’تم منٹو کو نہیں جانتے‘ (مکمل کالم)


’چراغوں کا دھواں‘ میں انتظار حسین نے منٹو کے متعلق ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے، انہی کی زبانی سنیئے : ”جلسہ ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ لوگ رفتہ رفتہ آ رہے تھے۔ مگر منٹو صاحب پہلے سے آئے بیٹھے تھے۔ منٹو صاحب کو میں نے اس سے پہلے کبھی نہ انجمن کے جلسہ میں دیکھا تھا نہ حلقہ کے جلسے میں۔ جانے کس رو میں یہاں آ گئے تھے۔ پروگرام میں ان کا افسانہ تو تھا نہیں۔ یا شاید ہو۔ اگر پروگرام میں ان کا افسانہ تھا تو وہ بہرحال پڑھا نہیں گیا۔ منٹو صاحب نے محفل ہی کو تہہ و بالا کر دیا۔ جلسہ کی کارروائی کا آغاز ہوا۔ صدارت کے لیے حمید اختر نے وجیہہ الدین احمد کے نام کا اعلان کیا۔ وجیہہ الدین احمد اپنے بھاری تن و توش کے ساتھ کرسی صدارت پر بیٹھے ہی تھے کہ منٹو صاحب نے حمید اختر سے پوچھا ’جناب کی تعریف۔‘

حمید اختر بیچارے سٹپٹا گئے۔ بولے ’وجیہہ الدین احمد ہیں۔ مولانا صلاح الدین احمد کے صاحبزادے۔‘
’مولانا صلاح الدین احمد تو خیر ہوئے۔‘ منٹو صاحب بولے ’مگر یہ کون صاحب ہیں۔‘

وجیہہ الدین احمد کی سمجھ میں پہلے تو کچھ نہ آیا کہ کیا کہیں۔ آخر جوابی حملہ کیا۔ بولے ’اور آپ کون صاحب ہیں۔‘

’میں کون صاحب ہوں۔ تم منٹو کو نہیں جانتے۔‘

پیچھے کی صفوں میں اچانک کھلبلی ہوئی۔ ضیا جالندھری بیچ میں سے کھڑے ہوئے اور منٹو صاحب کے رویے پر احتجاج کرنے لگے۔ منٹو صاحب بھی اب کھڑے ہو گئے تھے۔ پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ ”

یہ تھے سعادت حسن منٹو، لا ابالی طبیعت اور باغیانہ مزاج کے مالک، اردو کے منفرد اور اچھوتے ادیب۔ آج جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو 18 جنوری ہے، آج کے دن منٹو صاحب کا لاہور میں انتقال میں ہوا تھا۔ منٹو کی رہائش لاہور کی ہال روڈ کے پہلو میں واقع لکشمی مینشن کے ایک چھوٹے سے مکان میں تھی۔ کچھ عرصہ پہلے میں یہ جگہ دیکھنے گیا تاکہ منٹو کا مکان تلاش کر سکوں مگر مجھے وہاں منٹو کی کوئی نشانی نظر نہیں آئی، بعد میں کچھ خبریں نظر سے گزریں کہ شاید وہ عمارت ہی مسمار کر دی گئی ہے یا اس کی جگہ پلازہ بنا دیا گیا ہے، واللہ اعلم۔

کوئی اور ملک ہوتا تو یہ جگہ قومی ورثہ قرار پاتی، منٹو کے نام کا یہاں عجائب گھر ہوتا، ان کے نام سے سڑک منسوب ہوتی اور لکشمی مینشن پر گہرے نیلے رنگ تختی نصب ہوتی جو اس بات کی نشانی ہوتی کہ یہ جگہ تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ انٹر نیٹ پر ایک تصویر البتہ نظر سے گزری جس میں منٹو کے نام کی تختی ایک مکان کے باہر نصب نظر آ رہی ہے، خدا جانے یہ کب کی ہے اور پتا نہیں یہ مکان اب موجود بھی ہے یا نہیں۔ پراگ، کافکا کا شہر ہے، اس پورے شہر پر کافکا کی چھاپ نظر آتی ہے، کہیں اس کا مجسمہ ایستادہ ہے تو کہیں اس کے نام کا کیفے ہے، کہیں میوزیم ہے تو کہیں کافکا کے سوینئیر فروخت ہو رہے ہیں۔

میں پراگ میں کافکا کی قبر کی زیارت کر چکا ہوں مگر لاہور میں رہتے ہوئے میانی صاحب کے قبرستان میں منٹو کی قبر تلاش نہیں سکا حالانکہ سنا ہے کہ اس پر کتبہ لگا ہوا ہے۔ بمبئی کے بعد لاہور منٹو کا شہر تھا، مجھے علم نہیں کہ بمبئی نے منٹو کے ساتھ کیا سلوک کیا، میرا دکھ تو یہ ہے کہ لاہور نے منٹو صاحب کی کتنی عزت رکھی، مرنے کے بعد ہی سہی؟

اگر ہم اردو کے پانچ بڑے افسانہ نگاروں کی فہرست بنائیں تو ایسی لسٹ منٹو کے نام کے بغیر ادھوری ہوگی، لیکن اگر ہم تین بڑے افسانہ نگاروں کی فہرست بنائیں تووہ بھی منٹو کے بغیر مکمل نہیں ہوگی، حتٰی کہ اگر ہم صرف ایک نام پر مشتمل ایسی فہرست بنائیں تو اس میں بھی منٹو ہی کا نام شامل ہوگا۔ ایسا کیوں ہے؟ منٹو میں ایسی کیا بات ہے جو اسے بیدی، کرشن چندر، غلام عباس اور دیگر دیوقامت ادیبوں سے ممتاز کرتی ہے؟ اصل میں منٹو کے ہم عصر ادیبوں کی اکثریت ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھی، اس زمانے میں یہ تحریک بہت منہ زور تھی، کرشن چندر جیسے ادیب اور افسانہ نگار اس کا حصہ تھے اور ببانگ دہل ایک خاص مقصد کے تحت افسانے لکھتے تھے، مثلاً اگر انہوں نے ہندو مسلم فسادات کا احوال لکھنا ہے تو اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ افسانے میں جتنے ہندو مروائے جائیں اتنے ہی مسلمان قتل ہوں۔

شروع شروع میں منٹو صاحب بھی اس تحریک میں شامل تھے مگر بعد میں انہوں نے اس تحریک سے بغاوت کر دی، منٹو کا ماننا تھا کہ افسانے پارٹی آرڈر پر نہیں لکھے جاتے یا ادب کسی تحریک کے منشور یا کسی سکیم کے تحت تخلیق نہیں کیا جاتا اور کسی سے ڈکٹیشن لے کر کہانی نہیں لکھی جاتی۔ اس دور میں یہ نظریات رکھنا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ ان خیالات کی پاداش میں ترقی پسند ادیبوں نے منٹو کو تحریک سے علیحدہ کر دیا جس کی منٹو صاحب نے ذرا برابر پروا نہیں کی اور کپڑے جھاڑ کر اپنے کام میں جت گئے اور ترقی پسند تحریک کی سرپرستی کے بغیر ہی شاہکار کہانیاں تخلیق کر ڈالیں۔ منٹو اپنی کہانیوں میں ہندو، مسلم، سکھ کو بیلنس کر کے نہیں مارتے تھے، وہ جو دیکھتے تھے وہی لکھتے تھے اور بے خوف ہو کر ڈنکے کی چوٹ پر لکھتے تھے۔ یہی ان کی انفرادیت دی جس نے انہیں اپنے عم عصروں سے ممتاز کر دیا۔

ہمیں اپنے ادیبوں کا غیر ملکی ادیبوں سے موازنہ کرنے کا بھی خاصا شوق ہے تو لگے ہاتھوں یہ کام بھی ہو جائے۔ ادب کی باقی اصناف کا تو پتا نہیں البتہ افسانہ ہماری ادبی صنف نہیں تھی، یہ مغرب کی روایت تھی اور وہاں کئی صدیوں سے تھی، ہمارے ہاں داستانوں اور ان میں بیان کردہ ذیلی قصوں کی روایت تھی۔ مغربی ادب میں افسانے کا باقاعدہ ایک کسا ہوا پلاٹ ہوتا ہے، کہانی کا تانا بانا ہوتا ہے، کلائمکس ہوتا ہے اور پھر متحیر کردینے والا اختتام ہوتا ہے، ایسی شارٹ سٹوری قاری کو اپنے حصار میں جکڑ کر رکھتی ہے۔

یہ صنف ہندوستان میں انگریزی ادب اور روسی کہانیوں کے تراجم سے آئی، ہندوستانی ادیب اس قسم کے افسانے سے واقف نہیں تھے، تاہم بعد میں ساری ترقی پسند تحریک اس مغربی صنف سے متاثر ہوئی بلکہ یوں کہیے کہ ترقی پسندوں نے افسانے کی تکنیک گوگول (براہ کرام اسے گوگل نہ پڑھا جائے ) اور پشکن کی کہانیوں سے سیکھی۔ منٹو صاحب کا معاملہ بھی مختلف نہیں تھا، باری علیگ ان کے استاد تھے، وہ ایک اشتراکی ادیب تھے جو استعمار اور نو آبادیاتی نظام کے سخت مخالف تھے۔

انہوں نے منٹو کو روسی کہانیوں کے ترجمے کرنے کا مشورہ دیا اور یوں منٹو نے افسانے لکھنے سے پہلے روسی ادب کا ترجمہ کیا اور پھر یہیں سے ان کا اپنا قلم رواں ہو گیا۔ منٹو کے افسانوں میں سسپنس اور اچانک کسی بات کو آشکار کرنے کی جو خصوصیت ہمیں نظر آتی ہے وہ روسی ادب ہی کی دین ہے۔ کرشن چندر کی کہانی پڑھتے ہوئے آپ کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ آگے کیا ہوگا مگر منٹو اپنے قاری کو متجسس رکھتا ہے۔ رہی بات مغرب سے موازنہ کرنے کی تو منٹو یا اردو کا کوئی بھی دوسرا بڑا افسانہ نگار مغربی مصنفین کو بہت زیادہ متاثر کرنے میں کامیاب نہیں ہوا کیونکہ ان ادیبوں کے اردو افسانوں میں ایسا کوئی نیا اسلوب یا رنگ نہیں تھا جو اس سے پہلے مغربی ادب کے لیے اجنبی ہوتا۔

خالد حسن نے منٹو کا انگریزی ترجمہ کیا، اسے مغرب میں پسند بھی کیا گیا مگر ”واؤ“ نہیں کہا گیا۔ ایک اور وجہ جو شاید منٹو صاحب کی حد تک ہی درست ہو کہ منٹو صاحب پیدایشی فنکار تو تھے مگر بہت زیادہ محنتی نہیں تھے، اکثر تو وہ چند روپوں کے لیے ایک دو گھنٹے میں افسانہ لکھ مارتے تھے۔ ان تمام باتوں کے باوجود منٹو کے شاہکار افسانوں کی تعداد اردو کے کسی بھی دوسرے ادیب کے مقابلے میں زیادہ ہے اور یہ اعزاز سعادت حسن منٹو سے کوئی نہیں چھین سکتا۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada