چھے ستمبر1965 کی جنگ، حوصلے اور جذبے کی فتح


ستمبر 1965کی ایک دوپہر ناظم آباد کے ایک گھر میں دوستوں کے ایک ٹولے نے یہ منصوبہ بنایا کہ ملک میں جنگ چھڑی ہے اور ایسے وقت میں ان کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چائیے۔ جنگ کو تین دن گزر چکے تھے اور ہر جانب غم و غصہ بھی تھا کہ دشمن نے ہماری زمین کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات کیسے کی۔ اسی غصے کا اظہار اس میز کے اردگرد بیٹھی یہ سہیلیاں بھی کر رہی تھیں ایک گھنٹہ گزر چکا تھا لیکن طے نہیں ہو پارہا تھا کہ جنگ میں اپنی شراکت داری کیسے پیش کی جائے اور پھر ایک تجویز آئی جس پر سب متفق ہوئے۔ گھر سے چھوٹی چھوٹی کانچ کی شیشیاں ڈھونڈی گئیں، دھوئی گئیں اور ایک توڑ دی گئی۔ یہ شیشیاں خون کے عطیات فوجی بھائیوں کو دینے کے لئے جمع کی گئیں تھی اور ایک جو توڑی گئی اس سے انگلیاں کاٹ کاٹ کر بوند بوند خون نکالنے کا کام کیا گیا۔ دوستوں کا یہ ٹولہ اپنی شرارتوں کے لئے محلے بھر میں مشہور تھا آئے دن گھروں میں شکایتیں آنا معمول تھا کئی کو تو ابا اماں سے جھاڑیں اور ماریں بھی پڑ چکی تھیں۔ لیکن آج وہ کام ہونے جارہا تھا جس پر نہ جانے کیا طوفان برپا ہوتا، اس شرارتی ٹولے میں سب لڑکیاں تھیں اور ان کی عمریں دس سے بارہ برس سے زیادہ نہ تھیں۔

میرے نانا میکینل انجینئر تھے اور زیادہ تر مشرقی پاکستان اور مشرقی وسطی میں ملازمت کی غرض سے ہوتے تھے جنگ کے وقت وہ کراچی میں تھے اس دوران مختلف چھاونیوں میں بطور رضاکار وہ اپنے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ ایک روز انھیں ان کے دوست نے اطلاح دی کہ علاقے میں لگے امدادی کیمپ میں محلے کی بچیوں نے خون کا عطیہ پیش کیا ہے جس میں آپ کی بیٹی بھی شامل ہے۔ اس شام انھوں نے تمام بچیوں کو اکٹھا کیا اور پیار سے سمجھایا کہ ان کی مدد ضرور مانگی جائے گی لیکن اس وقت جب ان کی باری آ ئے گی ابجی وہ چھوٹی ہیں لیکن کام بڑے کرنے کا حوصلہ بہت بلند ہے۔ نانا جانتے تھے کہ یہ جذبہ ناقابل شکست ہے اور ہمت بڑھانا ہوگی تو انھوں نے ایک تجویز دی اور کہا کہ سب بچے اپنی جیب خرچ میں سے کچھ نہ کچھ بچا کر ایک ڈبے میں ڈالیں گے اور پھر وہ پیسے بارڈر پر فوجیوں کو بھیجیں جائیں گے اس طرح سے ان کا اور جذبہ بڑھے گا۔ مشورے پر عمل ہوا اور اپنی سب سے قیمتی خواہش کو قربان کر کے سب بچوں نے اپنی جیب خرچ اس ڈبے میں ڈالنا شروع کردی۔

دو سال قبل اسلام آباد کے راول لیک پارک میں، میں نے ایک بزرگ کو بینچ پر اکیلے بیٹھے دیکھا میری سہیلیاں پارک میں تصاویر بنانے میں مصروف تھیں میں اس بینچ پر جاکر بیٹھ گئی رسمی علیک سلیک کے بعد ان سے سیر حاصل گفتگو ہوئی بات چیت پر معلوم چلا کہ وہ ایک یونیورسٹی میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے استاد ہیں اور اس سے قبل وہ آرمی میں تھے۔ کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور 65اور 71 کی جنگ کے غازی رہے۔ بات کراچی کے حالات سے شروع ہوئی اور سیاست پر جا نکلی۔ چونکہ میں سیاسیات کی طالبہ تھی تو مجھے ان سے معلومات کے تبادلے پر خوشی محسوس ہورہی تھی۔ ایک لمحہ ایسا آیا جب گہری خاموشی کو انھوں نے ایک بات سے توڑا۔ کراچی بہت اچھا شہر ہے بہت بڑے دل کا مالک ہے اس کا دامن اتنا بڑا ہے جیسے پرانے وقتوں میں ان والدین کا ہوتا تھا جن کی کثیر اولادیں ہوتی تھیں ہزار اختلاف، سازشوں، مکاریوں، برائیوں کے باوجود وہ سب اولادوں کو ایک ساتھ جوڑے رکھتے تھے۔ ایسا ہے کراچی جس نے ملک کے کونے کونے سے آئے ہر شخص کو اپنی اولاد کی طرح جوڑ کر رکھا ہوا ہے۔

پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے انھوں نے بتانا شروع کیا۔ بیٹا جب جنگ ہوئی تو بارڈر پر فوج کے ساتھ عوام بھی لڑنے آن پہنچی تو کراچی نے اس وقت بڑی امداد بھیجی۔ ہم مورچوں پر تھے ہمیں خبریں ملا کرتی تھیں۔ ایک بار ایک سپاہی کو کسی نے بتایا اور اس نے آکر ہمیں بتایا کہ خون کے عطیات ہوں یا روپے زیور کی امداد کراچی والوں نے تو کوئی کسر نہ چھوڑی۔ پھر ان کے چہرے پر ایک اداسی آئی اور بولے لیکن پھر کراچی کو ہم نے جلتا دیکھا، نفرتوں میں بٹتے دیکھا، لسانی اور زبان کی بنیادوں پر کٹتے دیکھا ایک ایسا وقت بھی آیا جب ایسا لگا کہ اب کون انھیں جوڑے گا؟ کون انھیں منائے گا لیکن جب 2005 کا زلزلہ آیا اور شہری امداد کے لئے کراچی سے دو سی ون تھرٹی کا بندوبست کیا گیاتب جلتا خون میں لتھڑا کراچی کچھ اور نظر آیا۔ میرا بیٹا ان دنوں کراچی میں پوسٹڈ تھا اس کے بچوں نے بھی اسکول میں کچھ چیزیں جمع کی اور ضد کی کہ ہم خود دینے جائیں گے میں میرا بیٹا اور پوتے پوتیاں فیصل بیس جا پہنچیں۔ وہاں میں نے جوا مدادی سامان کے ڈھیر دیکھیں تو میں بچوں کی طرح رونے لگا۔

میں نے جوان جوان بچے بچیوں کو رضاکارانہ طور پر ان سامان کی پیکنگ سے لے کر پاک فضائیہ کے حوالے کرتے دیکھا کہاں دو جہازوں کی بات ہوئی کہاں ہر جہاز یہ سامان متاثرہ علاقوں میں جانے لگا کوئی مال گاڑی ایسی نہ تھی جس میں کراچی سے سامان نہ جاتا۔ پنجاب والے کہتے تھے کہ جب تک یہ ٹرین یہاں پہنچتی ہے اس میں رکھنے کو جگہ نہیں ہوتی۔ اصل میں یہ جہاز اور ریل گاڑیاں سامان سے نہیں جذبوں اور محبتوں سے بھر کر جاتی تھیں۔ میں سوچا کرتا تھا کہ وہ سیاسی پنڈت سوچتے تو ہوں گے کہ کسی نے دو تو کسی نے تین دہائیاں اس عوام کو بانٹنے میں ایک دوسرے سے متنفر کرنے میں لگا دیں اور ایک حادثہ ایک آفت ان کی محنت کو زمین بوس کرگیا، نفرت دفن ہوئی جذبہ چٹان بن گیا۔

ایک بار خالہ کے گھر مہمان آئیں بزرگ خاتون سے ملنے کا اتفاق ہوا جن کا تعلق چونڈہ سے تھا۔ میں نے مذاقا ان سے کہا کہ سنا ہے چونڈہ کے لوگ بڑے جی دار ہوتے ہیں؟ پہلے ہنسیں اور پھر بولیں جی دار بھی اور ناقابل شکست بھی ہمارے بارڈر پر ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ ہوئی تھی۔ مرد تو مرد اس وقت عورتیں بھی ہاتھوں میں بیلن، پھاوڑے، ہاکیاں اٹھائے مردوں کے ساتھ نکل کر بارڈر کی جانب بڑھ گئیں تھی کہ ذرا نبٹیں تو، کون مائی کا لعل آیا ہے ہم سے ٹکر لینے؟ فوجی منتیں کرتے تھے کہ واپس جاؤ جب ضرورت پڑے گی ہم خود بلائیں گے ابھی ہم ہیں۔ پر کوئی رکنے والا نہیں۔ خیر پنڈ کے بڑوں نے فیصلہ لیا کہ فوجیوں کی سنو، یہ جنگ ہم سب کی ہے ہم نے مل کر لڑنی ہے پھر ہم سب عورتوں کو صلاح دی گئی کہ ہم نے ہانڈی روٹی کرنی ہے اور اپنے فوجی بھائیوں کو دینی ہے۔ کیا جذ بہ تھا ایسا لگتا تھا جیسے ہم خود لڑ رہے ہوں۔ بیٹا ہتھیار چلانا آنا ہی جنگ کے لئے ضروری نہیں جب ایک جوان کو یہ یقین ہو کہ وہ جن کے لئے لڑ رہا ہے وہ سب اس کے شانہ بشانہ ہے تو جنگ بناءہتھیار کے بھی جیت لی جاتی ہے۔

1965 کی جنگ ایک جانب بارڈر پر لڑی جارہی تھی، ہر جانب سے بھرپور دفاع کا سامنا اور شکست اٹھانے کے بعد بھارت نے سوچا کہ چلو سندھ کو آزمایا جائے لیکن وہاں بھی فوج کے ہمراہ لڑنے کے لئے پیر پگارا کے ‘ حر‘ بھارتی فوج کے حلق کی ہڈی بن گئے۔ فاٹا کے بلند و بالا پہاڑ دشمن کی فوج سے محفوظ رہے تاہم فاٹا کی جری عوام اور سرداروں نے اپنے وطن کی حفاظت کی ذمہ داری ایسی نبھائی جو ایک مثال ہے۔

کون بھول سکتا ہے لہو گرمانے والے ان ملی نغموں کو جنھیں سن کر لاہور سیسہ پلائی دیوار بن گیا تھا۔ جب مہدی حسن کی آواز میں یہ نغمہ گونجا خطہ لاہور تیرے جانثاروں کو سلام تب پورا لاہور پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھا۔ شیروں کی دھاڑ، بارڈر کے اس طرف بھی سنی گئی ہوگی جنھوں نے لاہور کے شالامار گارڈن میں چہل قدمی لاہور جم خانہ میں چائے پینے کا خواب دیکھا تھا۔ جب نورجہاں نے اپنی مدھر آواز میں گایا کہ اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے تو لبھدی پھرے ادھار کڑے، اے دین ہے میرے داتا دی، ناں ایویں ٹکرا مار کڑے۔ جہاں اس گیت نے کئی آنکھیں نم کیں تو کئی مورچوں میں بیٹھے سپاہیوں نے دشمن کی توپوں کو بھی خاموش کروادیا۔ کیا شاعر ہوا کرتے تھے اس دور کے، مانا جنگ بہترین منصوبہ بندی سے جیتی جاتی ہے لیکن لڑنے والا سپاہی ہی تو ہوتا ہے جو اگلے مورچے پر اپنے افسر کا منصوبہ پورا کرتا ہے۔

تب ہی کسی شاعر نے یہ سوچا ہوگا اور میڈم نورجہاں نے گا کر امر کردیا۔ ہائے نی کرنیل نی جرنیل نی، میرا ماہی چھیل چھبیلا جب جب رات کی تاریکی میں ریڈیو سننے والا کئی کئی گھنٹے مورچے میں اپنی بندوق تانے بیٹھا سپاہی یہ سنتا ہوگا تو اس کے لبوں پر مسکان اور خون میں روانی دوڑ جاتی ہوگی۔ وہ کئی میلوں دور کسی گاؤں سے ملک کے کسی اور کونے پر بارڈر کے قریب کسی اجنبی گاؤں کی حفاظت پر پلک نہیں جھپکتا ہوگا۔ میڈم نورجہاں اپنی چند ماہ کی بیٹی کو گھر چھوڑ کر ان دنوں ریڈیو پاکستان کو اپنا گھر بنائے بیٹھیں تھیں، کہیں منٹوں میں غلام مصطفی تبسم، جمیل الدین عالی، مطفر وارثی اور ان جیسے نایاب شاعروں کے قلم شاعری لکھتے تھے تو وہیں موسیقاروں کی لازاوال دھنوں پر میڈم نورجہاں، نسیم بیگم، مہدی حسن، شوکت علی، مسعود رانا، عالم لوہار اور کئی مدھر آوازیں اپنا سر بکھیر دیتی تھیں۔

ہر اذان پر مساجد میں نمازی تو جاتے تھے لیکن گھروں میں وہ مائیں بھی اپنے بیٹوں کے لئے دعا میں ہاتھ اٹھاتی تھیں جن کے بیٹے جنگ لڑنے میں مصروف تھے تو کئی ایسی مائیں تھیں جن کے بیٹے فوج میں نہیں تھے پر وہ انھیں کے بیٹے تھے۔ اس وقت سب کے بیٹے سانجھے تھے۔ کڑا وقت سب پر آیا تھا۔ لہو گرتا تھا تو ہر آنکھ نم ہوتی تھی، شہید کا جسد خاکی آتا تو ہر ماں اور باپ کو لگتا کہ شہادت کا تمغہ اس کے سینے پر سجا ہے، وہ بیٹا اس کا ہے یہ جنگ اس کیہے یہ جیت اس کی ہے۔

مجھے 2010 میں گجرات کے ایک چھوٹے سے علاقے لالہ موسی کے قبرستان میں شہیدوں کی وہ دو قبریں یاد آئیں جو مجھے میرے مرحوم والد نے دکھائیں ان پر دیا جلتا تھا۔ ابو نے بتایا کے یہ 1965 کی جنگ کے دو شہیدوں کی قبریں ہیں۔ اس پر ہر روز پھول ڈالے جاتے ہیں دیا جلایا جاتا ہے۔ آگے جہلم ہے جو شہیدوں کا شہر ہے اس کے پاس ہی چکوال ہے جہاں ہر گھر سے ہی کوئی فوج میں ہے۔ قبرستان سے نکلتے وقت ابو نے ہنستے ہوئے کہا۔ جذبہ بہت ہے اس قوم میں بس کبھی کبھی اختلافات میں الجھ جاتے ہیں۔ اس قوم کا پتہ ہے کیا حساب ہے؟ میں نے انھیں بغور دیکھتے ہوئے آنکھوں کے اشارے سے پوچھا؟ یہ اس بچے کی طرح ہے جسے سب ملا ہے ہر نعمت، ہر آسائش لیکن اس کے والدین چاہتے ہیں کہ یہ قابل بنے اپنے پیروں پر کھڑا ہو اور اس اولاد کو بخوبی معلوم ہے کہ والدین کی خواہش کیا ہے پر یہ لاپروائی ظاہر کرتا ہے، لاپرواہ ہے نہیں پرجب امتحان سر پر آتا ہے تو والدین پریشانی میں دہرے ہوئے جاتے ہیں کہ اب کیا ہوگا؟ اس کیکوئی تیاری نہیں پر یہ عین وقت پر پڑھ کر پر چہ دے دیتا ہے اور اچھے مارکس بھی لے آتا ہے۔ وقت پڑنے پر یہ لاپرواہ بچہ اتنا ذمہ دار بن جاتا ہے کہ والدین کے ساتھ ساتھ اس کے ناقدین اور اس کے شریک بھی دانتوں میں انگلیاں لے لیتے ہیں۔ ابو یہ کہتے ہوئے آگے نکل گئے اور میں نے پیچھے مڑ کر ایک بار پھر سے ان مہکتی اور پر رونق قبروں کو بغور دیکھا۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar