اسلام آباد میں کھڑے ہو کر مکہ ہلایا۔ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے تھے پھر شیر بکری کو ہڑپ کر کے لمبی تان کے سوتا تھا۔

خواب دیکھنا اچھی بات ہے لیکن ریٹائرڈ جرنیلوں کی واپسی کے خواب دیکھنا ہمارے کسی اجتماعی ذہنی خلل کی نشانی ہے۔ ہمارے بچپن میں ٹرکوں کے پیچھے جنرل ایوب خان کی تصویر ہوتی تھی اور بزرگ ان کے دور کے سبز انقلاب اور وہی شیر بکری اور گھاٹ والے قصے سناتے تھے۔ ان کی بھی سنی گئی اور اللہ نے جنرل ضیاالحق کو نازل کر دیا۔ وہ بھی اپنی وردی اور منتشر مونچھوں کے ساتھ وجیہہ لگتے تھے لیکن پتہ نہیں کیوں ٹرک والوں نے سلطان راہی کی تصویری لگانا شروع کر دیں۔

لیکن ہماری زیادہ تر آبادی کا خیال ہے کہ پاکستان کی تاریخ مشرف کے زمانے سے شروع ہوتی ہے تو ان سے یہ سوال ہے کہ اگر راحیل شریف یا مشرف یا دونوں کو واپس آنا ہے تو وہ کون سی اڑن طشتری پر بیٹھ کر واپس آئیں گے؟

پاکستان کی فوج کا ایک ہی سپہ سالار ہوتا ہے اور جب وہ اپنی مرضی سے یا حالات کے جبر کی وجہ سے ریٹائرڈ ہو جاتا ہے تو اس کی جگہ ایک نیا سپہ سالار آجاتا ہے جو اتنا ہی طاقتور ہوتا ہے جتنا جانے والا۔ وہ جی ایچ کیو میں بیٹھ کر فوراً ہی اپنی نئی جاب شروع کر دیتا ہے، ہو سکتا ہے نئی ملنے والی طاقت کا مزہ بھی لیتا ہو لیکن میرا نہیں خیال کہ کوئی نیا سپہ سالار اپنی نئی کرسی پر بیٹھ کر آئیں بھرتا ہو اور گنگناتا ہو کہ

اے جانے والے لوٹ کر آنا

فوج کوئی پاکستان کی سیاسی جماعت نہیں ہے جو بھٹو یا شریف یا الطاف کے آنے جانے سے دل کا عارضہ پال لے۔ ہو سکتا ہے کہ مشرف کے کچھ جونیئر اور ہمدرد جنرلوں نے سوچا ہوکہ سر کی بے عزتی ہو رہی ہے، اس کا کوئی بندوبست کیا جائے۔ اب کے سب سے بڑے باوردی چاہنے والے نے بھی یہ نہیں کہا ہو گا کہ ان کو واپس بلا کر ان کی تاج پوشی کی جائے کیونکہ ان کا بہت دل کر رہا ہے۔

اگر آپ صرف گذشتہ دس سالوں کے اخباری کالم ہی پڑھ لیں تو وہ مدبر صحافی جو جی ایچ کیو کے اندر چائے سموسوں کا پروٹوکول جانتے ہیں ان کے مطابق جنرل کیانی جنرل مشرف سے زیادہ مدبر تھے (اگر کسی کو شک ہو تو کمانڈ کی ہینڈ اوور والی پریڈ دیکھ لیں تو کیانی نے سپہ سالار والی چھڑی مشرف کے ہاتھ سے تقریباً چھینی ہی تھی)۔

اسی طرح جنرل راحیل، جنرل کیانی کے مقابلے میں اتنے بہادر تھے کہ ٹرکوں کے پیچھے سلطان راہی کی تصویر اتری اور ان کی لگی۔ اور ابھی جو جنرل باجوہ صاحب آئے ہیں ان کی حب الوطنی پر اتنا ٹوٹ کر پیار آتا ہے کہ ان سے پہلے آنے والے سپہ سالار کچھ سوتیلے سوتیلے لگتے ہیں۔

اور میں ابھی سے پیش گوئی کیے دیتا ہوں کہ جنرل باجوہ صاحب کے بعد جو سپہ سالار آئے گا ویسا تو صدیوں میں پیدا نہیں ہوتا۔

خواب دیکھنے والوں کی آنکھیں کھولنے کا کہتے ہوئے دل بیٹھ سا جاتا ہے لیکن راحیل اور مشرف کی رہنمائی سے ہم محروم ہی رہیں گے۔ پاکستان میں ویسے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک دن سلطان راہی دوبارہ زندہ ہو کر اپنا گنڈاسہ لہرانے لگے یا سپریم کورٹ کے مطابق اس پارلیمان کے واحد صادق اور امین جناب سراج الحق سو کر اٹھیں تو انھیں بتایا جائے کہ خلافت بحال ہوئی اب آپ یہ ذمہ داری سنبھالیں۔

ہمارے سیاسی افق پر امکانات کا اتنا ہجوم ہے کہ شاید کسی دن راقم کو بھی کوئی ذمہ داری دے دی جائے لیکن راحیل یا مشرف؟ تھوڑا مشکل ہے۔

کچھ شکلیں ٹرکوں کے پیچھے اچھی لگتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).