عالمِ بالا سے ارشاد مستوئی کا آن لائن کو ایک خط


جناب محسن بیگ

چیف ایگزٹیو آن لائن، نیوز ایجنسی اسلام آباد

جناب آپ مجھے جاننے سے انکار کر رہے ہیں۔ آپ سب کو یہ مراسلہ لکھ کر بتا رہے ہیں، اور جتانے کی کوشش کر رہے کہ میں آپ کے ادارے میں ملازم نہیں تھا، یہ بات آپ کے ادارے نے اپنے ایک مراسلے میں خلیل احمد صاحب کو بتائی ہے، جو لکھی ہوئی ہے، اور ایسے پھیل گئی ہے جیسے غریب کی لڑکی کے بارے میں ناشائستہ افواہ۔ میں اس ناانصافی کی نذر ہو کر آج جیکب آباد کی ایک پرانی قبر سے ہوتا ہوا عالمِ بالا پہنچ گیا ہوں۔ پر آپ مجھے قبول نہیں کر رہے کہ میں آپ کے پاس کوئی ملازم بھی تھا!

جناب محسن بیگ صاحب ! میں ایسے ہی یہاں نہیں پہنچا!

آپ کے ادارے کے دفتر میں اپنے جسم پر گولیاں کھائی ہیں، وہاں منہ کے بل گرا ہوں، اپنے جسم سے تازہ گرم لہو بہتا دیکھا ہے، گولیوں نے میری روح کو جلایا ہے، جب پہلی گولی جسم کے پار اُتری تو مجھے میری بیٹی یاد آئی جو بالکل پہلے پیار کی طرح معصوم ہے! میں جب بھی دفتر سے تھکا ہارا گھر کو لوٹتا تھا، جب اس پر نظر جاتی تھی تو سب درد دور ہو جاتے تھے، پر جب آپ کے دفتر میں آپ کی نوکری کرتے پہلی گولی لگی تو درد میں اور اضافہ ہو گیا!

ایک بات یہ کہ، جب پہلی گولی جسم میں اتری تو وہ بچی میرے خیالوں میں بھاگتی ہوئی آئی، اس نے مجھے دیکھا،م یں نے اُسے دیکھا….. پر ہائے! اسے دیکھنے کے باوجود درد میں کمی نہیں ہوئی! دوسری بات یہ کہ میں تو گولی نہیں گولیاں کھا کر جیکب آباد کی تیاری کرنے لگا، اب وہ بچی بابا کسے کہے گی! اور آپ کہتے ہیں، میں آپ کا ملازم نہیں تھا!

جب مجھے دوسری گولی ماری گئی تو میں نے دیکھا کہ میری ماں کوئٹہ کے اور آن لائن کے دفتر سے دور جیکب آباد کے ایک کچے مکان میں خدا کا نام لے کر کر میرے لیے دعا مانگ کر سوئی ہی تھی کہ وہ مجھے دوسری گولی لگنے سے اُٹھ کر بیٹھ گئی، آپ کو بالکل اندازہ نہیں کہ گولی تو میں نے کوئٹہ میں اپنے جسم پر کھائی تھی، پر کوئٹہ سے بہت دور میری ماں کی نیند ماری گئی تھی…..

محسن بیگ صاحب! کیا آپ کو اندازہ ہے کہ ایک ماں کی نیند کیسے ماری جاتی ہے، اس کے لیے آپ کو میرے جسم پر لگی گولیاں اور اوستہ محمد میں میری ماں کو دیکھنا ہوگا، پر آپ ٹھنڈے کمروں والا آفس چھوڑ کر آتے ہی نہیں ایک ماں کے درد کو دیکھنے!

اس کے بعد ایک، دو، تین، چار اور پھر ایک کڑکڑاہٹ کے ساتھ کئی گولیاں میرے جسم میں اترتی گئیں اور میں اپنی کرسی سے نیچے گر گیا۔ اسی اثنا میں، میں نے دیکھا کہ میں ایک نہیں پر میرے دو ساتھی بھی ان بھوکی بندوقوں کا نشانہ بن چکے تھے، گولیاں تو میں نے اور میرے ساتھیوں نے کھائی ہیں اور اب یہ رنگین دنیا چھوڑ کر کہاں بستے ہیں کاش کہ کوئی دیکھ پائے!

پر آپ اتنے ڈرتے ہیں کہ آپ ہمیں اون بھی نہیں کر رہے، اور لکھ لکھ کر سب کو بتا رہے ہیں کہ آپ ہمیں نہیں جانتے اگر آپ اتنا ہی ڈرتے ہیں تو مست توکلی کے دیس میں اپنا آفس ہی کیوں قائم کیا؟!

ابھی بات پوری نہیں ہوئی، محسن بیگ صاحب!

گولیاں کھانے کے بعد، خون میں لت پت ہونے کے بعد، اپنے جسم کا جنازہ نکالنے کے بعد، اپنی ماں کی نیند کومارنے کے بعد، اب اس سجنی کی باری تھی، جس سے میں نے کئی وعدے کیے تھے۔ جن میں سے ایک بھی وفا نہ ہو پایا، یہاں تک کہ یہ وعدہ بھی بیچ میں ہی رہ گیا کہ ایک ساتھ جیئیں گے، ایک ساتھ مریں گے، پر میں اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران مارا جا چکا تھا، اور اب ایک چیختی ایمبولینس میں وہاں جا رہا تھا، جہاں میرا گھر ہوتا تھا، جہاں میری ماں ہوتی تھی، جہاں میرے رشتے ہوتے تھے، جہاں میرے خواب بستے تھے، جہاں میرے معصوم بچے اس انتظار میں ہوا کرتے تھے کہ بابا آئے گا اور ہمیں بہت سا پیار کرے گا، جہاں میری محبت بستی تھی……. آج میں وہاں جا رہا تھا، جہاں میری ماں اور ماں جیسی محبوبہ بستی تھی، پر مجھے معلوم ہے آج وہ بہت اداس ہو گی۔ مجھے دیکھ کر، میرے پھٹے وجود کو دیکھ کر، میری ٹوٹی عینک کو دیکھ کر، میرے جسم سے ٹپکتے لہو کو دیکھ کر، خون آلود کفن کو دیکھ کر، چیختی ایمبولینس کو دیکھ کر……

میں نے اپنے دوستوں کو یہ وصیحت کر دی تھی کہ میرے باقی بچے سامان کو تو گھر لے جائیں، پر مجھے گھر نہ لے جائیں، میری ماں بیمار ہے، وہ مجھے ایسے کیسے دیکھ سکتی ہے؟ مجھے پہلے جیکب آباد کے قبرستان میں دفن کر دیں پھر میرے سامان کو گھر لے جائیں!

جناب محسن بیگ صاحب !

آپ اُس درد کو نہیں جان پائیں گے۔ میرے پھٹے وجود کو میری ماں نے قبول کیا تھا، اور کہا تھا کہ، “یہ میرا ارشاد ہے۔” پر آپ تو میری ماں نہیں ہیں، اور آپ کیوں کہیں گے کہ، “ہاں، یہ ارشاد میرا ہے!” آپ محسن بیگ ہیں، میری معصوم ماں نہیں ہیں!۔ آپ ڈرتے ہیں کہ میرے بچے آپ پر کوئی کلیم نہ کریں، آپ سے کوئی پیسہ نہ بٹوریں، جب آپ مجھے قبول ہی نہیں کر رہے ہو تو کیسا کلیم؟ اور کیسا پیسہ؟

پھر مجھے قبر میں دفن کر دیا گیا، قبرستان میرے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا، میرے گھر میں میری ماں بہت روتی رہتی تھی، پر میری محبت مجھے یاد کر کے بس خاموش آنسو بہاتی رہتی تھی، جب میرے بچے پوچھتے تھے کہ، “بابا کب آئے گا؟!” تو پھر اس کے صبر کا دامن چھوٹ جاتا تھا، اور وہ گھر کے کونے میں بیٹھ کر اتنا روتی تھی کہ اندازہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ کب صبح ہوئی اور کب شام ہوئی!

میں اپنی قبر میں سب سنتا رہتا تھا، پھر ایک دن مجھے خدا کے پاس لے جایا گیا۔ خدا نے پوچھا، “کیا چاہیے؟” اور میں نے عرض کی، “بس دنیا میں موجود ماں کو صبر دے دو!” اسے کے بعد میں نے دیکھا کہ ماں کبھی نہیں روئی، شاید ماں کو خدا نے صبر دے دیا!

ماں کو صبر تو میسر آ گیا، پر اس بوڑھی معصوم عورت کی نیند اسی دن مر چکی ہے جس دن مجھے آپ کے دفتر میں گولیاں ماری گئی تھیں، اور آپ کہتے ہیں کہ میں آپ کا ملازم نہیں تھا، تو جائیں اور جا کر دیکھیں کہ کیا میری ماں کی نیند جو ماری جا چکی ہے، وہ بھی سفید جھوٹ ہے؟!!

میں نے شیخ ایاز کی ایک نظم یاد کی تھی، وہ نظم مجھے بہت پسند تھی، میں اسے بہت گنگناتا تھا، پر اسے سمجھتا نہیں تھا، آج جب عالم بالا کا مکیں بن چکا ہوں اور ماں دھرتی کے سینے پہ مجھے یاد کر کے اپنے آنسو اپنے پلو سے صاف کرتی ہے تو یہاں وہ نظم بہت دل دکھاتی ہے، آپ بھی سنیں!

دور ہوتے جا رہے ہیں

روز اپنے

تم ابھی تک جی رہے ہو

اے دھڑکتے دل!

جب جب مجھے ایاز کی یہ نظم یاد آتی ہے تو میں یہاں بھی اشک بار ہوجاتا ہوں۔ کیوں کہ میری ماں تو مجھ سے دور دھرتی پہ رہ گئی ہے، پر آپ درد کو نہیں جان پائیں گے، کیوں کہ آپ ماں نہیں ہیں اور آپ کا دل ماں کا دل نہیں ہے، آپ کا دل تو دانشور کا دل بھی نہیں ہے، آپ کا دل تو کسی شاعر کا دل بھی نہیں ہے، آپ کا دل تو کسی صحافی کا دل بھی نہیں ہے…..

آپ کا دل ایک سیٹھ کا دل ہے، آپ کا دل ایک بیوپاری کا دل ہے، پر میں نے تو آپ سے کوئی بیوپار نہیں کیا کہ جب کوئی نفع ہو تو میں آپ کا اور جب کوئی گھاٹا ہو تو آپ مجھ سے دور بھاگ جائیں، آپ کا دل ایک مالک کا دل ہے اور آپ اتنے کم ظرف ہیں کہ مجھے آپ اپنا مزدور بھی نہیں مان رہے۔جب کہ آپ جانتے ہیں کہ میں نے آپ کے ساتھ قلم کی مزدوری کی ہے، اپنا پسینہ تو کیا، کوئٹہ میں اپنا خون اپنے کام کی نذر کر گیا ہوں۔

کیا اٹھائیس دن کی مزدووری دے کر آپ مجھ سے جان چھڑانا چاہتے ہیں؟ یہ مزدوری تو آپ مجھے میرے کام کی دے رہے ہیں، پر میری جان کی کیا قیمت ہے؟ میرے خون کی کیا قیمت ہے؟ میرے جسم میں گولیاں اتر گئیں جو جیکب آباد میں بیٹھی ماں کو جا کر لگیں، ان کی کیا قیمت ہے؟

محسن بیگ صاحب، اپنے نام کی لاج رکھیں اور ایک دن نکال کر کوئٹہ سے جیکب آباد جائیں اور جا کر دیکھیں کہ کیا ان بوڑھی آنکھوں میں اب بھی کو ئی نیند باقی ہے؟

میں آپ کے ادارے آن لائن میں بیورو کوئٹہ تعینات تھا اور اپنے فرائض کے دوران لہو لہو لہو ہوا…. آپ کو یقین نہیں آتا تو 28 اگست 2014 کے اخبارات اور ٹی وی چینلز کو دیکھ لیں، اور ان پہ یقین نہ ہو تو اپنے ادارے کی جاری کردہ 28 اگست 2014 کی آخری نیوز فائل کی آخری خبر پہ نظر دوڑائیں:

“کوئٹہ میں آن لائن کے بیورو چیف، رپورٹر اور اکاؤنٹنٹ قاتلانہ حملے میں جاں بحق!”

یہ خبر آپ ہی کے ادارے نے دی تھی، جس کے کوئٹہ آفس میں اب بھی ادارے کے بڑے مونوگرام کے ساتھ میری نشست کے عین اوپر میری اور میرے شہید ساتھیوں کی تصاویر موجود ہیں۔ اس سچ کو قبول کریں، یا اس آئینے کو توڑ دیں جس میں آپ کی “محسن کش” شبیہ نظر آتی ہے!!

عالمِ بالا سے آپ کے لیے خیراندیش

ارشاد مستوئی

(سابق) بیورو چیف، آن لائن نیوز نیٹ ورک، کوئٹہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).