آرمی چیف کا بیان اور طالب علم کا دھیان


آرمی چیف جنرل  قمر جاوید باجوہ  صاحب کا بیان زیربحث ہے۔ پہلے بیان پڑھ لیجیے۔ فرمایا

“جہاد صرف ریاست کا حق ہے۔ بھٹکے ہوئے لوگ جہاد نہیں فساد کررہے ہیں”

ایک طبقہ اس بیان کی تحسین کررہا ہے، غلط نہیں کررہا۔ کیونکہ اس طبقے نے اس بیان کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ عسکری قیادت اب پرائیوٹ جہاد کا باب بند کرنا چاہتی ہے۔ ایک سطری بیان ہے اور بھانت بھانت کی بولیاں۔ آرمی چیف نے خود کوئی تشریح نہیں کی اور دفاعی تجزیہ کار لفظ چباچبا کر بات کررہے ہیں۔ اب اس بیان کی تشریح عسکری اداروں کی  پالیسی اور مزاج کے تناظر میں ہوسکتی ہے۔ بیان ایک بار پھر پڑھیے۔ پھر بیان پر پیدا ہونے والے تین سوال سن لیجیے

۱۔  ریاست سے مراد کیا ہے

۲۔  ریاست کے حق کا مطلب کیا ہے

۳۔ بھٹکے ہووں سے مراد کون لوگ ہیں

آرمی چیف نے جو کہا اس سے کوئی نیک مراد  اخذ کرنی چاہیئے، مگر طالب علم دستیاب علم اور مشاہدے کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے۔ طالب علم کے سامنے تھیوری اور پریکٹیکل دونوں موجود ہیں۔ تھیوری بھی استاد نے پڑھائی تھی پریکٹیکل بھی استاد کی نگرانی میں ہوا تھا۔ اب استاد کی ایک سطر سامنے ہے، جو تشریح طلب ہے۔ اس کی تشریح استاد کے تعلیم کیے ہوئے کلیوں اور اس کے عملی نمونوں کی روشنی میں ہی طالب علم کے لیے ممکن ہے۔ مذکورہ تین سوالات کے جو جوابات طالب علم کو سمجھ آئے ہیں وہ  کچھ یوں ہیں

۱۔ ریاست سے مراد دفاعی ادارے ہیں

۲۔ پرائیویٹ جہاد کا مکمل حق حاصل ہے، مگر یہ جہاد تب تک جہاد ہوگا جب تک “ریاست” کے  کھینچے ہوئے دائروں کو اندر ہورہا ہو۔  دائرے سے باہر کی سرگرمیوں کو جہاد نہیں فساد سے تعبیر کیا جاوے گا۔

۳۔ اگر پہلے دو جوابات سمجھ آگئے ہوں تو تیسرا جواب سادہ ہے۔ بھٹکے ہووں سے مراد داعش، القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان، جماعت الاحرار، پنجابی طالبان، لشکر جھنگوی، جنداللہ اور نوزائیدہ انصارالشریعہ جیسی تنظیمیں ہیں۔  جو بھٹکے ہووں میں نہیں آتیں ان میں سرفہرست جماعۃ الدعوہ، جیش محمد، حرکۃ الجہاد اسلامی، حرکۃ المجاہدین ، غلبہ اسلام اور سپاہ صحابہ  جیسی تنظیمیں ہیں۔

اگر سپہ سالار کے بیان کی تشریح اس کے سوا ہے تو طالب علم کی رہنمائی کی جانی چاہیئے۔ تشریح اگر یہی ہے تو پھر طالب علم سمجھنا چاہے گا کہ اس میں پہلے کی نسبت مختلف کیا ہے۔ کیونکہ طالب علم خلجان میں مبتلا نہیں ہونا چاہتا۔  بنیادی سوال  اس  بھٹکاو کا نہیں ہے جس کے نتیجے میں دائرہ عبور ہوجاتا ہے۔ بنیادی سوال تو اس بیانیے کا ہے جو بھٹکنے پر مجبور کردیتا ہے۔جب آپ کہتے ہیں ہم اسلام کے غلبے کے لیے برسرپیکار ہیں تو پھر خود بتادیجیے کہ اسلام کا یا غلبے کا دائرہ کابل اور کشمیر تک محدود کیسے ہوسکتا ہے؟  یہی سوال پنجابی طالبان کے سرکردہ کمانڈر عصمت اللہ معاویہ کو جیش محمد کے دائرے سے نکلنے پر مجبور کرتا ہے۔ کشمیر میں ٹریننگ کیمپس کا انچارج قاری بدمنصور ،  افغانستان میں مطبخ کی چوکیداری پر مامورحکیم اللہ محسود،  زیرزمین بارودی امور کا ماہرعبداللہ محسود اور جہادی تنظیم سے یاماہا موٹر سائیکل چوری کرنے والا عمرخالد خراسانی حرکۃ المجاہدین  کے دائرے سے نکل آتے ہیں۔انڈین آرمی کے اہلکاروں کے سر کاٹ لانے پر جہادی حلقوں میں رول ماڈل بننے والا کمانڈر الیاس کشمیری حرکۃ الجہاد اسلامی کے دائرے سے نکل آتا ہے۔ قاری ظفر، کمانڈر طارق آفریدی سپاہ صحابہ کے دائرے سے نکل آتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب دائروں سے کیوں نکل جاتے ہیں؟ اس سوال کامزید تفصیلی جواب پورے کالم کاتقاضا کرتا ہے، مگر  یہ وقت ایک اور جانب میں کچھ ضروری اشارہ کرنے کا ہے۔

ایک ہے ہمارا مسئلہ دوسرا ہے دنیا کا مسئلہ ۔ ہم انہیں مسئلہ سمجھتے ہیں جو بھٹکے ہوئے ہیں۔ دنیا انہیں مسئلہ سمجھتی ہے جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔ بیرکس میں پاکستان کی ان جہادی تنظیموں کی مذمت کی گئی جو ہمارے لیے بھٹکی ہوئی نہیں ہیں۔ خطے میں ہم جن جہادی سرگرمیوں  کے سبب تنہا ہوگئے ہیں وہ وہی جہادی سرگرمیاں ہیں جو “ریاست” کے کھینچے ہوئے دائرے میں انجام دی جارہی ہیں۔ یہی دائرہ ہے جس نے سول قیادت اور عسکری اشرافیہ کے بیچ حدِ فاصل قائم کر رکھی ہے۔اگر آرمی چیف یہی حد فاصل اٹھانے کا عزم کرچکے ہیں تو بیا بیا اے یارِ من بیا ۔اور اگر ڈھاک کے وہی تین پات ہیں  تو پھرخود ہی بتادیجیے کہ  یہ  سوائے بادہِ گلفام مشک بو کیا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).