عمران خان:  با الفاظ دیگر چند مزید اعترافات


ہزار ہا شکر اگر مسلم لیگ الیکشن 2013 میں دھاندلی نہ کرتی تو ہمیں حکومت مل جانی تھی اور ہم زیرو کارکردگی کی بیس پر کیسے 2018 الیکشن جیت سکتے؟ ہمیں تو مسلم لیگ اور خاص طور پر نواز شریف کا احسان مند اور شکر گذار ہونا چاہیے کہ انہوں نے وفاق پر حکومت کرنے سے ہمیں بچا لیا۔ اس کے برعکس ہم کتنے مار آستین اور احسان فراموش نکلے کہ ہم نے چھڑی اور ہتھوڑے کے ساتھ مل کر نواز شریف کو ٹرم بھی پوری نہیں کرنے دی۔ آپ سب جانتے ہیں اس کی کئی وجوہات ہیں۔

اگر وہ ٹرم پوری کر لیتا تو:

الف۔ 2018 کا الیکشن وہ جیت جاتا اور ہم نا سمجھ اور نا تجربہ کار ٹیم کے ساتھ مزید ووٹر کی آنکھ میں دھول نہیں جھونک سکتے تھے۔ اور چھڑی اور ہتھوڑا بھی ہمارے لئے کچھ نہیں کر پاتے۔

ب۔ جنرل الیکشن 2018 سے پہلے سینٹ کا الیکشن مارچ 2018 میں ہونا تھا۔ نواز شریف نے سینٹ میں اکثریت حاصل کر لینی تھی۔ پھر قانون سازی ہمارے لئے اور بھی مشکل ہو جاتی اور چھڑی اور ہتھوڑا یہاں بھی ہمارے لئے کچھ نہیں کر پاتے۔ ویسے ایک اور اعتراف بھی کرتے چلیں کہ اس میں صرف ہم ہی قصور وار نہیں ہیں جس چھڑی سے ہم ہانکے جا رہے تھے اس کو بھی نواز شریف کی سول سپریمیسی کی دیمک لگی ہوئی تھی اور وہ اپنے لے پالک لشکروں، جیشوں اور سپاہوں کو خطرے میں دیکھ رہے تھے۔ اب یہ اور بات ہے کہ اس وقت پوری دنیا ہم سے انہی لشکروں اور جیشوں سے تنگ آ کر ہمیں تنہا کر رہی ہے اور ہم نے مل کر جو نواز مودی کارڈ کھیلا تھا وہ الٹا ہمارے گلے پڑ گیا ہے۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن

پ۔ پاور پراجیکٹس جو ہماری حکومت میں لگنے چاہیے تھے وہ نواز شریف نے لگا دیے اور جب ہم ستمبر 2017 میں یہ اعتراف کر رہے ہیں اپنی ناکامیوں کا، وہ پراجیکٹس اگلے چھ مہینے میں ہزاروں میگاواٹ بجلی سسٹم میں داخل کر چکے ہوں گے۔ اور ہم بتاتے چلیں کہ لاہور میں اس وقت زیرو لوڈ شیڈنگ ہے اور اسی طرح باقی شہر بھی عنقریب اس عفریت میں سے نکل جائیں گے۔ لیکن کیا ہے کہ ہم نے یہ اپنے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ یہ اعترافات ہم عالم بالا میں جا کر کریں گے مگر جھوٹ بولتے اور قوم کو گمراہ کرتے کرتے بہت سا وقت گزر گیا ہے جس کا ہمیں احساس و اعتراف اسی دنیا میں کرنا پڑ گیا ہے جس کے لئے ہم شرمندہ ہیں۔

ت۔ ہم پچھلے 7 سالوں سے جس نام نہاد پاشائی، ظہیری اور راحیلی تبدیلی کا واویلا مچاتے آ رہے تھے اور جس تواتر کے ساتھ جھوٹ بولے جا رہے تھے اس کا ڈراپ سین تو ہونا ہی تھا۔ جھوٹ سے ہم پچھلے سات سال تو نکال گئے ہیں مگر ہمیشہ کے لئے صرف جھوٹ ہی تو نہیں بول سکتے تھے ناں۔

ٹ۔ ہم مانتے ہیں اور اعتراف کرتے ہیں ہم وہ نہیں کر سکے جس کا ہم نے اپنے معصوم اور تاریخ و جغرافیہ سے نابلد نوجوان ووٹرز سے وعدے کیئے تھے۔  ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہم نے سوسائٹی میں جس تفریق کا بیج بویا تھا آج اس کا پھل کاٹ رہے ہیں۔ آج جو تفاوت اور تفریق معاشرے میں پائی جاتی ہے اس کی ذمہ داری ہم قبول کرتے ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ ہم نے نوجوانوں کو گمراہ کیا ہے اور ہم نے اپنے نوجوانوں کو دلیل و منطق سے بھٹکا دیا ہے۔ ہم اعتراف کرتے ہیں کہ نوجوان نسل جو ہماری طرح تاریخ کی کتاب اور اسلامیات کے قاعدے میں فرق نہیں کر سکتی، جغرافیہ اس نسل کے پاس سے نہیں گزرا، کتاب اور فلسفہ کو پڑھنا وقت کا زیاں سمجھتی ہے ایسی نسل کے براہ راست ہم ہی مجرم ہیں۔

ث۔ ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ہم نے شوکت خانم جیسے ادارے کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا۔ جس ادارے کی بنا پر ہم نے نوجوان ووٹرز کو اپنی طرف مائل کیا اسی ادارے کو ہم سیاست کی غلاظت سے محفوظ نہیں رکھ سکے۔ اگر ہم خود اس ادارے کو سیاست میں نہ ملوث کرتے تو لوگ بھی ہم سے نہ پوچھتے کہ زکوات اور صدقات اور خیرات کے پیسے کو کہاں اور کس مقصد کے لئے استعمال کیا؟

ج۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ کرپشن فری سوسائیٹی ملک کے استحکام کے لئے کتنی ضروری ہے۔ مگر ہم نے ”حب علی میں نہیں بغض معاویہ“ میں یہ نعرہ بلند کیا۔ ہمیں اعتراف ہے کہ کرپشن صرف سیاستدان ہی نہیں کرتے بلکہ اپنے اپنے لیول پر شاہ سے گدا تک ہر کوئی اس دلدل میں ڈوبا ہوا ہے۔ ہمیں معلوم ہے ہمارے قومی بجٹ کا 60 فیصد ہماری آرمڈ فورسز کی ضروریات پوری کرتا ہے 20 فیصد قرضوں کی واپسی میں صرف ہوتا ہے۔ باقی 20 فیصد جو بچتا ہے اس سے باقی ڈیویلپمنٹ ہوتی ہے۔ جو 60 فیصد بجٹ ہے اس کے بارے میں ہم بات نہیں کر سکتے اور نہ ہی اس کا حساب مانگ سکتے ہیں۔ صرف 20 فیصد بجٹ کا پیسہ جہاں خرچ ہوتا ہے ہمیں چھڑی والی سرکار بس اس کے پیچھے لگا دیتی ہے اور صرف میں نہیں میرے ساتھ اس سارے کھیل میں 45 میں سے 41 اینکرز اور 20 میں سے سے 18 ٹی وی چینلز بھی اسی کام میں جتے ہوئے ہیں۔

چ۔ ہم نے کے پی میں نیا بلدیاتی نظام متعارف کروا دیا ہے۔ سارے صوبے چاہ رہے ہیں کہ ہمارے جیسے صوبے کا نظام ان کے صوبے میں ہونا چاہیے مگر کیا کریں نیا نظام ابھی کاغذوں تک محدود ہے۔ اپنے ارکان اسمبلی اس کو ماننے اور نافذ کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ میں کیا کروں میں تو صرف نیا نظام ہی دے سکتا تھا جو میں نے دے دیا ہے۔ اور دوسرا کام میرا اور میری ٹیم بشمول متزکرہ چینلز اور اینکرز یہ ہے کہ میں دوسرے صوبوں کی گورننس میں کیڑے نکالوں وہ ہم با احسن و خوبی کر رہے ہیں۔ باقی رہا اپنے صوبے کی کار کردگی تو میں اپنی پارٹی اور ارکان کی منت سماجت ہی کر سکتا ہوں بقول شاعر:

عاجزی، منت، خوشامد، التجا
اور میں کیا کیا کروں، مر جاوں کیا؟

ہم اپنی شرمندگیوں اور اعترافات پر کوئی کتاب لکھنا چاہیں تو دفتر کے دفتر سیاہ کر سکتے ہیں۔ مگر باقی 99 فیصد اعترافات عالم بالا سے براہ راست مخاطب ہونے تک اٹھا رکھتے ہیں۔

فقط آپ کا ناکام لیڈر عمران احمد خان نیازی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).