جادو جملے مشترکہ ہوتے ہیں


خیبر میں ذرا سا پہاڑوں کی طرف نکلتے تو کیکر ملک دکھائی دے جاتے۔ کیکر کا چھوٹو سا چار فٹ کا درخت اس کا ڈیڑھ فٹ کا سایہ۔ اس سائے پر قبضہ کیے بیٹھا ہوتا اک سالم ملک جو آفریدی بھی ہو سکتا شنواری بھی۔ اس کی چادر اس کے پاس پڑی ہوتی یا وہ اس کے اوپر بیٹھا ہوتا۔ ٹوپی یا اس کے ہاتھ میں ہوتی یا سر پر۔ ملک سر کھجانے میں مصروف ہوتا۔ یہ ملک پاس پڑے کنکر اٹھا کر نزدیک ہی کسی جگہ کو مسلسل مار کر اپنا نشانہ پکا کرتا بھی دکھائی دے جاتا ہے۔ ایسا کرتے دراصل وہ اپنے مسئلے کا حل سوچ رہا ہوتا ہے۔

ہر قبائلی ملک نہیں ہوتا یہ بات ٹھیک ہے۔ پھر بھی سب کو ملک سمجھنے میں ہی فائدہ ہے۔ نہیں یقین تو کسی کو چھیڑ کر دیکھ لیں۔ ہم لوگ طورخم جا رہے تھے جب ہم نے ملک کو کیکر کے سائے میں دونوں ٹانگوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے بیٹھے دیکھا۔ اس کے پاس گاڑی روکی۔ مشر نے اس سے گاڑی میں بیٹھے ہی پوچھا بچیا وے شڑلے۔ نہیں کرتا ترجمہ پشتو سیکھیں۔ مشر نے ملک کوگاڑی میں بٹھا لیا۔ اس سے پوچھا کہ ہاں بتا اپنی بیگم نے بزتی کر کے گھر سے نکالا ہے یا بھائی کی۔ ملک نے بتا دیا۔ ہمیں حیرت ہوئی کہ مشر اتنا ہوشیار کیسے ہے۔

اس کے بعد کیا ہوا یہ کہانی یہیں چھوڑتے ہیں۔ کہانی میں مشر تھا، ہم تھے۔ ہم نے اپنے ہیرو ملک کی جتنی ممکن تھی اتنی خاطر مزید کرا کے اس کا مسئلہ حل کرا ہی لیا تھا۔ سوال بس یہ تھا اور آج بھی ہے کہ مشر کو کیسے پتہ لگا کہ ملک کو گھر سے نکالا ہے۔ مشر سے پوچھا تو اس نے کہا زہ مڑا خپل کار کوا جاؤ اپنا کام کرو میں نے کوئی سکول کھولا ہوا ہے کہ سمجھاؤں۔ پھر اس نے کہا کہ جب میری بزتی ہوتی تھی تو میں بھی اسی طرح کیکر کے چھوٹو درخت کے ڈیڑھ فٹ سائے میں بیٹھ کر ہی غور فکر کرتا تھا۔ اس ملک نے ایک تو اپنی ٹانگیں پکڑ رکھی تھیں جس سے لگ رہا تھا کہ خود کو روک رہا ہے کہیں جا کر گولی چلانے سے۔ دوسرا اس کمبخت کو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ جہاں بیٹھا ہے سایہ اب وہاں کی بجائے دوسری طرف چلا گیا ہے۔

حیران نہ ہوں بندہ قبائلی بھی ہو تو گھر سے اتنا ہی دکھی ہو سکتا ہے اور اتنی ہی عزت کرا سکتا ہے جتنی عام پاکستانی کراتا ہے۔ ملک حضرات کی آدھی زندگی تو درزی اور گھر والی کے درمیان مذاکرات کامیاب کرنے میں ہی خجل ہو جاتی ہے کہ جوڑا ٹھیک طرح سے سل جائے کسی طرح، خیر۔ کہنا یہ ہے کہ ہم پاکستانی ہیں۔ دوسروں کے ہر کام میں ہمارا کام ہے۔ آقا سراج الحق کے ایک ہونہار قریبی ساتھی نے کل ہی سمجھایا ہے۔ دنیا کچھ بھی کہے جہاں مامتا وہاں ڈالڈا۔ جدھر مسلمان ہوں گے، ان کے مسئلے ہوں گے، وہاں ہم ہوں گے۔

دو اچھی خاتون لکھاریوں نے ان سوالوں اور ان جملوں کا ذکر کیا ہے جو نامناسب سمجھے جاتے ہیں جو بولے یا پوچھے جائیں تو کسی کے ذاتی معاملات میں مداخلت سمجھی جاتی ہے۔ بات ٹھیک ہے پرائیویسی اہم ہے ہمیں اپنی حد میں رہنا چاہیے۔ پر ایسے بہت سارے جملے ہیں جو ساری صورتحال سمجھا دیتے ہیں۔ بلکہ لوگ تو ہمارے مشر کی طرح ایک مختصر نظارے سے بھی پوری صورتحال سمجھ جاتے ہیں۔ گالی کو ہم نے ہمیشہ ایک برے لفظ کے طور پر ہی جانا ہے۔ اس کے اچھے استعمال پر کبھی کوئی غور نہیں کرتا۔ میں آپ کو اپنی استاد کا وہ جملہ نہیں دہرا رہا کہ گالی بھی امانت ہوتی ہے، حقدار کو پہنچا کر آنی چاہیے۔ دیکھا آپ اب یہی سوچ رہے کہ اس کی تربیت ہی میں فرق ہے۔

ہمارا ایک صحافی دوست بیمار تھا۔ اک بہت مصروف ڈاکٹر کو دکھایا اور ٹیسٹ کرائے۔ سینکڑوں مریض بیٹھے تھے ہم ڈاکٹر صاحب سے پوچھنے گئے کہ اب کیا کرنا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اک لمبی تقریر کے لیے منہ کھولا ان کے اسسٹنٹ نے بتایا کہ تمھارا مریض وڑا ہوا ہے۔ ہم بھی سمجھ گئے معزز ڈاکٹر نے بھی وقت بچا لینے پر اپنے اسسٹنٹ کو شکرگزار نظروں سے دیکھا۔

دوست اہم ہیں ہم سب کے لیے۔ ہم دوستوں سے اپنے تعلقات کی حفاظت کرتے ہیں۔ انہیں نبھاتے ہیں۔ ان کے لیے اچھے کام ہی نہیں برے کام بھی کر گزرتے ہیں۔ یار ایک بدنام ہو چکا ہوا لفظ ہے لیکن دوستی کے اصل معنوں کی اصل تشریح اب بھی یہی کرتا ہے۔ عزت ہمارے لیے کتنی اہم ہوتی ہے۔ بہت لوگ پیسے پر عزت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس عزت کی حقیقت اتنی ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنے یاروں سے بزتی کراتا ہے۔ اچھی باتوں پر بھی بری باتوں پر بھی اور ویسے بھی۔ وہی سردار صاحب والا حال ہے جنہوں نے کہا تھا کہ سردار خوشی میں بھی پیتے ہیں غم میں بھی پیتے ہیں اور ویسے بھی پیتے ہیں۔

کبھی سوچیں کہ ہم نئے دوست کیسے بناتے ہیں۔ حاشر نے بتایا کہ اس کے استاد اپنے شاگردوں سے کہا کرتے تھے کہ ”عزیز از جان گدھو“ تو یہ سن کر جان لیا کہ بندہ بھی اپنے جیسا، استاد بھی سر میسی جیسا، تو بن جائے گی اور خوب نبھے گی۔ ہم نئے دوستوں میں بھی پرانے دوستوں کی ہی باتیں تو ڈھونڈتے ہیں۔ جیسے چکر کھاتے تھے اور جیسے چکر دیتے تھے۔ وہ چکر کوئی کھائے وہ چکر کوئی دے تو پھر وہ اپنا یار ہی لگتا ہے۔ کوئی عامر خاکوانی سے پوچھے جنہیں ابھی تین سو کلومیٹر کا ایک چکری دورہ کرا دیا ہے۔

یہ جو شادی کے بعد ہماری پیار کہانیاں شروع ہو جاتی ہیں، ان کا کیا رولا ہوتا؟ بس اتنا ہی کہ من چاہی صورت دیکھ کر، ویسی صورتحال دیکھ کر، ویسا ہی کچھ بول کر، وہی جملے سن کر جو کبھی کسی اور نے ہمیں بولے ہوتے ہیں، ہم ذرا ہوا خوری کر آتے ہیں دو قدم سیدھی لائن سے دور جا کر۔ بس یہ کچھ جملے ہوتے ہیں جادو کے انہیں پرسنل مت لیا کریں۔ جادو جملے پرسنل نہیں ہوتے سب کے مشترکہ ہوتے ہیں۔

 

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi