روہنگیا سب سے زیادہ ستائی ہوئی اقلیت ہے!


امن کا نوبیل انعام پانے والی آنگ سانگ سوچی کی ناک کے عین نیچے روہنگیا جل رہے ہیں، مر رہے ہیں، بین الاقوامی میڈیا کو وہاں جانے کی اجازت نہیں اور محترمہ سوچی خاموش تماشائی ہیں۔

برما کا ملک، جسے اب میانمار کہا جاتا ہے بنگلہ دیش، بھارت، تھائی لینڈ، لاؤس اور چین کی سرحدوں سے لگتا ہے۔ برما کی تاریخ بھی جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سے زیادہ فرق نہیں۔ کالونیل دور میں بننے والی فوج، آج بھی اپنی سرحدوں میں بسنے والوں پر ریاست کے نام پر ظلم کرنے میں ماہر ہے۔

روہنگیا، سابق ارکان اور موجودہ رخائن میں موجود مسلمان گروہ ہے جو خود کو عرب جہاز رانوں کی نسل سے بتاتا ہے۔ ان کی تعداد اندازاً 10 لاکھ سے زائد ہے۔ 1982 کے برمی شہریت کے قانون کے مطابق، وہ لوگ جو 1823 کے بعد برٹش انڈیا کے کسی علاقے سے یہاں آئے، برما کے شہری نہیں ہیں۔

ان کو نہ تو سرکاری تعلیم کی سہولت مل سکتی ہے، نہ ہی سرکاری نوکری اور نہ ہی یہ عام شہری کی طرح آزادانہ گھوم پھر سکتے ہیں۔ ان کو بنگلہ دیشی مہاجر سمجھا جاتا ہے، حالانکہ، ان کے اپنے بیان کے مطابق اور بعض حوالوں سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ شاید 15 ویں صدی سے یہاں آباد ہیں۔

بدھ نیشنلسٹ ان کو غیر قانونی طور پہ بنگلہ دیش سے یہاں آ کے اس علاقے کو اس وقت کے مشرقی پاکستان میں شامل کرنے کی مبینہ سازش کا حصہ سمجھتے ہیں۔ 1982 کا شہریت کا قانون ایک فوجی جرنیل ہی کا بنایا ہوا ہے اور وہ روہنگیا کو میانمار کی باقی دس نسلوں میں شامل نہیں کرتے۔

اس طرح یہ دس لاکھ لوگوں کا ایک ایسا گروہ ہے، جو کسی ریاست کے رہائشی نہیں۔ میانمار میں 1962 سے 2010 تک مارشل لا لگا رہا اور اس دوران کئی بار روہنگیا کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا۔ نوے کی دہائی میں کیے جانے والے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ہزاروں روہنگیا بنگلہ دیش بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ بنگلہ دیش کے علاوہ یہ لوگ، پاکستان، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، ملائیشیا اور سعودی عرب وغیرہ میں بھی پناہ گزین ہیں۔

میانمار کی حکومت ‘روہنگیا’ کی بجائے انھیں بنگالی ہی کہتی ہے اور وہاں یہ مختلف کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق بدھ قوم پرستوں کے شدت پسند رویے کے ساتھ ساتھ انھیں برمی فوج کی طرف سے، قتل و غارت، قید، بدسلوکی اور دیگر مظالم کا بھی سامنا ہے۔ انسانی حقوق کی انجمنیں ان مظالم کو ‘انسانیت کے خلاف مظالم’ قرار دے رہی ہیں۔

اکتوبر 2015 میں لندن کی کوئین میری یونیورسٹی کے کچھ محققوں نے ایک رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ کے مطابق میانمار حکومت کے زیرِ سر پرستی، روہنگیا کی باضابطہ نسل کشی آخری مراحل میں ہے۔

حالیہ صورتِ حال یہ ہے کہ روہنگیا کی مبینہ ‘حرکۃ الیقین’ نے برما کی فوج پہ حملے کیے اور اس ابھرتی ہوئی مسلح مزاحمت کو دبانے کے لیے، میانمار کی فوج طاقت کا بے دریغ استعمال کر رہی ہے۔ جن حالات میں روہنگیا، برسوں سے رہ رہے ہیں، ان میں کسی مسلح گروپ کا پنپنا کوئی حیرت انگیز بات نہیں۔

یہ بھی کوئی حیران کن بات نہیں کہ یہ مسلح گروہ انسانی ڈھال استعمال کرنے کے لیے، آبادیوں میں چھپ جاتے ہیں، تاکہ ان پہ حملہ کرنے کی صورت میں خوفناک سے خوفناک انسانی المیہ جنم لے اور دنیا کی نظریں اس مسئلے کی طرف اٹھیں۔ میانمار کی فوج نے کل ہی 2600 سے زیادہ گھر جلا دیے اور ایک بار پھر روہنگیا کی ایک بڑی تعداد بنگلہ دیش میں پناہ لینے پہ مجبور ہو گئی ہے۔

ان بے گھر، بے در لوگوں کے لیے انسانی حقوق کی انجمنیں اور اقوامِ متحدہ کچھ بھی کرنے سے اس لیے معذور ہیں کہ حکومت اس معاملے کو ایک داخلی معاملہ قرار دے کر، کسی بھی طرح کی رپورٹنگ تک نہیں کرنے دے رہی۔ جو اطلاعات موصول ہوئیں ان کے مطابق، روہنگیا خواتین کی گینگ ریپ، عورتوں بچوں اور مردوں کو قتل کرنا، مساجد، سکول اور گھروں کو جلانا، فوج اور فوج کی سر پرستی میں جاری ہے۔ اور شاید اس وقت تک جاری رہے گا جب سارے روہنگیا، یا تو مر نہیں جاتے یا کسی اور ملک فرار نہیں ہو جاتے۔

مجھے تھائی لینڈ میں ابلی ہوئی مکئی بیچتی وہ روہنگیا عورت کبھی نہیں بھولے گی، جس کے پیر فیل پا سے سوجے ہوئے تھے اور وہ ٹوٹی پھوٹی اردو بھی بول رہی تھی۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تم مسلمان ہو؟ تو اس نے پہلے نفی میں سر ہلایا، پھر ہاں میں اور پھر نفی میں۔ اس کے چہرے پہ کسی لائٹ ہاؤس پہ ذرا سی دیر پناہ لینے والے پرندے کی سی تھکن تھی، اس نے صرف ایک لفظ بولا ‘روہنگیا’ اور جب وہ ڈوبتے سورج کی روشنی میں ساحل سے دور جا رہی تھی تو مجھے سلطان باہو کے اس شعر کی تفسیر لگی

شالا مسافر کوئی نہ تھیوے، ککھ جنہاں تھیں بھارے ہو

تاڑی ما ر اڈا نہ باہو، اسیں آپے اڈن ہارے ہو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).