آن لائن نیوز ایجنسی نے ارشاد مستوئی کو ملازم ماننے سے ہی انکار کر دیا!


پاکستان کے معروف خبررساں ادارہ آن لائن انٹرنیشنل نیوز نیٹ ورک نے 2014 میں شہید ہونے والے اپنے کوئٹہ کے بیوروچیف ارشاد مستوئی اور ساتھیوں کو کو ادارے کا کل وقتی ملازم ماننے سے ہی انکار کر دیا. ادارے کے ایڈیٹر کا کہنا ہے کہ کیوں کہ ارشاد اور ان کے ساتھی دیگر اداروں میں بھی کام کرتے تھے، اس لیے وہ ادارے کے جزوقتی ملازم تھے۔ اس کے باوجود ادارے کی جانب سے کئی ماہ تک ان کے اہلِ خانہ کو تنخواہوں کی ادائیگی کی گئی.

یہ بات انہوں نے بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر خلیل احمد کے نام لکھے گئے وضاحتی خط میں لکھی ہے. واضح رہے کہ قبل ازیں بی یو جے کے صدر کی جانب سے آن لائن نیوز نیٹ ورک کے چیف ایگزیکٹو کے نام ایک کھلا خط لکھا گیا تھا، جس میں ادارے کے بیورو چیف ارشاد مستوئی، رپورٹر عبدالرسول اور اکاؤنٹنٹ محمد یونس کی شہادت کے 3 سال مکمل ہونے کے باوجود ادارے کی جانب سے لواحقین کو معاوضوں کی عدم ادائیگی نیز ادارے کی جانب سے غیرذمہ دارانہ رویے کی مذمت کرتے ہوئے اس بات کا عندیہ دیا گیا تھا کہ 28 اگست کو یوم شہدائے صحافت کی مناسبت سے بی یو جے کے سیمینار کے بعد ادارہ ہٰذا کے دفتر کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا جائے گا.

مذکورہ خط کے جواب میں آن لائن کے ایڈیٹر نے نہ صرف ارشاد مستوئی اور صحافیوں کو اپنا کل وقتی ملازم ماننے سے انکار کر دیا بلکہ صحافیوں کے احتجاج کی صورت میں اپنے بلوچستان بیورو کو بند کرنے کی “دھمکی” بھی دی. دوسری جانب ارشاد مستوئی کے اہلِ خانہ نے آن لائن کی جانب سے مبینہ الزامات کی تردید و شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ارشاد نہ صرف آن لائن کے کل وقتی ملازم تھے بلکہ ان کی شہادت آن لائن کے دفتر میں ہی ہوئی. ارشاد مستوئی کو 2012 میں آن لائن کا بیوروچیف مقرر کیا گیا، جس کا ادارے کی جانب سے باضابطہ لیٹر بھی جاری کیا گیا. مالی امداد سے متعلق دعویٰ بھی جھوٹ کا پلندہ ہے۔ ارشاد کی شہادت 28 اگست کو ہوئی، یعنی وہ تقریباً پورا ماہ اپنی خدمات سرانجام دے چکا تھا، اس لیے اُس ماہ کی تنخواہ جو ادارہ ویسے بھی دینے کا پابند تھا، اہلِ خانہ کو پہنچائی گئی۔ اس کے سوا کسی قسم کی مالی مدد تو درکنار، تین برسوں میں کبھی پلٹ کر جھوٹے منہ پوچھا بھی نہیں گیا.

ان کا کہنا ہے کہ ادارے کی جانب سے معمولی تنخواہ اور دو برسوں کے دوران کے کسی قسم کا اضافہ نہ ہونے کے باعث ارشاد نے باامر مجبوری شہادت سے محض چھ ماہ قبل اے آر وائی نیوز نیٹ ورک کے ساتھ جزوقتی طور پر بہ طور اسائنمنٹ ایڈیٹر کام کرنا شروع کیا تھا. جب کہ آن لائن میں‌ وہ مقررہ وقت سے کہیں زیادہ دس دس گھنٹے گزارا کرتا تھا. اس پر ادارے کی جانب سے بجائے شرمندگی کے اظہار کے، اسے اپنا ملازم ہی تسلیم نہ کرنا ڈھٹائی کی انتہا ہے.

دوسری جانب صحافتی تنظیم نے بھی مذکورہ خط کا جواب لکھنے کے ساتھ ساتھ، اپنا احتجاج ملکی سطح پر ریکارڈ کرانے کا عندیہ ظاہر کیا ہے. صحافی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ شہید کارکنوں کے معاوضوں کے مطالبے کے جواب میں‌ بیورو آفس بند کرنے کی دھمکی کھلی بلیک میلنگ اور صحافیوں کو باہم دست و گریبان کی سازش ہے، اسے کسی صورت کامیاب نہیں‌ ہونے دیں گے.

(بشکریہ حال حوال – کوئٹہ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).