کبوتر با کبوتر، باز با باز


جنیوا میں اقوام متحدہ کی 47 رکنی انسانی حقوق کونسل نے ایک قرارداد میں مطالبہ کیا ہے کہ روایات و رواجات کی آڑ لے کر کوئی بھی ریاست کسی ہم جنس شہری کو محض اس وجہ سے تشدد و تعزیر کا نشانہ نہ بنائے کہ اس کا جنسی میلان اکثریتی جنسی میلان سے مختلف ہے۔ قرارداد میں یاد دلایا گیا ہے کہ تمام انسان برابر پیدا کیے گئے ہیں لہٰذا ان کے مابین کسی بھی طرح کا امتیاز بشمول جنسی تفریق قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔

بیشتر یورپی و لاطینی ممالک، فلپائن، ویتنام اور جنوبی افریقہ سمیت 25 ممالک نے قرار داد کی حمایت کی جبکہ روس، آئیوری کوسٹ، ایتھوپیا، انڈونیشیا، مراکش، الجزائر، سعودی عرب اور پاکستان سمیت 14 ارکان نے قرارداد کو مسترد کر دیا اور چین و بھارت سمیت آٹھ ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

اگرچہ تینوں بڑی الہامی کتابوں (تورات، انجیل، قرآن) میں ہم جنس رجحانات کو نفرت انگیز اور دعوتِ عذاب قرار دیا گیا ہے اور تینوں میں قومِ لوط کا قصہ بھی مشترک ہے البتہ اس بابت سزا و جزا کی عملی تصویر الہامی سزاؤں کے برعکس ہے۔

مثلاً اسرائیل کے بارے میں اگرچہ نظریاتی ریاست ہونے کا تاثر ہے لیکن وہاں ہم جنسی کے رجحان کی کوئی سزا نہیں۔ ہم جنس خواتین و حضرات نیٹو کی طرح اسرائیلی فوج سمیت کسی بھی ادارے میں اعلانیہ بھرتی ہوسکتے ہیں۔ بلکہ تل ابیب تو عالمی گے کیپیٹل کہلاتا ہے۔

اسلامی سربراہ کانفرنس کی تنظیم کے 59 میں سے 21 رکن ممالک میں ہم جنس رجحان فوجداری جرم نہیں اور دس دیگر ممالک میں گے مردوں کے لیے تو جرمانے یا قید کی سزا ہے مگر لیسبیئن خواتین کے لیے کوئی قانون نہیں۔ نو مسلمان ممالک ایسے ہیں جہاں ہم جنس زن و مرد کو قید سے لے کر سزائے موت تک ہو سکتی ہے۔ ان میں سے بھی دو ممالک یعنی نائجیریا کے صرف شمالی علاقے اور فلسطین کے علاقے غزہ میں سزائے موت کا قانون لاگو ہے۔

ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد نے ستمبر 2007 میں کولمبیا یونیورسٹی میں خطاب کے دوران دعویٰ کیا کہ ایران میں ہم جنس پرستی کا کوئی وجود نہیں مگر اسی ایران میں انقلاب سے اب تک ڈھائی ہزار سے زائد افراد کو ہم جنسی کے رجحانات پر سزائے موت مل چکی ہے۔

ایران کے ہمسائے افغانستان میں بھی ہم جنسی کی سزا موت ہے مگر اس پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے البتہ زنا کی مد میں سنگساری و ہلاکت کی اطلاعات اکثر ملتی رہتی ہیں جبکہ سارک ممالک میں سوائے نیپال کے یہ ہر جگہ قابلِ تعزیر جرم ہے۔ بھارت میں اس پر دس برس تک جبکہ بنگلہ دیش اور پاکستان میں تین برس تک قید ہو سکتی ہے۔

مگر صرف انسان ہی کیا، لگ بھگ پندرہ سو چرند و پرند میں بھی ہم جنس رجحانات کی سائنسی علامات ریکارڈ ہو چکی ہیں۔

گذشتہ پانچ ہزار برس کے دوران مختلف تہذیبوں نے اسے یا تو تسلیم کیا یا ذہنی خلل اور غیر اخلاقی و غیر مذہبی قرار دیا۔ اموی سپین، سلطنتِ عثمانیہ اور صفوی بادشاہت نے اس معاملے کو قانونی طور پر کبھی اہم نہیں جانا لیکن لگ بھگ پورے کرسچیئن یورپ میں پانچویں سے انیسویں صدی تک ہم جنسی کا میلان قابلِ تعزیر جرم رہا جس کی سزا موت تک تھی۔

بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں ہم جنسی کے نفسیاتی و جسمانی اسباب کو سمجھنے کی سنجیدہ کوششیں ہوئیں۔ 1973 میں امریکن سائیکیٹرک ایسوسی ایشن نے ہم جنس پرستی کو نفسیاتی بیماری کی فہرست سے خارج کردیا اور پھر باقی دنیا کے ماہرینِ نفسیات نے بھی اسے اسی انداز سے دیکھنا شروع کیا۔

آج 223 ممالک و نیم خود مختار علاقوں میں سے صرف 81 ممالک میں ہم جنسی کا میلان قانونی جرم ہے مگر بیشتر دنیا میں سماجی سطح پر ’نہ پوچھو، نہ بتاؤ‘ کا اصول ہی لاگو ہے۔
مختلف نسلی طبقات پر رکھ کے اس بارے میں لطائف سے اگرچہ ہر کوئی لطف لیتا ہے۔ یورپی، عربی، فارسی اور اردو شاعری میں عطار کے لونڈے سے دوا لینے پر بھی کسی کو اعتراض نہیں۔
ہم جنس میلانات کو ناقابلِ اشاعت اصطلاحات و محاوروں کے ساتھ ساتھ ذوقِ ایرانی، شوقِ نوابی اور علتِ مشائخ جیسی دل کش اصطلاحات کی پوشاکیں بھی پہنائی جاتی ہیں۔ بڑے بڑے عمائدین و شرفا کی داستانیں بھی سینہ بہ سینہ مسلسل معنی خیز سفر کرتی ہیں۔

مگر وسیع تر عالمی سماج اسے ایک سنجیدہ رجحان کے طور پر برملا و باضابطہ تسلیم کرنے سے کتراتا ہے۔

ایسی دنیا جہاں مرد، خواتین، ہیجڑے، مذہبی و نسلی اقلیتیں آج بھی اپنے بنیادی سماجی و قانونی حقوق تسلیم کروانے کی جدوجہد میں لگے ہوں وہاں ہم جنس کمیونٹی بھلا کس کھیت کی مولی ہے۔ تب تک ایسے اشعار کا صرف سیدھا سیدھا مطلب نکالنا ہی بھلا ہے۔
’کند ہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر، باز با باز‘

28 ستمبر 2014


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).