یہ وقت تصادم کے لئے موزوں نہیں


چیئرمین سینیٹ، جناب رضا ربانی کی ریاستی اداروں اور طاقت کے مراکز کے مابین ڈائیلاگ کی تجویز کا غیرجذباتی انداز میں معروضی جائزہ لینے کی ضرورت تھی۔ ہماری طاقت ور اشرافیہ کی باہم آویزش نے ملک کو ایک دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ہم اس میں مزید دھنس سکتے ہیں۔ بچنے کا راستہ یہ ہے کہ حکمران اشرافیہ (اور بعض اداروں) کے اپنائے گئے طرز عمل کا ازسرنو جائزہ لیا جائے، دعویٰ جن کا یہ ہے کہ صرف وہی ملک کو آگے لے کر جا سکتے ہیں۔ اس عمل کے دوران اداروں کے عملی کردار، جو ہمارے سیاسی اور قانونی نظام کا ایک معمول سا بن چکا ہے، اور ان کے قانونی کردار، جس کی آئین ضمانت دیتا ہے، کے درمیان موجود فرق کو کم کرنا ضروری ہے۔

پانی پت کا نقشہ پیش کرنے والی اس ریاست میں ہم سب اپنے اپنے محاذ پر ڈٹے، ذرہ برابر لچک دکھانے کے لئے تیار نہیں۔ سول ملٹری مناقشے میں ہمارا موقف ’’یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے‘‘ کی طلسمی الجھن کا اسیر۔ جمہوری اقدار، اور عدلیہ کے اختیار پر پی ایم ایل (ن) کا تکلم آج وہی ہے جو یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد پی پی پی کا تھا۔ اس پر آج پی ٹی آئی اور پی پی پی کے دلائل سے کل پی ایم ایل (ن) کے دئیے گئے دلائل کی جھلک ملتی ہے۔ قانون کی حکمرانی کا دارومدارقواعد وضوابط پر ہوتا ہے جس میں نتیجے تک پہنچنے کے لئے اختیار کردہ طریق کار کے علاوہ ارتکاب کی نیت اور مدعی کے ارادوں کو بھی دیکھا جاتا ہے۔

آج ہماری ترجیحات تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے سے طے پانے والی روایت سے وابستہ نہیں۔ آئین کو کوئی مقدس دستاویز نہیں سمجھا جاتا جس میں تبدیلی ناممکن ہو۔ نتیجتاً تنازعات، چاہے وہ سیاسی جماعتوں کے درمیان ہوں یا اداروں کے درمیان، کے حل کے لئے کوئی متفق بنیاد موجود نہیں۔ جب تنازعات کا حل ناگزیر ہوجاتا ہے تو پھر کچھ عارضی بندوبست کرلیا جاتا ہے، لیکن اُنہیں صحیح اور غلط کے ہمہ گیر اصول کے تحت مستقل بنیادوں پر حل نہیں کیا جاتا۔ جب کسی نظام کے تمام کھلاڑی اپنی اپنی طاقت میں اضافے کا ایجنڈا رکھتے ہوں اور وہ اپنے عزائم کے حصول کے لئے کسی قاعدے قانون کی پابندی نہ کریں، تو ایسا نظام لا محدود کشمکش کا اسیر بن جاتا ہے۔

تسلیم کہ فوج اندرونی اور بیرونی خطرات کا مقابلہ کرتے ہوئے پاکستان کو متحد رکھے ہوئے ہے، نیز اسے ایک منظم ادارہ ہونے کے ناتے اپنی طاقت ملک کے بہترین مفاد میں استعمال کرنی چاہیے۔ فرض کریں فوج کے خیال میں ملک کا بہترین مفاد یہ ہے کہ نیشنل سیکورٹی اور خارجہ پالیسی کا تعین وہ خود کرے اور غیر معمولی حالات میں ضروری مداخلت کرتے ہوئے کج فہم سیاست دانوں کو غلطیاں کرنے کا موقع نہ دے۔ نیز پاکستان کے مفاد کے اس روشن و رخشاں تصور کو آئین میں سیاہی سے لکھے ہوئے حروف سے کہیں معتبر تسلیم کیا جائے (مشرف یہ بات زور دے کر کہتے رہے ہیں)۔

کیا ہوا اگر آئین سویلینز کی بالادستی کا وعدہ کرتا ہے، لیکن قومی مفاد کا تقاضا خاکی وردی پوشوں کو اُن کا فرض یاد دلاتا رہتا ہے کہ ملک کا بہترین مفاد یہی ہے کہ فوج ویٹو پاور اپنے ہاتھ میں رکھتے ہوئے جہاں، یا جب بھی ضرورت پڑے، سیاست کی اصلاح کرتی رہے۔ جب کبھی کوئی جماعت پارلیمنٹ یا سیاسی عمل کو کنٹرول کرتے ہوئے اس اختیار کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں آ جاتی ہے پھر ملک کے بہترین مفاد میں پس پردہ رہ کر ڈوریں ہلائی جاتی ہیں اور اُس گستاخ سیاسی جماعت کو بتایا جاتا ہے کہ یہ چیلنج ملکی مفاد کے کس قدر منافی تھا۔

’’مرغی پہلے پیدا ہوئی یا انڈا‘‘ نامی بحث ہمارے ہاں ’’عدلیہ سپریم ہے یا پارلیمنٹ ‘‘ کا عنوان پاتی ہے۔ عدلیہ یقین رکھتی ہے کہ آئینی تقاضا اسے ہر قسم کی سیاسی مداخلت سے آزاد کرتا ہے، لیکن ناقدین نے تاریخی طور پر عدلیہ کو ایگزیکٹو کے توسیع شدہ بازو کے طور پر ہی دیکھا ہے۔ عین ممکن ہے کہ جب ریاست کے دیگر عناصر کی فعالیت ایگزیکٹو اور عدلیہ کو الگ کرتے دکھائی دے تو اس کی طرف سے ردعمل ظاہر کیا جائے۔ اپنے وقار اور قانون کے مطابق عوامی مفاد کا تحفظ کرنے کی ذمہ داری اٹھاتے ہوئے اسے یقین ہوچلا ہے کہ اسے دیگر اداروں سے زیادہ اختیارات حاصل ہیں۔ تو کیااسی لئے عدلیہ نے اپنے کھاتے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سامنے رکھنے سے انکار کر دیا؟ ہم جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ جج حضرات کی تقرری اور چنائو کے عمل میں پارلیمانی کمیٹی کو رائے دینے کی بھی اجازت نہیں دیتی۔ اس نے پارلیمنٹ پر دبائو ڈال کر اٹھارویں ترمیم کے ذریعے جوڈیشل تقرریوں کا تمام کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اکیسویں ترمیم، جس کے نتیجے میں فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا، کے بعد ہم نے دیکھا کہ عدلیہ نے خود ہی آئینی ترامیم ساقط کرنے کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

ہم دیکھتے ہیں کہ الیکشن لڑنے والے سیاست دان قانون سازی کے عمل کو کنٹرول کرنے کے بعد نہ تو عوام کو سہولتیں فراہم کرتے ہیں اور نہ ہی اُنہیں الیکشن سے پہلے کیے گئے وعدے یاد رہتے ہیں۔ اس کی بجائے وہ ریاست کے وسائل اپنے مفاد کے حصول اور اپنے مخالفین کو زچ کرنے کے لئے بے دریغ استعمال کرتے ہیں کیونکہ اُن سے باز پرس کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ وہ عوامی مینڈیٹ کو احتساب کا، اورجمہوری عمل کو قانون کی حکمرانی کا متبادل سمجھتے ہیں۔ لیکن ہم نے غیر منتخب شدہ اداروں کو منتخب شدہ اداروں کی بھیانک تصویر کشی کرتے بھی دیکھا ہے۔ منتخب شدہ اداروں پر ان پالیسیوں کی ناکامی کا الزام لگایا گیا جنہیں بنانے، یا جن پر اثر انداز ہونے کا ان کے پاس عملی اختیار ہی نہیں۔ سیاسی عمل کو سبوتاژ کرنے اور پارلیمنٹ کی کمپوزیشن اپنی مرضی سے تبدیل کرنے کے تماشے ہمارے جانے پہچانے ہیں۔ عوامی نمائندوں کو حاصل اتھارٹی میں نقب زنی اور مداخلت پر قوم کو شکریے کی تلقین کی جاتی رہی۔ ہم نے احتساب کے دہرے معیار کو قطعی میزان کا درجہ ملتے دیکھا ہے۔ ایک معیار سیاست دانوں کے لئے، اور دوسرا ججوں اور جنرلوں کے لئے۔

اداروں کے درمیان پائے جانے والے عدم اعتماد کی اصل وجہ ذاتی مفاد کی تقدیم، خودپارسائی کا زعم اور اصولوں کا من پسند اطلاق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی مفاد میں مل کر کام کرنے کی بجائے ریاستی ادارے زیادہ سے زیادہ طاقت اور اختیار کے حصول اور دوسروں کو نیچا دکھانے کی سعی میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ اس کشمکش کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر ادارہ طاقت تو رکھتا ہے لیکن ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔ دراصل ہم نے آئین میں درج حدود قیود کو فعال ہونے کی اجازت نہیں دی۔ بظاہر دکھائی دینے والی قدغن اکثر اوقات ــ’’فکسڈ‘‘ ہوتی ہے۔

چنانچہ ہمارے سامنے جاری کھیل میں نہ کوئی ذمہ داری اٹھاتا ہے اور نہ ہی کوئی اپنے اختیار کو احتساب کے لئے پیش کرتا ہے کہ اس نے عوامی مفاد کے لئے کیا کیا؟ یہ بات بلاتامل کہی جا سکتی ہے کہ گزشتہ ستر برس سے ایگزیکٹو، چاہے اس کی کوئی بھی شناخت ہو، نے کبھی بھی سروسز کی فراہمی کی ذمہ داری نہیں اٹھائی۔ لیکن اس شرمناک ناکامی کو بڑے آرام سے سول ملٹری عدم توازن کے قالین کے نیچے چھپا دیا جاتا ہے۔ تاثر یہ جاتا ہے کہ۔۔۔۔ بس اگر کہیں اسٹیبلشمنٹ جمہوری حکومت کے خلاف سازش نہ کرتی تو۔۔۔۔، یا اگر اسے اپنی مدت پوری کرنے کا موقع دیا جاتا، وغیرہ۔

اسی طرح کوئی ادارہ بھی اپنی اصل ذمہ داری کی بابت خود کو احتساب کے لئے پیش کرنے پر تیار نہیں۔ تاریخی طور پر کبھی کسی سے سیکورٹی پالیسی میں ناکامی پر باز پرس نہیں ہوئی۔

یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ ہمیں مسلسل سیکورٹی مسائل کا سامنا رہتا ہے، اور ہم بڑے فخر سے دنیا کو بتاتے ہیں کہ ہم نے دہشت گردی کی جنگ میں سب سے زیادہ فوجیوں اور شہریوں کی قربانی دی ہے۔ اگر نیشنل سیکورٹی کا ناقدانہ جائزہ لیا جائے تو اس میں عقل اور دانائی کا فقدان واضح طور پر دکھائی دےگا، لیکن ہمارے ہاں اس کا تجزیہ کرنے یا ناقدانہ جائزہ لینے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے جوانوں کے حوصلے پر برا اثر پڑے گا۔ اس عمل کو فوج کی ساکھ داغ دار کرنے کی سازش قرار دیا جاتا ہے۔

عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری انصاف کی فراہمی ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ ہمارا جسٹس سسٹم کس قدر ناقص ہے۔ ہر چند سالوں بعد ہمارے ہاں جوڈیشل فعالیت کی لہر اٹھتی ہے، لیکن دیگر مسائل چھوڑیں، ا س سے جوڈیشل سسٹم کے اپنے نقائص بھی دور نہیں ہوپاتے۔ سروسز کی فراہمی میں جوڈیشل سسٹم بھی گورننس سے بہتر نہیں۔ تقرریوںاورتبادلوں کے حوالے سے جوڈیشل سسٹم بھی اتنا ہی پسند ناپسند کا خیال رکھتا ہے جتنا ایگزیکٹو۔ یہاں آپ ایگزیکٹو کو جو کچھ مرضی کہہ لیں لیکن اگر عدلیہ کی طرف انگشت نمائی کی تو خیر نہیں۔

 208 ملین نفوس پر مشتمل اس ملک، جس میں نوجوان کی کثرت ہے، کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اداروں کی محاذآرائی کا شغل مسلسل جاری نہیں رکھ سکتا۔ موجودہ جنگ اور سازشیں ایک ساتھ نہیں چل سکتیں۔ کیا ہمارے اداروں کی قیادت کرنے والے افراد میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ شخصیت اور ذاتی تعصبات سے بلند ہوکر ایک وسیع تر منظر نامے کو دیکھیں اورملک وقوم کی بہتری کو ہر چیز پر مقدم سمجھیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بابر ستار

بشکریہ روز نامہ جنگ

babar-sattar has 43 posts and counting.See all posts by babar-sattar