بلھے شاہ کو بلاؤ، میری دھمال دیکھ لے


تہوار کے دن ہیں۔ آج کچھ خوشگوار باتیں کی جائیں۔ لکھنا سیکھا تو سوچا یہی تھا کہ اچھی اچھی باتیں لکھیں گے۔ بارش، پھول، تتلی، ننھے بچے، محبت کرنے والے جوڑے، شفقت کرنے والے بزرگ اور علم بانٹنے والے اساتذہ کا تذکرہ رہے گا۔ کہیں موسم کی فصل میں پیوند کاری سے نیا اور زیادہ خوش ذائقہ پھل نصیب ہوا تو اسے ایسا بیان کریں گے کہ غالب اپنے آم بھول جائے گا۔ کہیں کوئی کارخانہ لگے گا تو علاقے کے مقامی باشندوں کو روزگار کی خوشخبری دیں گے۔ کہیں تعلیمی ادارہ قائم کیا جائے گا تو اس علاقے کی علمی اور تہذیبی زندگی میں انقلاب کا امکان لکھیں گے۔ کہیں انتخاب کی گہماگہمی برپا ہو گی تو خواجہ صفدر کا ذکر کریں گے کہ اپنے حریف کے ساتھ بیٹھ کر چائے پیتے ہوئے انتخابی نتائج سنتے تھے۔ زندگی میں ایسی خوشی بیان کرنے کے مواقع کم کم رہے۔ کچھ منجدھاریں ہماری توقع سے زیادہ شوریدہ نکلیں۔ کچھ مانجھی ریاض مکمل کئے بغیر پانیوں میں اتر آئے تھے۔ دوسروں کو کیا الزام دیا جائے، اپنا احتساب بھی کرنا چاہیے۔ علم میں ہم کوتاہ رہے۔ عمل کی فرد ادھوری رہی۔ زندگی کے احسانات ان گنت تھے، حساب چکانے کا مرحلہ آیا تو ہم تہی دست نکلے۔ آج مگر اچھی اچھی باتیں ہوں گی۔ کچھ دیر کے لئے ماتم میں توقف ہو گا، سانس کی مہلت کا تشکر بیان کیا جائے گا۔

پیدا ہونے کے وقت اور جگہ کا انتخاب اپنی مرضی سے نہیں کیا جاتا۔ درویش غریب ماں باپ کے گھر میں پیدا ہوا۔ ایک اچھا سبق یہ ملا کہ اگر ماں باپ شفیق اور مہربان ہوں تو بچوں کو غربت کی آنچ محسوس ہی نہیں ہوتی۔ معمولی ضروریات کا پورا ہونا اہم ہے لیکن ایک خاص حد سے زیادہ دولت خوشی کی ضمانت نہیں دیتی۔ ہم لوگ جس محلے میں رہتے تھے، وہاں زیادہ لوگ ہماری ہی طرح غریب اور سادہ تھے۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ وہ سب لوگ ہمیشہ دیانت داری سے کام لیتے تھے۔ ہماری آنکھوں سے پرے کچھ غیبت، حسد اور اپنی خود ساختہ بڑائی کے قصے بھی موجود تھے۔ مگر بچوں کی دنیا تک ان معاملات کی خبر کم ہی پہنچتی تھی۔ چھوٹے چھوٹے گھر تھے لیکن ہر گھر کا صحن ایسا مانجھ مانجھ کے دھویا جاتا تھا کہ آج تک بھائی صابر کے آنگن میں لال اینٹوں سے پھوٹتی تازگی اور صفائی دل کو خوشی دیتی ہے۔ ہمارے قصبے میں بیشتر گھرانے مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ مالی حالات دگرگوں ہی ہوں گے۔ لالہ رشید نے ایک روز کہہ دیا کہ انہیں سرسوں کے تیل میں پکایا ہوا کھانا زیادہ پسند ہے۔ اس پر سب زور زور سے ہنسے اور کہا کہ لالا رشید کی والدہ نے سرسوں کے تیل سے لالے رشید کی ایسی منجھائی کی ہے کہ اب انہیں بے بو کا بناسپتی گھی پسند نہیں آتا۔ لالہ جی سرکاری ملازم تھے۔ شام کو گھر پر نوجوان لڑکوں کو سائنس پڑھاتے تھے۔ ان کی بیٹھک سے ہمیشہ گاما سی فور اور اے پلس بی کی آوازیں آیا کرتی تھیں۔ گھر سے باہر سائیکلوں کی ایک لمبی قطار ہوتی تھی۔ ہمسائے میں محمد نثار ایم بی بی ایس کر رہے تھے۔ بھائی سلیم کی بوڑھی والدہ ڈیوڑھی میں بیٹھ کر سگریٹ پیا کرتی تھیں۔ ان کے ساتھ والے گھر میں ایک آپا رہتی تھیں جو گھر کا کام کاج نمٹا کے پراندے بنایا کرتی تھیں۔

قصبے میں ہمارے اسکول کی شہرت اچھی نہیں تھی۔ بے تکلفی میں اسے کھوتی اسکول کہا جاتا تھا، یعنی ایسا اسکول جہاں پڑھائی میں پھسڈی بچے داخل کئے جاتے تھے۔ کچھ فاصلے پر عطا محمد ہائی اسکول تھا جس کے طالب علموں کی بڑی دھوم تھی۔ ہمارے بہترین سیاسی کارکن قیوم نظامی عطا محمد ہائی اسکول ہی میں پڑھے تھے۔ میں اسکول سے چھٹی کے بعد عطا محمد ہائی اسکول کے دروازے پر جا کھڑا ہوتا۔ بند پھاٹک کی سلاخیں پکڑے حسرت سے دیکھتا رہتا تھا کہ اگر یہاں پڑھنا نصیب ہوتا تو کیسا اچھا تھا۔ یہ ایک معصوم سی خواہش تھی۔ پڑھائی کے معیار سے اس کا کم تعلق تھا۔ ہمارے اپنے اساتذہ بڑے محنتی تھے۔ ہمارا اسکول تقسیم سے پہلے ایک مندر تھا۔ دیواروں پر دیوی دیوتاؤں کے آثار ابھی موجود تھے۔ ہمیں کبھی کسی نے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ آج بھی کسی تعلیمی ادارے میں داخل ہوتے ہوئے ایک رعب سا آ لیتا ہے۔ اکنامکس، ریاضی اور سائنس کے کمرہ جماعت میں علم کے کیسے کیسے راز بیان کئے جاتے ہیں۔ چراغ رہگزر کو کیا خبر ہے۔ یہ پاکستان میں پہر دن چڑھے کی معصومیت بھری خاموشی تھی۔ سڑکوں پر تقسیم سے پہلے دان کی ہوئی آوارہ گائے کا نظر آنا معمول کی بات تھی۔ کبھی کبھی اپنے بزرگوں سے ہمیں غربت کی کاٹ دار کہانیاں سننے کو مل جاتی تھیں۔ سچ یہ ہے کہ ہمیں یقین تھا کہ غربت ایک ایسی شے ہے جس کا ہماری ذات سے کوئی تعلق نہیں۔ دوسرے لوگ غریب ہوتے ہیں، ہم تو اچھے کھاتے پیتے لوگ ہیں۔ ہر ہفتے پاؤ بھر گوشت ہمارے گھر میں پکایا جاتا ہے۔ اپنے حصے کا پھل بھی ملتا ہے اور بڑی بہن کا حصہ بھی الگ سے ہمیں مل جاتا ہے۔ ایک آدھ پھل ہم نظر بچا کر اڑا لیتے تھے۔ غربت کیسی، تشکر کا مقام تھا۔

کچھ عرصے بعد لاہور کے گورنمنٹ کالج میں داخلہ مل گیا۔ یہ ایک خواب تھا جو پورا ہوا۔ ایک قصباتی لڑکا گورنمنٹ کالج کی علمی فضا کو کیسے دریافت کرتا ہے۔ کم علمی میں کیسے کیسے حادثات پیش آتے ہیں۔ لیکن حادثات ہی کیوں، علم، تجربے اور امکان کی ایک دنیا بھی تو کھل گئی تھی۔ پنجاب بلکہ ملک بھر سے ذہین ترین طلبا ابتدائی کارکردگی کی لہروں پر بہتے نامعلوم کہاں کہاں سے آ کر اس چشمے میں شامل ہوئے تھے۔ یہاں بے مہار بحثیں ہوتی تھیں۔ بلاوجہ کی اکڑ خانی تھی، گہرا احساس تھا کہ بس اب ہم اچھے اچھے کام کریں گے۔ ایک ناول تو بہرصورت لکھنا ہے۔ تاریخ کو ایک انوکھے زاویے سے بیان کرنا ہے۔ پاکستان جلد ہی ایک ترقی یافتہ ملک بن جائے گا۔ بس یہ آمریت ختم ہو جائے، پھر جمہوریت ہو گی اور ترقی کا راستہ کھل جائے گا۔ نمود عشق میں خواب نہ ہو تو جینے کا مزہ خراب ہو جائے۔ شیکسپیئر نے کیا اچھا کہا تھا

We are such stuff

As dreams are made on; and our little life

Is rounded with a sleep.

(ہم وہ لوگ ہیں جن سے خواب تشکیل پاتے ہیں۔ ہماری زندگیوں کے گرد نیند کی چادر لپٹی ہے۔)

گھنٹوں فیروز سنز اور پیپلز پبشلنگ ہاؤس میں کتابوں کی الماریاں جھانکتے رہتے تھے۔ ایک کتاب پسند آئی۔ اللہ کے فضل سے خریدنے کے پیسے نہیں ہیں۔ کتاب الٹی کر کے دوبارہ الماری میں ٹکا دی کہ کسی اور کو نظر نہ آئے۔ اگلے ہفتے گھر سے پیسے آ جائیں تو خرید لیں گے۔ الحمداللہ، زندگی میں محبت کرنے والے دوست ملے، شفقت کرنے والے اساتذہ نصیب ہوئے، غلام عباس کے کردار محمد شریف کلرک کا کتبہ مجھے مل جائے تو اس پر لکھوں گا، یہاں وہ شخص سو رہا ہے جو زندگی کے احسانات پر شکر گزار تھا، اپنے دوستوں کا احسان مند تھا، اسے کسی سے کوئی شکوہ نہیں تھا، جمہوریت کے خواب کا داس اور ناتھ تھا، ناچتے ہوئے گاتا تھا

اشک ریز آمدہ است ابر بہار

پنجابی کے جوان سال شاعر تجمل کلیم نے کیا خوب کہا ہے

میں نچیا جگ دے سکھ پاروں

سد بلھے نوں، میری دھمال دیکھے

(میں تو دوسروں کے سکھ پر نہال ہو کر ناچ رہا ہوں، بلھے شاہ کو بلاؤ، وہ میری دھمال دیکھ لے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).