یلغار، ٹوائلٹ اور ڈونلڈ ٹرمپ


’میں فلم کی تکنیک میں زیادہ درک نہیں رکھتا مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ہیرو کا قد اُس کے مقابل ولن کے حساب سے ناپا جاتا ہے۔ ولن جتنا بڑا دکھایا جاتا ہے، ہیرو اُتنا ہی بڑا نظر آتا ہے۔ جو جنگ ہم لڑ رہے ہیں، اُس میں دشمن اس سے کئی گنا زیادہ ظالم، خطرناک اور طاقتور ہے، جتنا کہ آپ کے سکرپٹ میں دکھایا گیا ہے‘۔

بریگیڈیئر ریٹائرڈ مجتبیٰ ترمذی نے جو اُن دنوں کرنل کے عہدے پر فائز تھے، آئی ایس پی آر کے آفس میں فلم کا سکرپٹ میرے سامنے رکھا اور اُس سے منسلک اُس وقت کے چیف، جنرل کیانی کا یہ پیغام مجھے پڑھ کر سنایا۔ یہ 2010ء کے اوائل کا ذکر ہے۔ جب ’یلغار‘ کے نام سے حالیہ ریلیز ہونے والی فلم کا سکرپٹ ’پیوچار‘ کے نام سے لکھا جارہا تھا۔ تیسرے ڈرافٹ کے سٹیج پر بقول ترمذی صاحب کے جنرل کیانی نے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے اپنے امریکا کے کسی سفر میں دوران پرواز سکرپٹ کی ورق گردانی کی تھی۔ اور واپسی پر یہ اظہار خیال کیا تھا۔ کیانی صاحب کا تجزیہ نہ صرف تکنیکی اعتبار سے بلکہ زمینی حقائق کی بنیاد پر بالکل درست تھا، کیونکہ قوم کو واقعی ایک monster )عفریت( کا سامنا تھا۔ ایک ایسا مونسٹرجو لیبارٹری میں ہونے والے کسی تجربے کا By product (ضمنی پیداوار یہاں مراد ما بعد نتائج) ہوتا ہے جو نظروں سے تب تک اوجھل ہوتا ہے، جب تک اپنا خول پھاڑ کر سامنے نہیں آتا۔ جسم میں پھیلے ہوئے اُس سرطان کی طرح جو جسم کی ہی خوراک پہ پل کر اُس کے اعضا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور پوری طرح اپنے پنجے گاڑھ کر پھر نمودار ہوتا ہے۔

دشمن کی افرادی قوت بے شک کم تھی، مگر تجربے، مہارت اور بیرونی پشت پناہی کی بدولت جنگی صلاحیتوں میں خود کفیل تھا اور ہر قاعدے قانون سے بالا ہو کر کسی بپھرے ہوئے درندے کی طرح ’جنگ میں سب کچھ جائز ہے‘ کے اصول پر کاربند تھا۔ اس سے بھی بڑھ کر اُس کے پاس جو طاقت تھی، وہ یہ کہ وہ لاکھوں معصوم لوگوں کی ڈھال کے پیچھے محفوظ تھا۔ اُس سے بھی بڑھ کر وہ اُس نظریاتی کنفیوژن کے مورچے میں بیٹھا ہوا تھا، جس میں ہم لوگ مبتلا تھے۔ ’یہ ہماری جنگ ہے؟‘، ’ہماری جنگ نہیں ہے؟‘، ’مذاکرات یا لڑائی‘، ’کون شہید کون ہلاک۔۔۔؟ ‘ ہر طبقہ فکر اس بحث میں مبتلا تھا۔ دشمن نے نفاذ شریعت، جہاد اور شہادت کا وہ مقدس لبادہ اوڑھ رکھا تھا ، جس پر حملہ کرنے کے لیے پہلے ایک Counter Narrative (متبادل بیانیہ) کی ضرورت تھی۔ وار کرنے کے لیے پہلے اُس اندھی مذہبی تقلید کی آنکھوں سے پٹی اتارنا تھی، جو اُن کی مضبوط ڈھال تھی۔ ہزاروں شہادتیں تو ہم نے اُس کنفویژن کو ختم کرنے اور لوگوں کا Perception(فہم) درست کرنے کے لیے دی ہیں جن میں اے پی ایس کے معصوم بچوں کا خون بھی شامل ہے۔

فلم کا موضوع سوات کی وادی میں مولوی فضل اللہ کی سب سے مضبوط اور آخری پناہ گاہ ’پیوچار‘ کا مشکل ترین آپریشن تھا، جس میں ایس ایس جی کے جوانوں اور ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹروں نے حصہ لیا تھا۔ پیوچار کے غاروں میں جدید اسلحے، ٹرینڈ جنگجوؤں اور بے گناہ لوگوں کی مضبوط شیلڈ کے پیچھے چھپے مولوی فضل اللہ کو کیفر کردار تک پہنچانا تھا، جس نے ہماری نظریاتی کنفیوژن کا فائدہ اٹھا کر نام نہاد نفاذ شریعت کے تخت پر بیٹھ کر سوات سے اپنی حکمرانی کا آغاز کیا تھا۔ اُس کے عزائم اسلام آباد کی طرف بڑھنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ جی! یہ وہی فضل اللہ ہے، جو آج افغانستان کی سرزمین سے بیٹھ کر پاکستانی طالبان کے سربراہ کی حیثیت سے ہم پر حملے کروا رہا ہے۔ سوات سے لے کر مالم جبہ تک، فضل اللہ نے کیسے قبضہ کیا؟ اُس کے خلاف جنگ کا آغاز کیسے ہوا؟ فوج کو کن کن محاذوں پہ لڑنا پڑا ؟ لاکھوں لوگوں کی نقل مکانی سے لے کر پیوچار کے آخری غار تک پہنچنے میں کن کن مشکلات، قربانیوں، شہادتوں اور حکمت عملیوں سے گزرنا پڑا؟

بنانے والے اس فلم کو ایک ایسی دستاویز کی صورت میں پیش کرنا چاہتے تھے، جو پوری دنیا میں دہشت گردی کے خلاف ہماری نظریاتی و مذہبی Approach( نقطہ نظر)، ہماری جنگی حکمت عملی، ہمارے نقصانات اور قربانیوں کو بطور ایک ترجمان کے پیش کرے۔ اس لیے جرنیل سے لے کر سپاہی تک، میری ہر اُس شخص سے ملاقات ہوئی جو اس جنگ کا حصہ تھے اور ہر اُس مقام پر جانا پڑا، جہاں قابل ذکر معرکے ہوئے تھے۔ ہر کوئی اور خصوصاً آئی ایس پی آر بڑی سنجیدگی اور دلچسپی سے اس فلم کی ٹیم کے ساتھ تعاون اور رہنمائی میں پیش پیش تھا۔ میں نے اس ریکی کے دوران جو کچھ دیکھا، اُسے ایک سکرپٹ میں سمونا ناممکن حد تک مشکل کام تھا۔ سوات سے لے کے وزیرستان تک ہر معرکہ خود ایک فلم تھا، جو اپنے ہر محاذ پہ ایک نئی حکمت عملی کا متقاضی تھا۔ بہرحال میں نے اپنی دانست کے مطابق اپنے تئیں ’پیوچار‘ کا سکرپٹ مکمل کرلیا۔ اس کے بعد مجھ سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ یقیناً میرا سکرپٹ اس قابل نہیں ہوگا۔

گزشتہ دنوں فلم یلغار ریلیز ہوئی جس کی کہانی بھی پیوچار آپریشن کے واقعات کے گرد ہی گھومتی ہے۔ فلم کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حسن وقاص رانا نے اداکاری اور ہدایت کاری کے ساتھ لکھاری کے فرائض بھی خود ہی انجام دیے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تکنیکی اعتبار سے یہ بہت اچھی فلم تھی اور فلم بینوں کی دلچسپی اور موجودہ فلمی رجحان کو ملحوظ خاطر رکھ کر کہانی میں رومانس اور مزاح کے عناصر بھی شامل کیے گئے۔ مختلف کرداروں کی ذریعے فوجی کی ذاتی، خانگی، سماجی اور حربی زندگی کی بھرپور عکاسی کی گئی۔ فوج کی جنگی صلاحیتوں اور مہارت کو بھی بڑی خوبصورتی سے فلمایا گیا ہے اور شائقین کی کثیر تعداد نے بھی اسی تناظر میں یہ فلم دیکھی۔ مگر میرا سوال یہ ہے کہ اس فلم کا ولن کون ہے؟ پاک فوج اپنی تمام تر جنگی مہارت کا مظاہرہ کس کے خلاف کر رہی تھی؟ طور جان جیسے ایک غنڈے کے خلاف۔۔۔؟ جس کا قد کاٹھ، کردار اور عمل ایک عام سے فلم کے ولن سے زیادہ نہیں تھا۔ جس کی تمام تر توانائیاں ایک عورت کے حصول کے گرد گھومتی ہیں۔ اُس کی آئیڈیالوجی، اُس کے پس پردہ محرکات، عزائم اور اُس کے اہداف کیا ہیں؟ اُس کے وسائل اور اُس کے پس پشت کارفرما قوتیں۔۔۔؟

کہاں تھا وہ سب کچھ، جس سے ہم برسوں سے برسرپیکار ہیں۔ ستر ہزار جانوں کی قربانی اور اربوں ڈالر کا نقصان اٹھا چکے ہیں۔ کیا یہ طور جان اور اُس کے ٹچّے جیسے حواری ہیں جن سے ہماری فوج نبرد آزما ہے۔ نہیں۔۔۔ طورجان تو محض ایک کارندہ تھا، ایکسپوز تو اُس ولن کو کرنا چاہیے تھا جس کے ہاتھ میں ڈور تھی۔ جو آج بھی کسی کی ڈور سے بندھا ڈوریاں ہلا رہا ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے فلم کے ڈائریکٹر / پروڈیوسر نے اس فلم کے لیے فوج کے تعاون کا ’بھرپور‘ فائدہ اٹھاتے ہوئے صرف اُنہی وسائل کا استعمال کیا ہے، جو ایسی فلموں کی تیاری کے لیے فوج کی جانب سے دیئے جاتے ہیں۔ اس لیے شاید ولن کا شعبہ بہت کمزور رہ گیا۔ حتیٰ کہ دشمن کے جنگجوؤں کے طور پر بھی ہمارے ہی فوجی جوان دکھائی دے رہے تھے، جنہیں بے ڈھنگی پگڑیاں پہنا کر استعمال کیا گیا۔ اس لیے وہ نفرت، ہیبت اور کراہت محسوس نہیں ہوئی جو محسوس ہونی چاہیے تھی۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہیرو اور ولن کا توازن انتہائی غیر متوازن تھا۔ ہیرو کی جرات اور شجاعت کے مقابلے میں دشمن کی عیاری، چالاکی اور خباثت کا فقدان تھا۔ اور ایسی یکطرفہ فلمیں Entertain(محظوظ) تو کرتی ہیں، گہرا تاثر نہیں چھوڑتیں۔ اور جس مقصد کے لیے بنائی جاتی ہیں، اُس کا حصول ذرا مشکل ہوجاتا ہے۔ ایسی فلمیں خاص طور پر بین الاقوامی سطح پہ بہت عمیق نظری اور انتہائی تنقیدی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں کیونکہ اس وقت پوری دنیا کی نظریں دہشت گردی کے موضوع کو لے کر پاکستان پہ لگی ہوئی ہیں۔ اس لیے دہشت گرد یا دہشت گردی کو اُس کے تمام تر عوامل کے ساتھ جوڑ کر اُس کی وہ ہیبت ناک شکل دکھانی چاہیے، جو حقیقت میں ہے۔ تاکہ اُن ملکوں کے شائقین کو بھی اُن سازشوں کا ادراک ہو جن کے حکمران دہشت گردوں کو گود میں بٹھا کے ہم پہ انگلیاں اٹھارہے ہیں۔

اس فلم کا ایک ناکارہ حصہ ہونے کی وجہ سے لوگ میری رائے کو بغض و عناد اور حسد و جلن سے تعبیر کریں گے۔ اس لیے شو دیکھنے کے بعد میں اپنا اضطراب خاموشی سے ڈھانپ کر بیٹھ گیا لیکن چند روز بعد میں نے ایک اور فلم دیکھی تو اضطراب نے ایک بار پھر سر اٹھالیا۔ وہ فلم تھی’ٹوائلٹ‘ (ایک پریم کتھا)۔ ٹوائلٹ فلم میں اُس ذہنیت، روایت اور معاشرت کی عکاسی کی گئی ہے جو ہندوستان کے اکثر علاقوں میں گھر میں ٹوائلٹ بنانے کے خلاف ہے۔ جنہوں نے یہ فلم دیکھی ہے وہ ضرور جانتے ہوں گے کہ کس مہارت، دلچسپی اور دلائل سے بھرپور انداز میں انہوں نے اپنی اس فرسودہ روایت اور رجعت پسندانہ مذہبی سوچ کو بدلنے کی کوشش کی۔ اس فلم سے یہ سیکھنا چاہیے کہ ایک ٹوائلٹ کا موضوع لے کر بھی ایک کامیاب فلم کیسے بنائی جاسکتی ہے۔ ایشو کو کیسے discuss(آشکار) کیا جاتا ہے۔ کسی بیانیےکو کیسے رد کیا جاتا ہے۔ مذہب کے نام پر استحصال کرنے والوں کی مذہب کے دلائل سے ہی کیسے زبان بندی کی جاسکتی ہے (جس کی اس وقت ہمیں شدید ضرورت ہے)۔ ولن کا کردار کیسے تخلیق کیا جاتا ہے۔ اُس کی طاقت، ذہنیت اور خباثت کیسے دکھائی جاتی ہے اور ہیرو کی جرات، ہمت اور بہادری کے کیا ’لوازمات‘ ہوتے ہیں، بے شک وہ نہتا ہی کیوں نہ ہو۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مودی سرکار کے وچار کا پرچار ہمارے سنیما سکرینز پر ہوتا رہا اور ہم پیسے دے کر دیکھتے رہے۔ وہ اپنا ٹوائلٹ کا اتنا سا ایشو ہمیں بیچ کر چلے گئے اور ہم دہشت گردی کا ہاٹ کیک لے کر واپس آ گئے۔

میں ٹوائلٹ دیکھنے کے بعد بھی ضبط کرگیا مگر جب ٹرمپ نے افغانستان میں اپنی ناکامی کا سارا ملبہ ہمارے اوپر ڈال دیا، تو میرا ضبط ٹوٹ گیا۔ اتنی قربانیوں اور نقصانات کے باوجود اُس کی انگشت نمائی کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے میدان جنگ میں جو کامیابیاں حاصل کیں، سفارتی میدان میں اُتنے ہی ناکام رہے۔ ہماری کوششوں، قربانیوں، کامیابیوں، شہادتوں اور نقصانات کا جشن و الم شاید ہمارے گھر تک ہی محدود رہا۔ اُسے دوسری اقوام تک پہنچانے میں ہم ناکام رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم نے سفارت کاری کو صرف روایتی، سفارتی دوروں تک ہی محدود رکھا۔ سفارت کاری کا ایک بہت بڑا ٹول فلم ہے۔ فلمیں ترجمان ہوتی ہیں، جو میز کی بجائے دلوں تک پہنچ کر ایک قوم کے تشخص کو دوسری اقوام سے روشناس کرواتی ہیں۔ دنیا بھر کی ذی شعور اقوام اپنے ذی عقل لوگوں کے ذریعے فلمیں بنا کر اپنی طاقت یا مظلومیت، اپنے نظریات اور اقدار کا پرچار کرتی آئی ہیں۔ کاش ہم کوئی ایسی فلم لے کر امریکا گئے ہوتے جو آج امریکا کے لوگوں کو بھی ٹرمپ کے خلاف ہمارے حق میں بینرز اٹھانے پر مجبور کرتی۔ وہ بینرز جو ہم اپنی سڑکوں پر اٹھائے کھڑے ہیں، جہاں سے وہ ٹرمپ کو نظر ہی نہیں آتے۔ ایسا نہیں کہ ہم ایسی فلم نہیں بنا سکتے۔ ہم نے ’خدا کے لیے‘ جیسی فلمیں بھی بنائی ہیں، جس نے ہماری بھرپور ترجمانی کی ہے۔ ہمیں ایسی مزید فلموں کی ضرورت ہے جو ہمارے ولن کا ہیبت ناک چہرہ دکھائے، اُس کا مکمل چہرہ اور قد کاٹھ نظر آئے۔ ہمیں فلموں کی صورت میں ایسے آئینے تیار کرنے کی ضرورت ہے ، جن میں الزامات لگانے والوں کو خود اُن کا چہرہ نظر آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).