کچھ ایسے بھی اٹھ جائیں گے اس بزم سے جن کو


چار سال کی انتھک کوششوں اور محنت کے بعد گرے لسٹ سے نکلنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ گرے لسٹ سے وائٹ لسٹ میں آنے کا باضابطہ اعلان تو نہیں ہوسکا مگر اشارے یہی بتا رہے ہیں کہ اب آپ خود کو وائٹ لسٹ میں تصور کر سکتے ہیں۔ مجھ سمیت ہر محب وطن پاکستانی نے گرے لسٹ میں ہونے کی بہرحال قیمت ادا کی ہے۔ وطن عزیز کو بڑے معاشی چیلنجز سے نبرد آزما ہونا پڑا۔ عالمی دنیا ہم پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں تھی۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ اور اوپر سے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی نے پوری دنیا میں ہمیں ناقابل اعتبار بنا دیا تھا۔

ایسے مشکل لمحات تھے کہ چین اور سعودی عرب جیسے برادر ملک بھی ہماری مدد نہیں کر پا رہے تھے۔ دنیا کا برادر ممالک پر بہت دباؤ تھا کہ پاکستان کسی بھی مالی امداد سے پہلے آئی ایم ایف کو راضی کرے اور ان کے ڈسپلن کو فالو کرے۔ ایف اے ٹی ایف سے لے کر آئی ایم ایف کے ساتھ وعدہ خلافی تک، دنیا عمران خان کو نہیں بلکہ پاکستان کے وزیراعظم کو ذمہ دار سمجھتی تھی۔ جب بین الاقوامی سفارت کاروں سے ہماری ملاقاتیں ہوتیں تو وہ کہتے کہ آج آپ کہتے ہیں کہ ان سب کا ذمہ دار عمران خان ہے؟ تو یہ بتائیں کہ عمران خان کو وزیراعظم بھی تو آپ لوگوں نے بنایا ہے۔ بہرحال پوری قوم کی مشترکہ کوششوں سے آج دنیا میں آپ کا امیج بہتر ہونا شروع ہو رہا ہے۔ آج ہمیں سوچنا ہو گا کہ جن عناصر کی وجہ سے ہم گرے لسٹ میں گئے تھے، ان کی سرکوبی کے لئے بھرپور اقدامات کرنا ہوں گے، وگرنہ تاریخ خود کو دہراتی رہے گی۔

اب جب ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کا اعتماد تقریباً بحال ہونے کے قریب ہے۔ ایسے میں شہباز شریف کی انتظامی صلاحیتوں کا امتحان شروع ہوا چاہتا ہے۔ آج شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب نہیں بلکہ وزیراعظم پاکستان ہیں۔ ماضی میں شہباز شریف وزیراعلیٰ ہوتے تھے اور میاں نواز شریف وزیراعظم پاکستان تھے۔ میاں نواز شریف قومی و بین الاقوامی دباؤ کا بوجھ اپنے کندھوں پر برداشت کرتے تھے اور شہباز شریف بطور وزیراعلیٰ پنجاب صرف اور صرف گورننس پر توجہ مرکوز رکھتے تھے۔ مگر آج وہ خود وزیراعظم ہیں اور ان کے صاحبزادے وزیراعلیٰ پنجاب ہیں۔ انہوں نے ملکی معاملات کے پریشر کو بھی برداشت کرنا ہے اور پنجاب کا وزن بھی بالواسطہ انہیں پر آنا ہے۔ یہ ان کے کیریئر کا کٹھن ترین موڑ ہے لیکن بہترین رہنما بننے کے لئے نامساعد حالات میں ہی بہتر پرفارم کرنا ہوتا ہے۔ وگرنہ بیٹنگ پچ پر تو ہر بیٹسمین سنچری اسکور کر لیتا ہے مگر سچن ٹنڈولکر تو وہی ہوتا ہے جو فاسٹ وکٹ پر گلین میگرا کے سامنے سنچری اسکور کرے۔

آج شہباز شریف کو مضبوط فیصلہ سازی کی بنیاد ڈالنا ہوگی۔ کسی اتحادی یا ادارے کے پریشر پر اپنے فیصلے یکسر تبدیل کرنے سے گریز کرنا ہو گا۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ وفاقی حکومت کو قائم ہوئے دو ماہ ہوچکے ہیں مگر دو صوبے آج بھی اپنے گورنر سے محروم ہیں۔ وفاقی وزارتوں اور ڈویژنز میں تھوڑے بہت رد و بدل کے علاوہ افسران کی وہی ٹیم کام کر رہی ہے، جن پر ماضی میں مسلم لیگ نون انگلیاں اٹھاتی رہی ہے۔ پاور کمپنیز کے سربراہان گزشتہ دور کے ہی چلے آرہے ہیں۔ خود مختار اداروں کے سربراہان تبدیل نہیں کیے جا سکے۔ عین ممکن ہے کہ بالا اداروں میں بہت اچھے افسران بھی خدمات سر انجام دے رہے ہوں، مگر یہاں بات فیصلہ سازی کی ہو رہی ہے کہ وقت بہت کم ہے اور چیلنجز پہاڑ جتنے ہیں۔ آج عوام شہباز گورننس ماڈل دیکھنے کے متمنی ہیں۔ کوشش کریں کہ دائیں بائیں موجود لوگوں کی چکنی چپڑی باتوں پر کان دھرنے کے بجائے تلخ حقائق بیان کرنے والوں کو عزت دیں۔ وگرنہ خوشامدی تو ہر وزیراعظم کے گرد امڈ آتے ہیں، مگر جب یہ کرسی نہیں ہوتی تو ان میں سے کوئی نظر بھی نہیں آتا کیونکہ یہ کرسی بہت کمزور ہوتی ہے۔

وزیراعظم صاحب! آج ایک غریب پاکستانی آپ کی طرف دیکھ رہا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور پھر کسانوں کے ٹیوب ویل کی بجلی کے اوقات کار میں تبدیلی سے زراعت کا شعبہ بہت متاثر ہو رہا ہے۔ ادویات کی قیمتیں جو گزشتہ چا ر سال کے دوران کئی سو گنا بڑھیں، انہیں کنٹرول کرنا اشد ضروری ہے۔ بغیر کسی معقول وجہ کے سیمنٹ کی بوری راتوں رات پانچ سو روپے بڑھ جاتی ہے اور بلیک میں بھی دستیاب نہیں ہوتی۔ سریا ہر ہفتے دس، دس ہزار روپے بڑھ رہا ہے۔ گزشتہ چار سال سے جس شعبے سے منسلک چند بڑے کاروباری افراد کا جو دل چاہتا تھا، اسی چیز کو بلیک کر کے قیمت بڑھا دیتے تھے اور کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔

آج بھی وہی سلسلہ جاری ہے۔ غریب آدمی کا زندہ رہنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ یوٹیلٹی اسٹورز پر اشیا ء خورونوش نصیب والوں کو میسر آتی ہیں۔ اشیا کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا وفاقی سطح پر کوئی میکانزم نہیں ہے، جو چاروں صوبوں میں ایک ریٹ پر عملدرآمد کروا سکے۔

آپ کے پاس احد چیمہ، ڈاکٹر توقیر، امداد بوسال سمیت قابل ترین بیوروکریٹس کی ٹیم ہے۔ ایسا مضبوط میکانزم تیار کریں کہ کم از کم کوئی بھی شعبہ اپنی مرضی سے کسی بھی چیز کی قیمت میں اضافہ نہ کرسکے۔ ایسے ٹربیونل تشکیل دیں جو خلاف ورزی کرنے والے کو اسپیڈی ٹرائل کے ذریعے سزائیں دیں۔ ادویات کی قیمتیں کم کرنے پر خصوصی توجہ دیں۔ ایسی کمیٹی تشکیل دیں جو اس بات کا تعین کرے کہ گزشتہ چار سال میں را میٹریل کی مہنگائی کے تناسب سے ادویات کی قیمتیں بڑھی ہیں یا پھر چند فارما سوٹیکل کمپنیز کی اجارہ داری کی وجہ سے ایسا ہوا ہے؟

وزیراعظم صاحب! آپ خود فرماتے ہیں کہ وقت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کا پہیہ رکتا نہیں ہے بلکہ چلتا رہتا ہے۔ اس وقت نے بھی بہت تیزی سے گزر جانا ہے۔ مگر آج ایسی مضبوط بنیادیں ضرور قائم کر دیں کہ آنے والے وزرائے اعظم اس کی تقلید کریں اور شہباز گورننس ماڈل کا خواب ملکی سطح پر شرمندہ تعبیر ہو سکے۔ وگرنہ اس بزم سے تو ہم سب نے آخر چلے ہی جانا ہے۔

کچھ ایسے بھی اٹھ جائیں گے اس بزم سے جن کو
تم ڈھونڈنے نکلو گے مگر پا نہ سکو گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments