بچوں کی نفسیات پر سماج کی منافقت کے اثرات


نفسیات کے مطابق نقش پذیری (Imprinting) ایک ایسا عمل ہے کہ بچے کے پیدا ہونے کے بعد چند گھنٹوں تک اہم ترین وقت میں جو کچھ دیکھتا ہے اس کے ذہن پہ نقش ہو جاتا ہے۔ یہ عمل عموماً جانوروں اور پرندوں میں زیادہ سرعت سے انجام پذیر ہوتا ہے۔ لیکن انسانوں میں کچھ مختلف انداز میں رونما ہوتا ہے۔ نقش پذیری کی ساری زندگی بہت اہمیت رہتی ہے۔ اگر ہم وسیع تناظر میں جائزہ لیں تو نقش پذیری کا یہی دورانیہ انسان کو ایدھی یا اسامہ بن لادن بناتا ہے۔

انسان کے Imprints کا دورانیہ طویل ہے وہ ایک عرصے تک اپنے ماحول سے نقوش حاصل کرتا رہتا ہے۔ انسان کی سوچ یا سائیکی پر جینیات سے زیادہ ماحول اور معاشرے کا اثر ہوتا ہے بچپن میں بچے کی سوچ کو جس سانچے میں ڈھال دیا جاتا ہے وہ کہیں نہ کہیں اس کے ذہن کے لاشعورری حصے میں Feed ہو جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ان ’’خالی کاغذوں‘‘ پر کیا لکھ رہے ہیں؟ ہم صرف جھنڈے پر چاند لگانے والی قوم بن کے رہ گئے ہیں نہ کہ چاند پہ جھنڈے گاڑنے والی قوم۔

شاید ہمیں شروع سے ہی چاند اور زمین کا فاصلہ دگنا کر کے بتایا جاتا ہے۔ ہمیں اُلٹے ہاتھ سے کھانے پر تو جھڑکا جاتا ہے مگر معاشرت میں حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے، کوئی نہیں بتاتا۔
ہمیں مذہب اور معاشرے کے رہن سہن کے حوالے سے اتنا بے لچک کر دیا جاتا ہے کہ ہمیں اپنے سوا سب غلط نظر آتا ہے۔ ہم شروع دن سے اپنے معیارات بنا لیتے ہیں اور پوری زندگی انھی کے مطابق لوگوں کی پیمائش کرتے ہیں نفسیات میں اسے Baby Duck Syndrome کہتے ہیں۔ یعنی جس طرح بطخ کے بچے اپنی ماں کے پیچھے پیچھے چلنے کے عادی ہوتے ہیں اسی طرح ہمارا معاشرہ بھی یہ تقلید کی عادت ہر بچے کی فطرت بنا دیتا ہے۔ اسے بھیڑ چال بھی کہتے ہیں۔ بھیڑیں بھی سر پھینک کے ایک دوسرے کے پیچھے چلتی رہتی ہیں۔ اپنا راستہ تراشنا اُن کے بس کا روگ نہیں ہوتا۔

معاشروں میں یہ بھیڑ چال، سوال کرنے پہ پابندی کی صورت میں جنم لیتی ہے۔ سوال کرنا اپنے ذہن کا ا ستعمال ہے۔ اپنے ماحول میں اپنی شناخت متعین کرنے کا نام ہے۔ جب سوال نہیں کرنے دیا جاتا تو ذہنوں میں تقلید اور بھیڑ چال کا تصور پیدا ہوجاتا ہے۔ ایک دوسرے کے پیچھے پیچھے چلنے میں عافیت محسوس ہوتی ہے۔ آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ بچپن میں ہی بچوں کو ڈرانے یا خوش کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ بڑے ہو کے بچے اس جھوٹ کو جان لیتے ہیں تو ان کا معاشرتی بھرم ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ معاشرے میں خود ایک فریبی یا دھوکہ دینے والے کردار بنتے ہیں۔ سیاست دان اُنھیں بتاتے ہیں کہ اُن کا کام ملک کی خدمت و تعمیر ترقی ہے۔ خفیہ قوتیں بتاتی ہیں کہ وہ اصل محافظ ہیں۔ میڈیا بتاتا ہے کہ سچ ہم بتا رہے ہیں۔ استاد بتاتا ہے کہ علم وہی ہے جو وہ بتا رہا ہے۔ والدین بتاتے ہیں کہ اصل اخلاق اور دین و دنیا وہی ہے جو وہ سکھا رہے ہیں۔ ریاست کے قوانین کچھ اور بتاتے ہیں اور لوگ اُن پر کسی اور طرح عمل پیرا ملتے ہیں۔ دین دارلوگ مذہب کی روحانیت کا درس دیتے ہیں مگر وہ خود سب سے بڑے مادہ پرست ثابت ہوتے ہیں۔ عدالتیں انصاف کا پرچار کرتی ہیں مگر انصاف کا خون بھی انھی کے ہاتھوں ہوتا نظر آتا ہے۔ بچے سب کچھ دیکھتے ہیں اور پھر سب کچھ شعور کی پختگی کے ساتھ بکھرنے لگتا ہے۔ ان کے اندر تضادات جھلکنے لگتے ہیں۔

مغربی قوموں میں اب بہت تبدیلی آ گئی ہے۔ وہ اپنے بچوں کو وہی بتاتے اور سکھاتے ہیں جن کی معاشرے کو ضرورت ہے۔ بچہ بڑا ہو کے اُن کے اندر تضادات تلاش نہیں کرتا۔ جاپانیوں نے اپنی قوم کو جنگ کرنا اور بدلہ لینا نہیں سکھایا بلکہ انھیں جدید ٹیکنالوجی سکھائی جس نے اُن کی قوم کو دنیا کی طاقت ور قوموں میں لا کھڑا کیا۔
ہم اپنے دوہرے معیاروں کے ساتھ اپنے بچوں کو دوہری شخصیت کا حامل بنا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کب ہمارے اعمال اور سوچیں ایک طرح کی ہوں گی؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).