گہری محبت کرنے والے کون ہیں؟


میری بچپن کی بہت سی یادوں میں سے ایک یاد اپنے والد عبد الباسط کا اپنے شاعر بھائی عارف عبدالمتین کو دس سے پندرہ صفحوں کے طویل خط لکھتے دیکھنا تھا۔ اس وقت تک میرے والد ایک صوفی منش انسان بن چکے تھے جبکہ میرے چچا جان ایک سوشلسٹ شاعر تھے۔ میرے چچا جان نے کبھی میرے والد کے خطوط کا جواب نہیں دیا۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ میں نے اپنے والد کوچھیڑنے کے لیے کہا ’ابا جان عارف چچا آپ کے خطوط کا جواب اس لیے نہیں دیتے کیونکہ وہ ان خطوط کو پڑھتے ہی نہیں ہیں.‘ انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’ بیٹا یہ محبت نامے ہیں کاروباری خطوط نہیں ہیں۔ ‘

میرے والد کے طویل خطوط کی متواتر وصولی کے دس برس کے بعد جب میرے چچاجان نے اپنی نظموں کا نیا مجموعہ شایع کیا تو اس کو میرے والد کے نام منسوب کر دیا۔ ان کے اس عمل نے مجھ پر ثابت کر دیا کہ انہوں نے نہ صرف وہ خطوط پڑھے بلکہ بہت غور سے پڑھے اور ان سے بہت متاثر بھی ہوئے تھے. بعد میں میرے چچا جان بھی ایک صوفی شاعر بن گئے۔

میں ایک طویل عرصے تک اپنے والد کے طویل خطوط کے بارے میں سوچتا رہا۔ میرا خیال ہے بہت سے بھائی خطوط کا جواب نہ ملنے پر خط لکھنا چھوڑ دیتے مگر میرے والد نے ایسا نہیں کیا۔ میں سوچتا ہوں

کیا چیز ان سے خطوط لکھواتی رہی ؟

ان کو کس چیز نے متحرک رکھا ؟

ان کی دل شکنی کیوں نہیں ہوئی ؟

انہوں نے یہ سلسلہ کیوں نہیں روکا ؟

ایک طویل عرصے کے غور و فکر کے بعد میں جس نتیجے پر پہنچا ہوں وہ ہے گہری محبت.

میرے والد کو میرے چچا جان سے گہری محبت تھی. ان تمام بھائیوں سے زیادہ جن کو میں نے اپنی زندگی میں ایک دوسرے سے محبت کرتے دیکھا ہے.ان خطوط میں محبت کے ساتھ ساتھ فلسفہ بھی تھا۔ میرے والد نے ان خطوط میں اپنا علم‘ تجربہ اور ذہانت نچھاور کردیے تھے۔ انہوں نے ان خطوط میں اپنی روحانی فکر بھی شامل کی تھی۔ اسی لیے اک بار میرے چچا جان نے مجھ سے کہا تھا ’ تمہارے والد چاہے عمر میں کم ہوں مگر دانائی میں مجھ سے بڑے ہیں۔ ‘

انسانی نفسیات کے اک طالب علم ہونے کی حیثیت کے میں نے اپنے آپ سے پوچھا کہ ’ میرے والد نے اپنے اندر اتنے گہری محبت کو کیسے پروان چڑھایا؟‘ میرا خیال ہے اس کا تعلق ان کے نفسیاتی بحران سے ہے۔اس بحران کے بعد انہوں نے معرفت کی راہ اختیار کی۔ اہل خانہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے ذہنی توازن کھو دیا ہے وہ سمجھتے تھے انہوں نے اپنا خدا پا لیا ہے۔ خاندان والے سمجھتے تھے ان کا NERVOUS BREAKDOWN ہوگیا ہے لیکن ان کو کامل یقین تھا کہ ان کا SPIRITUAL BREAKTHROUGH ہوا ہے۔ لوگ انہیں صوفی صاحب کہنے لگے۔ جب وہ صوفی بنے تو ان کی محبت میں گہرائی پیدا ہوئی۔۔ ان کی اس گہری محبت سے مستفید ہونے والوں میں ان کے بھائی کے ساتھ ساتھ میں بھی شامل رہا۔

اب جب کہ میں اپنے والد کے ذہنی بحران ‘ معرفت اور ان کی گہری محبت کے بارے میں سوچ رہا ہوں تو مجھے بچپن کا وہ واقعہ یاد آرہا ہے جب ہمارے ہمسائے اپنے احاطے میں ایک کنواں کھودنے کی کوشش کررہے تھے۔ ایک بچے کی حیثیت سے میں اس کھدائی کو بڑے شوق سے دیکھ رہا تھا۔ چونکہ ہمارے علاقے میں پانی نہیں تھا اور لوگ قریب کے ایک دریا سے پانی بھر کر لاتے تھے اس لیے ہمسایوں کے لیے یہ بہت اہم تھا کہ کنواں کھودا جائے۔ چند فٹ کھودنے کے بعد ہم سب کو پانی نظر آیا۔ میں بہت خوش ہوا اور سمجھا ہمارا کام پورا ہوگیا مگر میرے والد نے مجھے بتایا کہ نہیں ابھی لوگوں کو اور کھودنا پڑے گا چونکہ ابھی جو پانی ہے وہ کپڑے دھونے کے لیے تو ٹھیک ہے مگر اتنا صاف نہیں کہ پینے کے لیے استعمال کیا جاسکے۔ بیس فٹ کی اور کھدائی کے بعد پانی کی اک اور گہری سطح نظر آئی جس کا پانی اتنا صاف تھا کہ لوگ اسے پی بھی سکتے تھے۔

کبھی کبھار میں سوچتا ہوں کہ شاید لوگوں کے دلوں میں بھی دو طرح کی محبت ہوتی ہے۔ سطحی محبت اور گہری محبت۔ زیادہ تر لوگ صرف سطحی محبت کرسکتے ہیں۔ جب کہ میرے والد کی طرح چند لوگ گہری محبت کرنے کے قابل ہوتے ہیں اور کبھی کبھار ان لوگوں کو اس گہری محبت تک پہچنے کے لیے ایک بحران‘ ایک امتحان اور ایک آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے۔ کچھ لوگ اس گہری محبت تک زندگی کے تجربات سے خود پہنچ جاتے ہیں۔ اور کچھ کو کسی استاد یا ماہر نفسیات کی ضرورت پڑتی ہے.میری خوش قسمتی ہے کہ میں ایک تھیریپسٹ بن سکا اور پچھلے تیس برسوں سے اپنے مریضوں کے نفسیاتی مسائل حل کرنے اور گہری محبت تک رسائی میں ان کی مدد کرتا رہا ہوں۔ میں انہیں گہری محبت کا تحفہ اس لیے پیش کر سکتا ہوں کیونکہ میں نے وہ تحفہ اپنے والد سے حاصل کیا ہے۔

میرا ایک شعر ہے

میں اپنی ذات کی گہرائیوں میں جب اترتا ہوں

اندھیروں کے سفر میں روشنی محسوس کرتا ہوں

جو لوگ اس روشنی تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں وہ گہری محبت کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔

)ترجمہ۔۔۔۔خالد سہیل اور زہرا نقوی(

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail