چراغ حسن حسرت کی ایک شاہکار تحریر


حاجی لق لق پر پچھلے دنوں بھینس کے ہاتھوں قیامت گزر گئی۔ یہ تو اکثر لوگوں کو معلوم ہے کہ حاجی صاحب نے کوئی سال بھر سے ایک بھینس پال رکھی ہے اور اس کی خدمت اس تن دہی سے کرتے ہیں کہ کوئی اس طرح بزرگوں کی خدمت بھی کیا کرے گا؟ اگرچہ حاجی صاحب خود ’’بیچارہ‘‘ ہیں۔ مگر بھینس کے لیے چارہ فراہم کرنے میں ان سے کبھی کو تاہی نہیں ہوئی۔ لیکن پچھلے دنوں خدا جانے اس بھینس کے جی میں کیا آئی کہ رسہ تڑا کے بھاگ کھڑی ہوئی۔ اور جوار کے کھیت سے بخط مستقیم کانجی ہائوس جا پہنچی۔

حاجی صاحب دلی گئے ہوئے تھے۔ آتے ہی یہ واقعہ سنا۔ کلیجہ دھک سے رہ گیا اور منہ سے بے اختیار نکل گیا۔ ’’الٰہی مری بھینس کی خیر ہو۔‘‘ ہوش ٹھکانے ہوئے تو کانجی ہائوس پہنچے اور بھینس سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ کانجی ہائوس والوں نے کہا، صاحب! کانجی ہائوس کے قوانین بورسٹل جیل کے قاعدوں سے زیادہ سخت ہیں۔ بھینس سے ملنا ہے تو درخواست دیجیے ہم اسے مسٹر میکناب (افسر اعلیٰ مونسپلٹی) کے پاس بھیج دیں گے۔ وہ چاہے اجازت دیں چاہے نہ دیں۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ مجبور ہو کر درخواست لکھی اور مسٹر میکناب کے پاس بھیج دی۔ تیرہ دن گزرگئے مگر کوئی جواب نہ آیا۔

وکیل سے مشورہ کیا تو اس نے کہا معلوم نہیں آپ کو بھینس سے ملاقات کی اجازت ملے یا نہ ملے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اجازت حاصل کرنے میں پورا سال صرف ہوجائے۔ اب جرمانہ ادا کرکے بھینس کو چھڑا کیوں نہیں لاتے؟ حاجی صاحب کو یہ بات پسند آئی۔ چناں چہ جرمانہ ادا کرنے کے لیے نہ تو کوئی چندے کی اپیل شائع کی، نہ لوگوں سے کہا کہ آپ کی غیرت کے امتحان کا وقت آگیا ہے اور نہ یہ فرمایا کہ پنجاب کی اتحادی وزارت نے مجھ سے انتقام لینے کے لیے میری عزیز از جان بھینس کو کانجی ہائوس بھجوادیا ہے بلکہ جرمانہ کی رقم جو غالباً پندرہ روپے ساڑھے سات آنے تھی، اپنی جیب سے ادا کرکے بھینس کو چھڑوا لائے۔

سنا ہے کہ بھینس کا جلوس بڑی دھوم دھام سے نکلا۔ اس کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے گئے۔ اور مصری شاہ کے گلی کوچوں میں ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کانجی ہائوس ہائے ہائے اور ’’میری بھینس کو ڈنڈا کیوں مارا‘‘ کے نعروں کے ساتھ اسے پھرایا گیا۔ بھینس شاعر نہیں بن سکتی۔ شعر فہم نہیں بن سکتی تو کیا، لیڈر تو بن سکتی ہے۔

آپ کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ حاجی لق لق کے خاندان میں اس بھینس کے سوا کبھی کسی نے قانون شکنی نہیں کی۔ بھینس کو شاعری سے اس لیے بھی کوئی تعلق نہیں کہ عقل اور شاعری میں ہمیشہ سے جنگ رہی ہے اور بھینس کا مقابلہ ہمیشہ عقل سے کیا جاتا ہے۔ چناں چہ آج تک بڑے بڑے عالم یہ فیصلہ کرسکے کہ عقل بڑی ہے یا بھینس۔ بھینس کا طول وعرض حتیٰ کہ اس کا وزن تک لوگوں کو معلوم ہے لیکن عقل کے حدود و اربعہ کے متعلق ہی علما میں اختلاف نہیں بلکہ اس کے وزن کا مسئلہ بھی مشتبہ ہے۔ اب تک صرف اتنا معلوم ہوسکا ہے کہ عقل اور علم کے وزن میں ایک اور دس کی نسبت ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ ’’یک من علم را دہ من عقل باید‘‘۔

علم کا وزن متعین ہوجائے تو عقل کے وزن کا مسئلہ بھی طے ہوسکتا ہے۔ اور عقل کا وزن معلوم ہوجائے تو اس متنازعہ فیہ مسئلہ کا فیصلہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ عقل بھینس سے بڑی ہے یا بھینس عقل سے۔ بہر حال اس مسئلہ کا فیصلہ ہو یا نہ ہو۔ اتنا ظاہر ہے کہ بھینس کو شاعری سے کوئی تعلق نہیں۔ غالب مرحوم کے متعلق مشہور ہے کہ وہ بھینسوں کی نفسیات کو اچھی طرح سمجھتے تھے لیکن اس شہرت کی بنیاد ان یا ان کے کسی دوست کے شعر پر ہے۔ پہلے تو روغن گل بھینس کے انڈے سے نکال پھر دوا جتنی ہے کل بھینس کے انڈے سے نکال اور صرف ایک شعر کی بنا پر غالب کو سرشہاب الدین اور حاجی لق لق کی صف میں کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).