سیاست دان اور جہالت کا شعلہ


غصہ حضرت جوش ملیح آبادی کی ناک پر رکھا رہتا تھا۔ پنڈت جواہر لال نہرو سے ملاقات ہوئی تو تڑاق سے سوال کیا کہ پنڈت جی، آپ کمبھ کے میلے میں کیوں گئے؟ پنڈت جی مزاج شناس تھے۔ جوش ملیح آبادی کا تہذیبی پس منظر جانتے تھے، ان کے خیالات سے پوری طرح آگاہ تھے۔ کسی قدر عذرخواہی کے انداز میں کہا، جوش صاحب، میں وہاں عبادت کرنے نہیں گیا تھا، میں تو پبلک مائنڈ (عوامی ذہن)  کا مطالعہ کر رہا تھا۔ ایسی ہوائی باتوں کو جوش صاحب کہاں مانتے تھے۔ کہنے لگے، پبلک مائنڈ کا مطالعہ کرنا آپ کے لئے کیا مشکل ہے۔ ہر روز ہزاروں افراد سے ملاقات رہتی ہے۔ یہ کیوں نہیں کہتے کہ وہم کے شعلے کو ہوا دینے گیا تھا۔

جوش صاحب نے ٹھیک کہا۔ سیاسی رہنما کے ایک اشارے بلکہ چشم و ابرو کی جنبش سے تارخ کا رنگ طے پاتا ہے۔ ہمارے قدیم گیان میں آیا ہے کہ حاکم اگر چھین کر ایک انار کھائے گا تو اس کے ماتحت پورا باغ اجاڑ دیں گے۔ پنڈت جواہر لال بڑے دور اندیش رہنما تھے۔ ہندوستان کی پارلیمنٹ میں قومی زبانوں کا مسئلہ زیر بحث تھا۔ درجن بھر زبانوں کو ہندوستان کی قومی زبان کا درجہ دینا قرار پایا تھا۔ ان زبانوں میں اردو بھی شامل تھی۔ پنڈت پنت جہاں دیدہ سیاست دان تھے لیکن جمہوریت کی نزاکتوں کی بجائے دریا کے بہاؤ پر آنکھ رکھتے تھے۔ بغیر سوچے سمجھے اعتراض جڑ دیا کہ قومی زبانوں میں اردو کا نام کیسے آیا؟ اردو کس کی زبان ہے؟ پس منظر یہ تھا کہ متحدہ ہندوستان میں آدھی صدی تک اردو ہندی کا جھگڑا چلا تھا۔ دونوں زبانوں کو ابلاغ، اظہار، تہذیب اور اجتماعی ورثے کی بجائے لین دین کی میزان پر رکھ کر تولنے اور بیچنے والوں کی کمی نہیں تھی۔ اردو زبان مسلمنوں کے کھاتے میں لکھی گئی۔ ہندی زبان پر ہندوؤں نے دعویٰ داغ دیا۔ تاریخ میں اکثر ایسا ہوا ہے کہ زبان کو مذہبی شناخت دی گئی تاکہ تفرقے کی لکیر کھینچی جا سکے۔ نفرت کی دیوار اٹھائی جا سکے۔ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ بنگال میں کیا مسلمان نہیں بستے تھے۔ کیا بنگالی زبان میں اسلام کی حقانیت کا اقرار نہیں کیا جا سکتا۔ آج ہندوستان کی فلمیں دور دور تک دیکھی جاتی ہیں۔ پوچھنا چاہیے کہ ممبئی کی فلم جس زبان میں بنتی ہے اگر وہ ہندی ہے تو عامر خان، سلمان خان اور شاہ رخ خان ان فلموں میں کون سی زبان بولتے ہیں؟ امیر خسرو کے دوہے اردو میں لکھے گئے یا ہندی میں؟ لمبی بحث ہے۔ یہ بحث پنڈت نہرو کے ناخنوں میں  بھری تھی۔ بھرا کھا کر اٹھے اور فرمایا، اردو میری ماں بولتی ہے۔ اردو میری زبان ہے۔ ایک جملے میں جھگڑا چکا دیا۔ پنڈت جی نے ہندوستان میں رہ جانے والے کروڑوں مسلمانوں کی شہریت پر تصدیق کی مہر لگا دی۔

ہمارے ملک میں بھی اس زمانے میں اردو بنگالی کی کشمکش چل رہی تھی۔ فضل الہٰی چوہدری ہندوستان گئے تو مولانا ابوالکلام آزاد سے ملاقات ہوئی۔ مولانا کا علم جس قدر وسیع تھا، ظرف بھی اسی نسبت سے بڑا تھا۔ ہمیشہ مثبت سوچتے اور بولتے تھے۔ چوہدری فضل الہٰی سے کہا کہ پاکستان کے لوگوں کو بتائیے کہ مشرقی پاکستان کے رہنے والوں کی بنگالی زبان کے بارے میں حساسیت کو سمجھیں۔ یہ بہت نازک معاملہ ہے۔ میں نے کلکتہ میں بہت وقت گزارا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ بنگال میں زبان کی سیاسی اہمیت کیا ہے۔ چوہدری فضل الہیٰ اس ضمن کیا کر سکتے تھے۔ ہمارے ملک میں تو ذوالفقار بخاری کا سکہ چل رہا تھا۔ بخاری صاحب کی “سرگزشت” پڑھ کر دیکھ لیجئے۔ ذرا سا غور کرنے پر نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اردو کے نام پر تعصب کی پرداخت کرتے تھے۔ اردو سے محبت کا ہرگز یہ مطلب  نہیں کہ ہندی بولنے والوں سے عناد رکھا جائے یا بنگالی بولنے والوں کو تحقیر کی نظر سے دیکھا جائے۔

تعصب جہالت ہی کی ایک شکل ہے۔ مدبر انسان رواداری کی بات کرتے ہیں۔ کم ظرف لوگ جہالت کے شعلے کو ہوا دیتے ہیں۔ اندرا گاندھی پنڈت نہرو کی صاحبزادی تھیں۔ نجومیوں اور شگون وغیرہ پر گہرا اعتبار تھا۔ بظاہر ان باتوں میں  کوئی مضائقہ نہیں لیکن مذہب کا بیوپار کرنے والا ایک شخص وزیر اعظم کے گھر تک رسائی رکھے گا تو اس حیثیت سے ناجائز فائدہ اٹھائے گا۔ اسی زعم میں مندر کی عظمت بیان کرتے ہوئے مسجد کی توہین کرے گا۔ پھر جھگڑا ہو گا۔ ہندوستان میں اندرا گاندھی کی توہم پرستی سیاست کو یہاں تک لے آئی کہ خود اندرا گاندھی کے قتل کے بعد دہلی میں سکھوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ 1984 کا یہ قتل عام جدید ہندوستان کی تاریخ پر ایک دھبہ ہے۔ اس خونی دھبے کے اوپر جلی حروف میں راجیو گاندھی کا نامعقول جملہ لکھا ہے کہ بڑا درخت گرتا ہے تو زمیں کانپتی ہے۔ ہمارے شاعر نے کہا تھا

زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے۔

اہل زمیں پر آفت ٹوٹنے کو تعصب کا جواز بخشنے والے زمیں کی امانت نہیں اٹھا سکتے۔ چند برس بعد ایک دھماکے میں مارے جاتے ہیں۔ دلی کی امانت تو گاندھی جی نے مرن برت رکھ کر اٹھائی تھی۔ دہلی میں قتل و غارت کے دوران پنڈت نہرو فساد زدہ گلیوں میں گھس جاتے تھے۔ ہندو بلوائیوں سے جسمانی طور پر بھڑ جاتے تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے جنوری 1948ء میں کراچی کے ہندوؤں کی حفاظت میں تاریخی کردار ادا کیا تھا۔ قائد اعظم روادار تھے۔ پاکستان بننے کے بعد ہولی ٹرینٹی چرچ کراچی میں دعا کرنے گئے تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ قائد اعظم مسجد کی بجائے چرچ جانے کو بہتر سمجھتے تھے۔ قائد تو چرچ میں عبادت کرنے والوں کو تحفظ کا پیغام دے رہے تھے۔

قائد اعظم کے بعد ہم نے اپنی سیاست میں وہم اور جہالت کو جگہ دی۔ بہادری رخصت ہو گئی۔ ہم عوام کے اشتعال سے ڈرنے لگے۔ اشتعال سے خوف کھایا جائے گا تو اشتعال کو ہوا دینے والے پیدا ہوں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے مولویوں کو خوش کرنے کی بہت کوشش کی۔ بات کسی کو خوش کرنے کی نہیں تھی، علمی اور اخلاقی ناانصافی کے سامنے ہتھیار ڈال دیں گے تو ظلم بڑھتا جائے گا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو روحانیت کے دعوے داروں کے آستانوں پر حاضری دیتی تھیں۔ محترم آصف علی زرداری ایوان صدر میں تھے تو خود کو پیر صاحب کہلانے والے ایک شخص نے وہاں مستقل ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ اب وہ پیر صاحب کہتے ہیں کہ عمران خان چاہیں تو انہیں بھی اقتدار دلایا جا سکتا ہے۔ عمران خان نے بہرصورت اپنی جگہ کچھ اور ہستیوں کو نیکی کا فرنچائز دے رکھا ہے۔ آج مسلم لیگ نواز کے کارکن طاہر القادری کو دھوکے باز اور لالچی قرار دیتے ہیں۔ یہ بات تو 1984 سے 1989 تک کہنی چاہیے تھی۔ اب تو دیر ہو چکی۔ دیوتا تراشا جا چکا۔ چڑھاوے چڑھ رہے ہیں۔ 14 مقتولوں کے شناختی کارڈ میز کی دراز میں رکھے ہیں۔ اب طاہر القادری کی حقیقت بیان کرنے سے کیا حاصل؟ اب تو تاوان مانگا جائے گا اور بار بار مانگا جائے گا۔

ہندوستان کے صوبوں پنجاب اور ہریانہ میں گزشتہ دنوں ایک خوفناک واقعہ پیش آیا ہے۔ خود کو روحانی گرو کہنے والے ایک شخص کو عدالت نے دو عورتوں پر مجرمانہ جنسی حملے کا مجرم قرار دیا ہے۔ کوئی دو لاکھ افراد عدالت کے باہر جمع ہو گئے۔ 31 افراد مارے گئے۔ گورمیت رام رحیم سنگھ بھارتیہ جنتا پارٹی سے بھی  منسلک رہے ہیں۔ کانگریس سے بھی نتھی رہے ہیں۔ نرنیدر مودی کے ساتھ ان کے معانقے اور باہم محبت کے تصویری شواہد موجود ہیں۔ اب تو دیر ہو چکی۔ وہم کا شعلہ 31 جانوں کو چاٹ گیا۔ ہندوستان میں ظلم اور ناانصافی پر ہمیں خوش نہیں ہونا چاہیے۔ سوچنا چاہیے کہ ہماری عدالتوں کے احاطے میں مشتعل ہجوم کب جمع ہوتا ہے؟ اسلام آباد کے مرکز میں جمع  ہونے والے نیک لوگوں کے منہ سے کیسے پھول جھڑتے ہیں۔ جہالت کے شعلے کو پاکستان میں ہوا دی جائے یا ہندوستان میں، انسانوں کا لہو بہتا ہے، اندھیرا پھیل جاتا ہے۔ سیاست دانوں کو اس ضمن میں خاص احتیاط سے کام لینا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).