روہنگیا کے مسلمان اور امن کی پیامبر آنگ سانگ سوچی


ہم کس کس کی بات کریں۔ کس کس کا روئیں۔ ہم کہیں اپنے ہاتھوں سے کہیں غیر کے سازشوں سے لاشوں پر لاشیں اٹھا رہیے ہیں۔ تباہی پر تباہی دیکھتے ہوئے عبرت کے نشان بن رہے ہیں۔ یمن سے لے کر شام، عراق، افغانستان اور پاکستان تک پوری مسلم امہ خون سے لت پت ایک اندوہناک تصویر بنا ہوا ہے۔ سیاسی اہداف میں تقسیم ہماری مسلم ریاستیں سعودی عرب اور ایران کے صفوں میں بٹی لٹک رہی ہیں۔ ایسے میں 1948 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے والے پانچ کروڑ چیالیس لاکھ آبادی والے بنگلہ دیش، بھارت، تھائی لینڈ، لاوس اور چین سے ملتی سرحدوں کی 87 فیصد آبادی پر مشتمل بدھسٹ ریاست میانمار کے صوبے رخائن میں 4 فیصدی کے حساب سے گیارہ لاکھ مسلمان باسیوں کا جینا دوبھر کر دیا گیا ہے۔ اس کے ریاستی جبر کے نہ ختم ہونے والا سلسلے کا صرف ایک ہی دلیل ہے۔ کہ یہ لوگ 1824 سے لے کر 1948 تک بھارت اور بنگلہ دیش سے برطانوی راج کے دوران آئے تھے۔ جس وقت میانمار کی حیثیت برصفیر کے ایک صوبے کی تھی۔ ہیومن رائٹس واچ کے رپورٹ کے مطابق اس ہجرت کو میانمار ریاست نے ”غیر قانونی“ قرار دیا ہے۔ لہذا ان کا موقف بالکل واضح ہے۔ کہ 1823 کے بعد انے والوں کو شہریت ملنے کا کوئی حق نہیں۔ دوسری طرف تاریخ دانوں اور روہنگیا کے مسلمانوں کا کہنا ہے۔ کہ وہ بارہویں صدی عیسوی سے یہاں رہ رہے ہیں۔

میانمار کے مغربی ساحلی ریاست رخائن میں مسلم کش فسادات کی تازہ ترین کڑی میں گزشتہ ایک ہفتہ میں ریاستی فوج کے ہاتھوں 2600 گھر جلائے گئے ہیں۔ اور اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی ار کے مطابق تقریباً58000 روہنگیا مسلمان گھر بار چھوڑ کر بنگلہ دیش جاچکے ہیں۔ قابل تشویش بات یہ ہے۔ کہ بین الاقوامی میڈیا کو اسے اپنا اندرونی مسئلہ کہہ کر نہیں چھوڑ رہے۔ تو ایسے میں اس اقلیتی آبادی پر کیا کچھ نہیں بیت رہا ہوگا۔ اس کا تصور کرنا ہی محال ہے۔

اس سے تشویشناک اور خطرناک بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ کہ 1990 سے اب تک بنگلہ دیش میں چار لاکھ۔ مسلمان پناہ لے چکے ہیں۔ اکتوبر 2015 میں لندن کے کوئین میری لینڈ یونیورسٹی کے کچھ محقیقن نے ایک رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ کے مطابق میانمار کی حکومت کے زیر سرپرستی روہنگیا کی باضابطہ نسل کشی آخری مراحل میں ہے۔
میانمار میں 1982 میں باقاعدہ شہریت کا قانون پاس کیا گیا۔ جو روہنگیا کو اس کی باقی دس ملکی نسلوں میں شامل نہیں کرتے۔

روہنگیا کے مسلمان آج بھی انسانی زندگی کی سہولتوں سے کوسوں دور تعلیم، سیاسی و سماجی حقوق سے محروم نہایت ہی کمپرسی کی زندگی ایسے لیڈر کی حکمرانی میں گزار رہے ہیں۔ جس کا نام آنگ سانگ سوچی ہے۔ یہ خاتون امن کا نوبل انعام یافتہ بھی ہے۔ اور خود کو امن کا پیامبر کہنے کے باوجود نہ صرف اس کے دور حکومت میں مسلمانوں پر جبر واستبداد کی تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ بلکہ امن کا نوبل انعام دینے والوں کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ بھی ہے۔ جو ایسے لوگوں کو امن کا انعام دیتی ہے۔ جن کا امن سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

ادھر بین الاقوامی برادری، او ائی سی کی بے جان اور بے اثر کردار صرف اور صرف مسلمانوں سے ہمدردی تک ہی محدود رہی ہے۔ اور اقوام متحدہ اس سیاہ باب کو بند کروانے میں مکمل ناکام نظر آ تے ہوئے اس کے جنرل سیکرٹری انٹونیو گو ٹیرس صرف اسے امن کے لئے خطرہ قرار دے کر خاموش تماشائی بیٹھے ہوئے ہیں۔
اخر ان بین الاقوامی قوتوں و تنظیموں، مسلم برادری، اور اقوام متحدہ کی حیثیت اور اہمیت کہاں رہ جاتی ہے۔ ان کے ہوتے ہوئے ایسے ظلم کے پہاڑ ڈھانے سے کیا ان کا نہ ہونا بہتر نہیں ہوگا؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).