آزادی کے دن کی اک چھوٹی سی خواہش۔۔۔۔۔۔۔


ستر سال کی نفرت میں

چار دفعہ کی جنگوں میں

بندوقوں کے سائے تلے

تار لگی سرحد کے ادھر

اور ادھر

کیا کھویا کیا پایا ہے

 سارے کھاتے سرخ پڑے ہیں

اس سودے میں اپنی جاں تو کھو ہی دی ہے

ہے نا۔۔۔۔

پھر۔۔۔ اس کو چھوڑو۔

آگے کی سوچو

ممکن ہے کہ یہیں کہیں پر

کوئی پرانی یاد پڑی ہو

کتابوں کے بوسیدہ صفحوں کے اندر

ابھی بھی سوکھے پھول رکھے ہوں

پیار کی کوئی گھڑی کہیں پر

ٹھہری  ہوئی ہو

آئینے میں اپنی بگڑی شکل نہ دیکھو

بچوں کے چہرے کو دیکھو

بچوں کے چہرے پہ لکھی ہے

آنے والی کل کی رباعی

جس میں سارے لفظ ہیں ڈھائی اکشر والے

یہیں کسی کونے میں رکھا ہے

ڈھونڈ کے دیکھو

مل جائے گا

ہنستا لمحہ، خوشی کی ٹوپی پہنے ہوئے ہے

بچوں کو دے دو

ایک اجازت

ساتھ وہ کھیلیں

کیا ہی اچھا ہو

ساتھ ہی روئیں

پھر ساتھ ہی ہنس لیں

ستر سال کی نفرت بو کر

کیا اچھا ہو

پیار کا اک پودا جو اگائیں۔۔۔۔

آزادی کا دن یوں منائیں

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad