کاغان کی سیر کا کلائمکس


میں جھیل سیف الملوک کے سحر میں اس وقت سے مبتلا تھا جب برسوں پہلے، غالباً پانچویں جماعت کے آگے پیچھے، اردو کی درسی کتاب میں’کاغان کی سیر‘ نامی مضمون پڑھا تھا۔ میرے لئے جھیل اور اس سے وابستہ کہانی دیو مالائی حیثیت رکھتی تھی۔ اس سب کے باوجود مجھے جھیل دیکھنے کا موقعہ نہ مل سکا۔ کالج کے زمانے کا دوست، سلمان، برطانیہ سے چھٹیاں گزارنے آیا تو شہرکی ہنگامہ خیززندگی سے دور کسی پرُ فضا مقام پرجانے کی خواہش کا اظہار کرنے لگا۔ میری تجویز پر قرعۂ فال کاغان کے نام نکلا اور یوں میں، سلمان اورایک اور دوست، جواد، اسلام آباد سےخیبر پختونخواہ کوعازمِ سفر ہوئے۔ مانسہرہ رات قیام کے بعد ہم اگلی صبح کاغان اور ناران کے راستے جھیل کو ہو لئے۔ بہی خواہوں کی تجویزپر اپنی گاڑی ناران میں کھڑی کی اور کرائے کی جیپ پر جھیل کا رخ کیا کہ سنا تھا وہ جیپیں خاص طور پر ان راستوں کے لئے تیار کی گئی تھیں اور یہ کہ ان کے ڈرائیور بھی ان راستوں کے ماہر ہوتے ہیں۔ اور یوں اس سفر کا آغاز ہوا جس کا انتظار مسافر کم از کم تین دہائیوں سے کر رہا تھا۔ مگر یہ کیا کہ چند میل کے جس سفر نے خواب کو حقیقت کا رنگ دینا تھا اسنے اسے ایک ڈراؤنے خواب میں بدل دیا!

اس قدر خراب راستہ اور نتیجۃً تکلیف دہ سفر کم از کم ہم تینوں نے زندگی میں نہ کیا تھا۔ جھیل تک کا تقریباً چھ میل کا یہ سفر ایک گھنٹے میں طے ہوا۔ جھیل پہنچے تو سلمان کا سر چکرا رہا تھا جبکہ جواد جسم کا جوڑجوڑ ہل جانے کی شکایت کر رہا تھا۔ میرا حال بھی کچھ مختلف نہ تھا۔ سارا موڈ غارت ہو چکا تھا، جھیل نے کیا خاک اچھا لگنا تھا، خاص طور پر جب جھیل اور اس پر سایہ فگن ملکۂ پربت کے قدرتی حسن کو انسانی در اندازی نے گہنا کر رکھ دیا تھا۔ کچی پارکنگ میں آڑھی ترچھی کھڑی درجنوں جیپیں، غیر معیاری اور مہنگی اشیا ٔ خوردونوش بیچتے بے ہنگم اور بد نما کچے پکے کھوکھے، مساجد کی تعمیر کے لیے چندہ مانگتے صاحبان، خدا پاک کی قسمیں کھا کر چھتے سمیت ’خالص‘ شہد بیچتے، چلتے پھرتے سوداگران، جا بجا بکھرا کوڑا کرکٹ؛ غرض ایک نظارہ کہ جسے دیکھنے کے لئے اک عمر انتظار کیا تھا، اسے آنکھ بھر کر دیکھنا بھی دوبھر لگ رہا تھا۔ فوراً ہی واپسی کا قصد کر لیا۔

جواد کی طبیعت اب اس قدر خراب ہو چکی تھی کہ اس انتہائی نا ہموار راستے پر بار بار ڈرائیور کو جیپ آرام سے چلانے کو کہتا رہا۔ راستے کے گڑھے اور پتھر جو جیپ کو اچھال رہے تھے، ڈرائیور بےچارہ بھی ان کے سامنے بے بس تھا۔ ناران پہنچ کر ایک ریسٹ ہاؤس کھلوا کر، جواد تو بالٹی پکڑ کر نہانے گھس گیا، میں نے اور سلمان نے اپنے گرد آلود چہروں کومحض دھونے میں ہی عافیت جانی کہ مانسہرہ جا کر نہائیں گے۔ سر کے بال مٹی جذب کر کے الگ چڑیوں کا گھونسلہ بنے ہوئے تھے۔ بستروں پر گرے پڑے رہے، کچھ ہوش آیاتو مانسہرہ کی راہ لی۔ سارا راستہ کفِ افسوس ملتے رہے کہ کس قدر بد قسمت ملک ہے، دنیا کے خوبصورت ترین قدرتی وسائل اور پر فضا مقامات سے مالامال ہے کہ جن کی اگر مناسب دیکھ بھال کی جائے، سیاحوں کے لئے بنیادی سہولیات میسر کی جائیں، اور ان کی تشہیر کی جائے تو اس قدر زر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے کہ پورے ملک کی کایہ پلٹی جا سکتی ہے، اسے ترقی یافتہ اور خوش حال بنایا جا سکتا ہے۔ اس معاملے میں تو وسائل کی کمی کا ڈھنڈورا پیٹنا بھی یکسر غلط تھاکہ یہ اپنے وسائل خود پیدا کرتا ہے بلکہ معیشت کے دوسرے شعبوں کو ترقی دینے کے لئے بھی ٹھوس بنیاد فراہم کرتا ہے۔ گویا کمی ہے تو بس درست ترجیحات اور نیک نیتی کی!

سیف الملوک ملک میں سیاحت کا سب سے بڑا استعارہ تھا، اگر اس کا عالم یہ تھا تو باقی مقامات کے احوال کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
بچپن میں دو حصوں میں پڑھا ہواطویل مضمون’کاغان کی سیر‘اپنے کلائمکس کو پہنچ چکا تھا یا شاید نہیں۔

ابھی ہم سیف الملوک کارونا رو ہی رہے تھے کہ سڑک کے کنارے ایک تباہ شدہ کار کا ڈھانچہ نظر آیا جو غالباً کنارے پر کسی جگہ بند نہ ہونے کے سبب، کچھ روز پیشتر حادثے کا شکار ہو کر پہاڑ سے لڑھک گئی تھی، اور اب کرین کی مدد سے اٹھا کر اوپر رکھ دی گئی تھی۔ ہم نے زندگی بھر اس قدر تباہ شدہ گاڑی نہ دیکھی تھی۔ کار کیا تھی وہ تو لوہے، ربڑ اور پلاسٹک کا ایک گچھا بن چکی تھی، بلکہ یوں کہئے کار کا قیمہ بن چکا تھا۔ اور اگر لوہے کا قیمہ بن چکا تھا تو آپ خود سوچ سکتے ہیں، اس میں سوار گوشت پوست کے انسانوں کا کیا حال ہوا ہو گا۔ شاید ہمارے جیسے ہی کچھ لوگ ہوں گے جو بڑے ارمانوں سے سیر کو آئے ہوں گے، اورپھر لفافوں میں ڈلے، کٹے پھٹے کچھ اعضا ٔ کی صورت میں گھر واپس پہنچے ہوں گے۔ ان کی جگہ ہم بھی تو ہو سکتے تھے؛ ہمیں گویا ایک چپ سی لگ گئی۔ ہم نے اپنی گاڑی ایک طرف پارک کر دی۔ کچھ فاصلے پر ایک سنگ میل ایبٹ آباد کا 74 اور مانسہرہ کا 48 کلومیٹر پر ہونے کا پتا دے رھا تھا۔

جانے والے تو چلے گئے، ان کا مقدمہ فیصلہ سازوں کے حضوراب ہم نہیں تو کون لڑے گا؟
آج سے پہلے اگر یہ مقدمہ کسی نے لڑا ہوتا، فیصلہ سازوں نے اس پر توجہ دی ہوتی تو شاید یہ گھر، اور نہ جانے کتنے اور گھرانے، نہ اجڑتے۔

سلمان ہر معاملے میں مذہب کو لے آتا ہے، حضورؐ کا فرمان یاد دلانے لگا کہ تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کی بابت سوال کیا جائے گا۔ کہنے لگا اربابِ اختیار ادراک نہیں رکھتے کہ حکمرانی کے کیا تقاضے ہیں اور کس قدر سخت جوابدہی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ کا حوالہ دینے لگا کہ جن پر بار خلافت آن پڑا تو آہ و بکا کرتے نظر آئے کہ کاش وہ ایک بکری ہوتے کہ جس کا کوئی حساب کتاب نہ ہو گا۔ عمرؓ دھائی دیتے پھرتے تھے کہ اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو ذمہ دار وہ ہوں گے۔

ہم جیسے دنیادار دنیاوی حوالے دینے لگے، سوال اٹھانے لگے کہ اگر اپنےعمل سے کسی کی جان لینا قتل ہے تو ہماری بے عملی کے نتیجہ میں کسی کی جان چلی جائےتو کیا وہ بھی قتل شمار نہیں ہوگا؟

کیا ایسے تمام معاملے قتل بِالسبب کی تعریف میں نہیں آتے؟
کون ہے جسے ان معاملوں میں قاتل ٹھہرایا جا سکے؟
’میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں‘۔
درست کہ حادثوں کے تمام امکانات کا تدارک نہیں کیا جا سکتا لیکن کیا ممکن حد تک ان کے سدباب کی کوشش نظر آتی ہے؟
حکومتیں ہر سال اربوں کھربوں کے منصوبے لاتی ہیں، کیا محض چند کروڑ خرچ کر کے، ایسی سڑکوں کو محفوظ نہیں بنایا جا سکتا؟
اور وہ بھی ایسا خرچ جو الٹا حکومت کی آمدنی میں بڑھوتی کا سبب بنے!

کیا کوئی ایسی مہم چل سکتی ہے کہ ہر شہر کی سطح پرمتعلقہ سرکاری محکموں اورمقامی حکومتوں کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹیاں بنائی جائیں جو ان وجوہات کا جائزہ لیں جو ان کے ہاں جان لیوا حادثات کا سبب بنتی ہیں اور ان کے سد باب کے لئے عملی اقدامات کریں؟

اس حوالہ سےدو تین ماہ کی ایک ڈیڈلائن دی جانی چاہیے جس کے ختم ہونے کے بعد ہونے والے ہر حادثے کی صوبائی سطح پرایک کمیٹی کو جانچ پڑتال کرنی چاہیےکہ کہیں حادثہ کسی متعلقہ ادارے یا اہلکار کی کوتاہی کے سبب تو پیش نہیں آیا۔ ذمہ دار کوقرار واقعی سزا ملنی چاہیے اور سبب کا سدباب۔

لگے ہاتھوں سیف الملوک اور اس جیسے دوسرے مقامات کی شنوائی بھی کر ڈالئے۔ ان کے اطراف میں ایک مناسب فاصلے تک تعمیرات پر پابندی لگا دیں اور اس حوالے سے پہلے سے موجود تعمیرات اور تجاوزات کو ہٹا دیں۔ البتہ متعلقہ ادارے خود پارکنگ، ہوٹل، ریستوران، بیت الخلا ٔ اور دیگر سہولیات تعمیر کریں اور ایسا کرتے ہوئے اس بات کا خصوصی اہتمام کریں کہ ایسی تعمیرات اپنے ماحول سے نہ صرف ہم آہنگ ہوں بلکہ اس کی خوبصورتی میں بڑھوتی کا سبب بنیں۔ مقامی طلبہ اور دیگر افراد پر مشتمل رضاکار فورس تشکیل دے کر اسے مناسب وسائل اور ٹریننگ دی جائے تاکہ نہ صرف وہ ان مقامات کی دیکھ بھال کر سکیں بلکہ آنے والے سیاحوں کی تربیت اور رہنمائی کریں، اور نظم و ضبط اور صفائی کے معاملات کا خیال بھی رکھ سکیں۔

جس قدر دیر ہوتی چلی جا رہی ہے اسی قدر یہ سب اقدامات مشکل بلکہ ناممکن۔
اب بھی موقعہ ہے؛ کوئی ہے جو سن رہا ہو؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).