ڈنگر چوپایہ نہیں، ایک کیفیت کا نام ہے


سب تعریف خدائے بزرگ و برتر کے لئے ہے اور اس کے بعد چوہدری نثار علی خان صاحب کا تشکر واجب ہے۔ 27 جولائی کی شام ایک پریس کانفرنس میں چوہدری صاحب نے فرمایا کہ ملک عزیز کو شدید خطرات لاحق ہیں اور صرف پانچ افراد اس بارے میں آگاہ ہیں۔ اپنی طویل سیاسی زندگی میں چوہدری صاحب سے یہ ایک کاشف الاسرار اور مبنی بر حقیقت جملہ سرزد ہوا۔ بعد کے حالات و واقعات سے معلوم ہوا کہ چوہدری صاحب نے ملک بھر میں باخبر افراد کی تعداد بتانے میں غالباً مبالغے سے کام لیا تھا۔ غضب خدا کا، ایک نہ دو، پورے پانچ اور بااختیار افراد ملک عزیز کو لاحق خطرات سے آگاہ تھے، اس کے باوجود ایک ایسا قدم اٹھایا گیا جس کے بعد اکیس کروڑ افراد ایک دوسرے سے عالمگیر جنتری کا نسخہ مانگ رہے ہیں تا کہ معلوم کیا جا سکے کہ ہم ستمبر 2017ء میں ہیں یا ابھی جولائی 1977ء میں زلیخائی کر رہے ہیں یا پھر سے اکتوبر 1958ء میں پہنچ گئے ہیں۔ خطرات کی بھی ایک ہی کہی۔ خطرات کیا، ناقابل بیان حد تک گمبھیر بحران ہیں اور ایسے منہ زور کہ ’نیند کی مار کھائے ہوئے بازوؤں میں سنبھلتے نہیں‘۔ اللہ ! اللہ! ملک پر ایسی افتاد اور چوہدری نثار علی خان کا موقف ہے کہ انہوں نے ازخود کابینہ میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ وجہ جو بیان کی، اس کے کیف و کم کا فیصلہ تو مورخ کرے گا، آج کا آوازہ تو یہی ہے کہ ’گلی ہم نے کہا تھا، تم تو دنیا چھوڑے جاتے ہو‘۔ خیال بھٹک بھٹک جاتا ہے۔ ایک نہایت غیر متعلقہ سطر گیبریل لاؤب کی یاد آ گئی، موصوف چیک نژاد ادیب تھے، پولینڈ میں پیدا ہوئے اور 1998 میں چل بسے۔ فرمایا کہ چوہوں کو ڈوبتے ہوئے جہاز سے کود جانے پر مطعون کیوں کیا جاتا ہے؟ ڈوبتے ہوئے جہاز میں چوہے کر ہی کیا سکتے تھے؟ یہ ایک حوالہ اہل ذوق کی تسکین کے لئے درج کیا گیا۔ اس کا چوہدری نثار علی خان، فیصل صالح حیات، چوہدری نذر محمد گوندل اور فردوس عاشق اعوان سے کوئی تعلق نہیں۔

کالم لکھنے کا نسخہ کیا ہے۔ کچھ واقعاتی حقائق بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ کچھ بدگمانیاں، کچھ خوش فہمیاں، کچھ ممکنہ نقشے، کچھ خدشات…. دل سے نکلی ہے تو کب لب پہ فغاں ٹھہری ہے…. مشکل یہ آن پڑتی ہے کہ بہار کہیں پیچھے رک جاتی ہے اور خزاں ہمارے دروازے پر ٹھہر جاتی ہے۔ کالم لکھنے والے کے دست دعا میں سوال رکھ دیے جاتے ہیں۔ آج کے سوالات بیشتر آئوٹ آف کورس ہیں۔ ٹرمپ صاحب اس وقت جنوبی کوریا سے جھونجھ رہے ہیں لیکن افغانستان اور جنوبی ایشیا کے بارے میں ان کی پالیسی بیان کی جا چکی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس فہرست میں آئندہ اندراج کیا ہو گا، کب ہو گا اور کہاں ہو گا۔ ہمارے آرمی چیف نے حقانی نیٹ ورک کے بارے میں کچھ حوصلہ افزا اشارے دیے ہیں۔ لیکن بات کیا یہیں رک جائے گی۔ یہ تو ایک پھیلا ہوا منظر ہے۔ ٹیلی ویژن کی اسکرینوں پر دھاڑتے تجزیہ کار تو کچھ اور زبان بول رہے ہیں۔ اخبارات میں انشا پردازی کے جوہر دکھائے جا رہے ہیں، ایسا نہ ہو کہ قومی قیادت اگے چل کر جذباتی رائے عامہ کے جال میں پاؤں پھنسا بیٹھے۔

اس الجھن کے آخری سرے پر دو سوال رکھے ہیں، کیا ہم نے واقعی تسلیم کر لیا کہ ایک پرامن اور مستحکم افغانستان پاکستان کے حتمی مفاد میں ہے۔ دوسرا سوال یہ کہ ہم بھارت کے ساتھ معاملات میں خطر پسندی سے کام لینا چاہتے ہیں یا معمول کے تعلقات کی مدد سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ برادر عزیز تو صاف صاف کہتے ہیں کہ بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کی خواہش میاں نواز شریف کو لے ڈوبی۔ تو کیا نواز شریف واقعی ڈوب گئے؟ ابھی ان کی پارلیمانی جماعت میں کسی اہم شکست و ریخت کے آثار نظر نہیں آئے۔ جی ٹی روڈ پر اپنی سیاسی مقبولیت کا مظاہرہ کر کے نواز شریف نے متزلزل ارادوں کو گویا لگام ڈال دی۔ اس میں امکانات بھی ہے اور خدشات بھی۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ جن قوتوں نے پانامہ کا پانسہ پھینکا ہے وہ حتمی طور پر چاہتی کیا ہیں؟ اس میں عدالت عظمیٰ کا دخل حرف دستور کی تشریح کا ہے۔ ان کا جو کام ہے وہ اہل جراحت جانیں۔ سیاست کے فیصلے کمرہ عدالت میں نہیں ہوتے۔ کیا 2018 میں عام انتخابات منعقد ہوں گے؟ اکتوبر 1958 میں ہم ملک کے پہلے عام انتخابات سے صرف چار ماہ کے فاصلے پر تھے جب دستور کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا۔ بارہ برس بعد، چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا۔ اگر انتخابات منعقد ہونا ہیں تو نگران حکومتیں بھی تشکیل پائیں گی۔ ان حالات میں نگران حکومتوں کے لئے کون کس سے بات کرے گا؟ ہمارے پیران فرتوت تو ٹیکنو کریٹ حکومت، قومی حکومت اور عبوری بندوبست کے لئے اتاؤلے ہو رہے ہیں۔ حضور، آپ کے دست کرشمہ ساز سے اعجاز برآمد ہو سکتا ہے لیکن خیال رہے کہ ہمارا وفاق دستور کے کچے دھاگے سے بندھا ہے۔ سر پر آئین کا سائبان نہ رہا تو انتشار پسند طبائع کو من مانا میدان میسر آ جائے گا۔ عیدالضحیٰ کی صبح سندھ میں صوبائی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن پر قاتلانہ حملہ معمولی بات نہیں۔ خیر گزری لیکن آنکھ جھپکنے میں ایک بڑی تباہی کا دروازہ کھل سکتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تباہ کاری پر مامور قوتیں بدستور سرگرم عمل ہیں۔ ایسے میں سیاسی قوتوں کے درمیان اعتماد اور افہام و تفہیم کی کہیں زیادہ ضرورت تھی، ہم نے کشمکش کے چوگان کا دروازہ کھول دیا ہے۔

دو نکات آپ کی توجہ کے مستحق ہیں۔ دنیا بھر میں ریاستیں اپنے عوام سے کچھ نہ کچھ جھوٹ بولا کرتی ہیں۔ تاہم فیصلہ سازوں سے توقع کی جاتی ہے کہ انہیں حقیقت پر گرفت حاصل ہو گی۔ ہمارا علانیہ موقف کثرت وظیفہ کے باعث متروک کی حدود میں داخل ہو چکا۔ اب ہم اپنے بولے اور کہے الفاظ کے اسیر ہو رہے ہیں۔ اڑچن یہ ہے کہ دنیا ہمارے موقف پر قائل نہیں ہو رہی۔ ہمارے سامنے ایک راستہ ہو گا کہ دفتر خارجہ کو قربانی کا بکرا بنا دیں۔ سفارت کار ہمارے لئے وہی خوش خبری لا سکتے ہیں جسے خریدنے کا مول ہم ان کی جیب میں رکھیں گے۔ سفارت کاری کی میز پر چمتکار نہیں ہوتے۔ لوہے پتھر کے بے جان اور طوطا چشم حقائق سے کام لینا پڑتا ہے۔

دوسرا نکتہ یہ کہ قومی ترجیحات میں معیشت پر حقیقت پسند غور و فکر کی ضرورت ہے۔ نعرے اور پالیسی میں واضح فرق کرنا چاہیے۔ گھات اور راہداری کا فرق سمجھنا چاہیے۔ حرف خوشامد اور نوشتہ دیوار میں امتیاز کرنا چاہیے۔ عالمی حالات ایک پگھلاو¿ کی کیفیت میں ہیں۔ اگر محض زور آوری اور طاقت آزمائی کا کھیل ہو تو امریکا میں ٹرمپ صاحب بیٹھے ہیں، بھارت میں مودی صاحب ہیں، روہنگیا مسلمانوں پر ٹوٹنے والی قیامت سے کسی کو غرض نہیں۔ روس اور چین نے فی سبیل اللہ دسترخوان نہیں کھول رکھا۔ راستہ تو ہمیشہ موجود رہتا ہے لیکن سوال یہ کہ ہم نے اپنے لئے کیا ہدف مقرر کیا ہے۔ پنجابی شاعر تجمل کلیم کا ایک شعر سن لیجئے۔ وضاحت کر دی جائے کہ پنجابی لفظ ڈنگر سے مراد چوپایہ یا درندہ نہیں، یہ ایک کیفیت کی طرف اشارہ ہے ۔
ڈاہڈا ڈنگر چھڈ دیندا اے
نئیں تے کنک ودھیری اگے
(ہمارے کھیتوں میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار بڑھائی جا سکتی ہے لیکن زور آور کھڑی فصل میں اپنے مویشی چھوڑ دیتا ہے۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).