اقبال اور عطیہ فیضی


ڈاکٹر خالد سہیل کا مضمون، ’علامہ اقبال: ایک محبوبہ، تین بیویاں اور چار شادیاں ‘مصنف کے بیان کے مطابق اقبال کے ’رومانی تضادات ‘ کی نقاب کشی کرتا ہے۔ اسی سلسلے میں وہ لکھتے ہیں: ’علامہ اقبال کی شخصیت کے ڈھکے چھپے نفسیاتی تضادات اس وقت ابھر کر سامنے آئے جب وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایشیا سے یورپ تشریف لے گئے۔ علامہ اقبال جب مشرق کی رومانوی گھٹن کی شکار فضا چھوڑ کر مغرب کی آزاد فضا میں داخل ہوئے تو انہیں یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ ان کی شخصیت اس قدر مقناطیسیت کی حامل تھی کہ مختلف ثقافتوں کی حسین و جمیل عورتیں ان پر فریفتہ ہونے کے لیے تیار تھیں۔۔۔۔ اقبال نے مغرب کی نعمتوں سے پوری طرح استفادہ کیا اور نئی دوستیاں بنانے اور نبھانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔ ان دوستیوں میں مغرب کی حسیں دوشیزائیں بھی شامل تھیں اور مشرق کی دخترانِ خوش گل بھی اور ان میں سے ایک عطیہ فیضی تھیں۔‘

 ’دختران خوش گل‘ کی ترکیب میرے لئے نئی ہے، البتہ یہ بات میری سمجھ میں آگئی کہ ڈاکٹر سہیل کے نزدیک اقبال کی ’ایک محبوبہ‘ عطیہ فیضی تھیں۔

ڈاکٹر سہیل نے اپنے مضمون کی ابتدا اقبال کے اس شعر سے کی ہے:

لازم ہے دل کے پاس رہے پاسبان عشق

لیکن کبھی کبھی اسےتنہا بھی چھوڑدے

 چونکہ ڈاکٹر صاحب تضادات کی تلاش میں تھے اس لئےبہتر تو یہ ہوتا کہ انھوں نے اقبال کی معروف نظم ’عاشق ہرجائی‘ کے مطلع کو اپنے مضمون کی پیشانی پر درج کیا ہوتا جو حسب ذیل ہے:

ہے عجب مجموعہٴ اضداد اے اقبال تو

رونق ہنگامہٴ محفل بھی ہے، تنہا بھی ہے

کیونکہ اسی نظم میں یہ چار اشعار بھی موجود ہیں:

حسن ِنسوانی ہےبجلی تیری فطرت کے لئے

پھر عجب یہ ہےکہ تیرا عشق بےپروا بھی ہے

تیری ہستی کا ہےآئینِ تفنّن پر مدار

تو کبھی ایک آستانے پر جبیں فرما بھی ہے

ہے حسینوں میں وفا ناآشنا تیرا خطاب

اے تلوّن کیش تو مشہور بھی رسوا بھی ہے

لے کے آیا ہے جہاں میں عادتِ سیماب تو

تیری بیتابی کے صدقے، ہے عجب بیتاب تو

اس نظم کے دوسرے سیکشن کےپندرہ اشعار میں اقبال نے اپنے ذہن کی افتاد کی دفاع میں جو کچھ کہا ہے اسے کلاسکی رومانیت کہا جاسکتا ہے لیکن ان کی اس خودآگہی کی کوشش کو بالکل نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ خاص طور پر جبکہ یہ نظم اس زمانے کی ہے جب اقبال یورپ میں تھے، 1905 تا 1908۔ ویسے یہ ملحوظِ نظر رہےکہ یورپ جانے سے کافی پہلے بھی اقبال اپنے تضادات کا ذکر ایک دوسری نظم میں کھل کر کرچکےتھے۔ اس نظم کا عنوان ہے ’زہد اور رندی‘، اور انکے مجموعے بانگ درا میں شامل ہے۔ اس میں بھی اقبال نے، ایک صوفی منش مولوی کی زبانی، بخوشی خود کو ایک ’مجموعہٴ اضداد‘ کہلوایا ہے۔ 27 اشعار کی یہ پر لطف نظم اس شعر پر ختم ہوتی ہے:

اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے

 کچھ اس میں تمسخر نہیں، والله نہیں ہے

میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ اقبال کو اپنے تمام تضادات کا علم تھا، یا یہ علم مکمل اور بلا استثنا تھا۔ مقصد صرف اتنا کہنا ہے کہ اقبال اپنی شخصیت میں تضادات کی موجودگی سے ناواقف نہ تھے۔ وہ ان پر غور بھی کرتے تھے، ان کا تجزیہ کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ ہم ان کی ان کوششوں کو کوئی بھی نام دے سکتے ہیں، لیکن ان کے ہونے سے انکار نہیں کر سکتے۔ یہاں فیض کا ایک شعر یاد آتا ہے:

ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن

اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے

ڈاکٹر سہیل نے عطیہ فیضی کو اقبال کی محبوبہ قرار دیا ہے، اور اس سلسلے میں مس فیضی کی ڈائری کے اندراجات کو استعمال کیا ہے۔ مجھے واقعی علم نہیں کہ یہ ڈائری کبھی شائع بھی ہوئی تھی۔ زیادہ تر لوگ محترمہ کی اقبال کے بارے میں انگریزی کتاب میں جو کچھ شامل ہے اسی کے حوالے سے اپنے خیالات کی تائید کرتے رہتے ہیں۔ میرا خیال ہے  کہ ڈاکٹر سہیل نے بھی یہی کیا ہے۔ لیکن چونکہ وہ ماہر نفسیات کی حیثیت سےعطیہ کے بیانات کو اقبال کے نفسیاتی تضادات کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں اس لئے ان پر لازم تھا کہ جس ہستی کی گواہی وہ ’ثبوت‘بنا رہے ہیں، پہلے اس کی بھی تحلیلِ نفسی کرتے اور ہمیں بتاتےکہ عطیہ کی ڈائری میں بیان کردہ باتوں کے پس پشت کیا کچھ ہوسکتا تھا۔ اور ان مفروضوں کے تحت اقبال سے ان کے مبینہ تعلقات کے بارے ہم کیا سوچ سکتے ہیں۔ افسوس کہ ایسا انھوں نے نہیں کیا۔

عطیہ اور اقبال کا سالِ پیدائش ایک ہے، یعنی 1877۔ چنانچہ وہ جب یورپ میں پہلی بار 1907 میں ملے تو دونوں اںتیس سال کےلگ بھگ رہے ہوں گے۔ عمر کے علاوہ دونوں میں کوئی قدرِمشترک نہ تھی۔ بلکہ تمامتر زمین آسمان کا فرق تھا۔ قوم، خاندان، کلاس یا طبقاتی حیثیت میں انتہائی فرق ہونے کے علاوہ تعلیم، دنیاوی تجربہ، دنیاوی شہرت اور خود اعتمادی کے اعتبار سے بھی دونوں میں بےحد فرق تھا۔ عطیہ کی انگریزی بولنے کی استعداد اقبال سے بہتر رہی ہوگی، لیکن انگریزی یا یورپی ادبیات سے اقبال بہتر واقف تھے۔ اقبال نے باقاعدہ پوسٹ گریجویٹ تعلیم حاصل کی تھی، اور لاھور کے بہترین کالج میں فلسفہ کے لکچرر رہ چکے تھے۔ عطیہ نے وہ تعلیم حاصل کی تھی جسے ایک زمانے میں Finishing School  کی تعلیم کہا جاتا تھا۔ وہ فارسی سے ضرور واقف تھیں، لیکن حافظ کے علاوہ کسی اور شاعر کا نام ان کی تحریروں میں نہیں ملتا۔ اردو ادب کا مطالعہ نہ ہونے کے برابر تھا، نہ ہندوستان کی کسی اور زبان کے ادب سے وہ واقف تھیں۔

خاندانی ثروت کے لحاظ سے عطیہ اقبال سے زیادہ خوش قسمت تھیں، لیکن خود اپنے خاندان کے دوسری لڑکیوں کے مقابلےمیں خاصی کم خوش قسمت۔ فیضی خاندان کی وہ مالی اور باوقار حیثیت ہرگز نہ تھی جو طیب جی خاندان کی تھی۔ عطیہ کا تعلق اس امیر اور نامور خندان سےاپنی نانی کے توسط سے تھا، دادی یا دادا کے توسط سے نہیں۔ عطیہ کے والد اپنی بیوی سے قطع تعلق کرکے استنبول میں رہتے تھے۔ عطیہ کی دو بڑی بہنوں کی شادیاں بہت کم عمر میں کردی گئی تھیں، اور ایک کی شادی نام میں تو بڑی لیکن اصل میں حقیر اور بےثبات ثابت ہوئی تھی۔ 1907 میں کسی بڑے خاندان کی لڑکی کا 29 سال کی عمر میں غیرشادی شدہ رہنا خود ایک جواب طلب سوال ہے۔ کیا اس کا عطیہ کی شخصیت کی ساخت پر کچھ بھی اثر نہ پڑا ہو گا؟

عطیہ کی شخصیت کو سمجھنے کا سب سے بڑا ذریعہ ان کا وہ سفرنامہ ہے جو پہلےرسالہ تہذیبِ نسواں میں اور بعد میں الگ کتاب کی شکل میں ’زمانہٴ تحصیل‘ کے نام سے 1921ء میں شائع ہوا تھا۔  (کچھ سال قبل یہ پاکستان میں اس کی اشاعت ثانی ہوئی تھی جو شاید اب بھی دستیاب ہو۔) اس سے چند اقتباسات ذیل میں درج کرتا ہوں جس سے عطیہ فیضی کے اظہار بیان کی صلاحیت اور وسیلے کا اندازہ ہو جائیگا۔ اردو لکھتے وقت بھی وہ سوچتی انگریزی میں تھیں۔

1۔  دو رویہ کناروں پر درختوں کی قطار لگی ہوئی تھی۔ کالج کے کنارے پر کشتی گھر موجود تھا، اور لڑکے جابجا کشتیاں چلا رہے تھے۔ آخرکار ساڑھے چار بجے ایک جگہ پر اتر کر ناشتہ چن دیا تھا، اس کا خوب ہی انصاف کیا۔ (22 اپریل 1907۔ کیمبرج۔)

2۔ مہمانوں کو چائے پلانے کا ذکر میں اول کرچکی ہوں۔ اگر آپ اپنا الگ چھوٹا ذخیرہ چاء کے سامان لے کر رکھیں تو پانچ آدمیوں کو چار آنے میں بفراغت چاء پلا سکتے ہیں۔ بشرطیکہ اپنے ہاتھ سے کمرے میں طیار (کذا) کی جائے، کہ جو کوئی ایسی مشکل بات نہیں۔( یکم اکتوبر 1906ء )

عطیہ کو شاعر اقبال کی شہرت اور مقبولیت کی کوئی خبر نہ تھی اور نہ انھیں اس سے کوئی دلچسپی تھی۔ عطیہ کی کسی تحریر سے یہ نہیں ظاہر ہوتا کہ انھوں نے اقبال کی شاعری کو کو کسی زبان میں پڑھا اور قابل اعتنا سمجھا تھا۔ عطیہ 1906 میں دو سال کے سرکاری وظیفہ پر ٹیچر ٹریننگ کے لئے گئی تھیں، اگرچہ ان کا تدریس کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ یہ وظیفہ دو سال کا تھا، لیکن جب پہلے سال کا امتحان ہوا تو عطیہ آٹھ پرچوں میں سے تین میں فیل تھیں۔ یہ درست ہے کہ امتحان سے کچھ ہی عرصہ پہلے ان کی عزیز نانی کی وفات ہوگئی تھی، لیکن اس سے زیادہ یہ بھی درست ہے، اگر سفر نامے کے اندراجات کو سامنے رکھا جائے، کہ انھوں نے اپنا زیادہ وقت پارٹیوں اور سیر تفریح میں گذارا تھا۔ نانی کی وفات کے دو ماہ بعد سے وہ پھر انھیں مصروفیات میں مشغول ہو گئی تھیں۔ ان کا سفرنامہ پڑھیے تو سامنے آ جاتا ہے کہ ان کا ذہن عورتوں کی شکل و صورت اور ان کے لباس اور زیورات کو جانچنے اور پرکھنے میں ہمہ وقت مصروف رہتا تھا۔ سفرنامے کے مطابق، عطیہ صرف چند ماہ گزارنے کے بعد اس بات پر مستعد تھیں کہ واپس جاکر وہ ایک اسکول قایم کریں گی۔ لیکن جب وہ تعلیم ادھوری چھوڑکر واپس آئیں تو انھوں نے اسکول کے نام سے ایک مدرسہ بھی نہیں قائم کیا۔ نہ ہندوستان میں، نہ پاکستان میں۔

عطیہ کے انگریزی مضمون میں ظاپر کیا گیا ہے کہ اقبال نے مس بیک کے توسط سے ان سے ملاقات کی کامیاب کوشش کی تھی اور پھر تین چار دن مسلسل دونوں کی ملاقاتیں جاری رہیں۔ بالآخر 22 اپریل 1907 کو وہ اقبال کےہمراہ کیمبرج گئیں جہاں انکو بیگم سید علی بلگرامی نے مدعو کیا تھا اور جن کے دعوت نامے کو اقبال نے، بقولِ عطیہ، ان سے ملاقات کا بہانہ بنایا تھا۔ نیچے سفر نامے میں اس تاریخ کا اندراج پیش کرکے میں اس تحریر کو ختم کرتا ہوں۔ پڑھنے والے خود ہی سمجھ لیں گے کہ اقبال کے تعلق سے عطیہ کی شہادت کو قبول کرنے میں کس نوعیت کی اور کس درجہ کی احتیاط کی ضرورت ہے۔

’آج تو کیمبرج کی سیر کر آئے، اور مس سید علی صاحبہ کی دعوت میں شریک ہوئے۔ گیارہ بجے ٹرین میں سوار ہوئے، اور ساڑھے بارہ بجے پہنچے۔ گاڑی تیار تھی۔ اس میں مسس سید علی بلگرامی صاحبہ کے یہاں چلے۔ بھائی جابر راستے میں شریک ہو گئے۔ اچھا چھوٹا سا مکان ہے، جیسےاکثر یہاں پر ہوتے ہیں۔ جناب سید علی صاحب سامنے نظر آئے۔ اور اندر بیگم صاحبہ تشریف رکھتی تھیں۔ ان لوگوں سےملنے کا مجھے پہلا ہی اتفاق ہوا۔ مہربان وضع اور لایق طرز سے پہچان ہوئی ۔۔۔۔ مسٹر اقبال بھی تشریف رکھتے تھے۔ یہ صاحب نہایت درجے عالم، فاضل اور فیلسوف اور شاعر ہیں۔ پر تکلف اور لذیذ ہندی کھانا کھلایا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).