عظیم الجثہ انسانی ڈھانچوں کی دریافت اور ڈارون کی شرمندگی


تل ابیب سے عین مغرب کی جانب دو سو کلومیٹر کا سفر کریں تو النقیب کا بے آب و گیاہ صحرا آتا ہے جس کے بیچ سے دریائے اردن کی ایک ایسی شاخ گزرتی ہے جو عام دنوں میں تو پانی کی ایک پتلی سی دھار ہوتی ہے مگر مون سون کے موسم میں اس کا پاٹ کئی کلومیٹر چوڑا ہو جاتا ہے۔ صحرائے النقیب کے اندر ہی بحیرہ مردار نامی ایک بہت بڑی جھیل واقع ہے۔ اس جھیل کا نام بحیرہ مردار کیوں پڑا؟ تاریخ دان آج تک یہ سمجھتے رہے تھے کہ اس جھیل میں کوئی آبی حیات نہیں ہے اس لئے اس کا نام پرانے وقتوں سے بحیرہ مردار چلا آ رہا ہے۔ مگر اب اس کے قریب ہی ایک وادی کی کھدائی کے دوران ایک ایسی دریافت ہوئی ہے جس نے نہ صرف ان تاریخ دانوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے، مگر ساتھ ساتھ ڈارون کے نظریہ ارتقا کو سچ سمجھنے والے بھی شدید پریشانی کا شکار ہو چکے ہیں۔

اسرائیلی حکومت نے سنہ 2003 میں یہ فیصلہ کیا کہ صحرائے النقیب میں ایک بڑا ڈیم بنایا جائے جو کہ دریائے اردن کے مون سون کے موسم کے برساتی پانی کو ذخیرہ کر کے باقی سارا سال زراعت کے لئے کام میں لایا جائے گا اور یوں صحرائے النقیب کو ایک ویرانے سے قابل کاشت زمین میں تبدیل کر دیا جائے گا اور ادھر یہودیوں کی آبادکاری کی جائے گی۔ منصوبے پر نہایت تیزی سے کام شروع کر دیا گیا۔ پانی ذخیرہ کرنے کی خاطر صحرائے النقیب کے اندر وادی المردار کا نشیبی علاقہ منتخب کیا گیا۔ اس وادی کو مزید گہرا کرنے کے لئے جون 2004 میں ادھر اسرائیلی انجینیئروں کی نگرانی میں مفلوک الحال عرب مزدوروں کو لا کر کام شروع کر دیا گیا۔ بھاری مشینیں سے کھدائی شروع کر دی گئی۔ لیکن محض چند فٹ کی کھدائی کرنے کے بعد ایک ایسی دریافت ہوئی جس کے بعد ادھر کام کرنے والے عرب مزدوروں نے خوفزدہ ہو کر کام چھوڑ دیا اور ادھر سے فرار ہو گئے۔

اسرائیلی انجینئیر بھی دم بخود رہ گئے۔ وادی المردار سے کئی کئی سو فٹ لمبے انسانی ڈھانچے دریافت ہوئے تھے۔ تل ابیب یونیورسٹی اور سول ہسپتال سے علم الابدان کے ماہرین بلائے گئے۔ اسرائیلی وزیراعظم خود سائٹ پر پہنچے۔ فیصلہ یہ کیا گیا کہ ڈیم کے لئے کوئی دوسری سائٹ تلاش کی جائے اور وادی المردار کو مٹی ڈال کر دوبارہ تاریخ کے صفحات سے مٹا دیا جائے اور ان ڈھانچوں کی دریافت پر مکمل پردہ ڈال دیا جائے۔ لیکن ان کی بدقسمتی کہ کھدائی کے وقت ایک عرب مزدور نے اپنے آئی فون سے ان ڈھانچوں کی تصاویر کھینچ لی تھیں۔ اپنی زندگی میں تو اس نے ان تصاویر سے خوف کھا کر ان کو چھپائے رکھا مگر سنہ 2016 میں اس کے وفات پرانے پر اس کے پوتے کو یہ تصاویر ملیں تو اس نے انہیں انٹرنیٹ پر ڈال دیا۔ عرب مزدوروں کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ انتہائی لمبے قد والے انسانوں کی یہ آبادی کسی خدائی عذاب کا شکار ہو کر یکلخت تباہ ہوئی ہے۔صیہونیوں کے اس دریافت پر پریشان ہونے کی ایک بہت بہت بڑی وجہ تھی۔ نظریہ ارتقا کو پھیلانے میں بنیادی کردار بعد میں اسرائیل کا پہلا صدر بننے والے ایک صیہونی لیڈر ڈاکٹر چائم عزرائیل وائزمین کا تھا جس نے ایک سازش کے ذریعے ڈارون کی اس تھیوری کو معصوم بچوں کے نصاب کا حصہ بنا دیا جسے اچھے وقتوں میں کوئی ذی شعور شخص دیکھنے تک روادار نہیں تھا۔ سائنسدان بھی ایک دوسرے کی تقلید میں نظریہ ارتقا کو سچ سمجھنے لگے حالانکہ ان کو نظریہ ارتقا کے حق میں وہ ڈھانچے ابھی تک نہیں ملے جنہیں وہ نظریہ ارتقا کا ”مسنگ لنک“ یعنی گمشدہ کڑی کہتے ہیں۔ اس سازش سے صیہونیوں کا مقصد یہ تھا کہ دوسرے مذاہب کے لوگ اپنے اپنے عقیدے کو چھوڑ دیں اور سائنس کو ماننے لگیں جبکہ یہودی خود اپنے عقیدے پر سختی سے کاربند رہیں گے اور باقی تمام اقوام کو ہزیمت سے دوچار کرتے رہیں گے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ ڈھانچے ملے بھی تو اسرائیل میں جس کے صیہونی سیاستدان ایک سازش کے تحت نظریہ ارتقا کو ہر طرف پھیلا رہے ہیں۔ اب صیہونی ان تصاویر کے انٹرنیٹ پر عام ہو جانے کے بعد ان کو جھٹلانے کی خاطر یہ مشہور کر رہے ہیں کہ یہ فوٹوشاپ میں بنائی گئی تصاویر ہیں۔

لیکن صیہونیوں کی بدقسمتی کہ ان عظیم الجثہ انسانی ڈھانچوں کی دریافت نے نظریہ ارتقا کی جڑیں ہلا دیں۔ ان عظیم الجثہ انسانوں کے ڈھانچے نظریہ ارتقا میں کسی جگہ بھی فٹ نہیں بیٹھتے ہیں۔ کہاں تو یہ کہا جا رہا تھا کہ زندگی کی ابتدا یک خلیاتی جرثوموں سے ہوئی تھیں اور انسان بھی اسی لڑی کی ایک کڑی ہے، اور کہاں ایسے دیوہیکل انسانی ڈھانچے دریافت ہو گئے جن کی توجیہہ کرنے سے انسانی عقل قاصر ہے۔ نظریہ ارتقا کے حامیوں نے تو انسان، جس کا سائنسی نام ہومو سیپین ہے، کے درجنوں قریبی رشتے دار بھی بنا دیے تھے کہ ہومو نیانڈرتھال، ہومو اریکٹس، ہوموہابیلیس وغیرہ بھی کسی زمانے میں وجود رکھتے تھے اور یہ سب اسی ارتقائی شاخ سے تعلق رکھتے ہیں جس سے گوریلے، بندر، بن مانس اور بیبون کا تعلق ہے لیکن اس دریافت کے بعد وہ شدید پریشانی کا شکار ہو چکے ہیں۔ پرانی غیر سائنسی تاریخوں میں لکھا آ رہا ہے کہ زمانہ قدیم میں ایسے انسان وجود رکھتے تھے جو کئی کئی سو فٹ لمبے ہوا کرتے تھے لیکن سائنس کو ماننے والے ان کو جھٹلاتے تھے۔
خیر صیہونیوں کو حیرت ہوئی ہو تو ہوئی ہو، ہمیں حیرت نہیں ہوئی۔ خود ہمارے اپنے برصغیر میں ایسی سو سو فٹ لمبے انسانوں کی کئی قبریں موجود ہیں جو عرصہ قدیم سے مرجع خلائق ہیں۔ (ختم شد)


اسی بارے میں

ڈارون کی ارتقا کی تھیوری غلط ہے

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar