بے بس روہنگیا خونخوار بھیڑیوں کے رحم و کرم پر


میانمار اُس گوتم بدھ کے پیروکاروں کا دیس ہے جنہوں نے دنیا کی عیش پسند اورآسودہ زندگی کوخیرباد کہہ کر رہبانیت کی زندگی اختیار کرلی تھی۔ جن کے مسلک میں نفسانی خواہشات کوسب مصائب کا جڑ سمجھا جاتاہے۔ جن کا مسلک نہ صرف انسان دوستی کی تلقین کرتاھے بلکہ اس میں ہرذی روح چیز سے بھی پیار سے پیش آنے کا درس شامل تھا۔ بدقسمتی سے اس دیس میں آج بدھا کے بھکشے (پیروکار) تاریخی بربریت کی داستان پہ داستان رقم کررہے ہیں۔ میانمار کی چھ کروڑ کی آبادی میں آج کل ان بھکشووں کے لئے وہ دس، گیارہ لاکھ مسلمان بھی اتنی بوجھ بن چکے ہیں جنہیں دنیا روہنگیا کے نام سے جانتی ہے۔ ملک کی کل آبادی کے چار فیصد روہنگیوں کو پہلے سے ہی شہریت، صحت، عدالت اور علم کے حقوق سے محروم کررکھا تھا لیکن آج اُن پر زیست کے مہ وسال بھی حرام کردیا گیاہے۔ راکھائن کے یہ روہنگیا پچیس اگست کے دن سے گوتم بدھ کے نام نہاد بھکشووں کے ہاتھوں مظلومیت کی بدترین تصویریں بنے ہوئے ہیں۔ ان کی جاں سلامت ہے اور نہ ہی ان کے دوٹکوں کی جائیداد کو تحفظ حاصل ہے۔ ان کے مساجد اور مدارس پر ہاتھ اٹھانے سے گریز کیا جا رہا ہے نہ ہی ان کی خاکی جھونپڑیاں اور خیمے سلامت ہیں۔ سماجی میڈیا پر اُن کے جلے ہوئے گھروں، بے گوروکفن لاشوں سے لپٹے شیرخوار بچوں اورزخمیوں کی وائرل ہوتی تصاویردیکھ کر انسان اندرسے لہولہو ہوجاتاہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پچھلے چودہ دنوں میں بدھ دہشت گردوں نے برمی افواج کے تعاون سے سو کلومیٹرز پر مشتمل روہنگیا مسلم آبادی کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اکیس سوکے قریب دیہات آگ کی نذر کرکے اس میں لاتعداد مسلمان زندہ جلادیئے گئے ہیں۔ دس ہزار کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا اور پندرہ سو کے قریب باعفت خواتین کی عصمت پامال کی گئی ہے۔ زندہ انسانوں کے اعضاء کاٹ دیے گئے جن سے اب آسمان کی چیلیں اور کوے اپنی غذا کا ساماں کررہے ہیں۔ رپورٹ میں اس خدشے کا بھی اظہار کیاگیا ہے کہ اگر متحدہ اقوام کے نام سے دنیا میں امن کے علمبردار ادارے یا دیگر ملکوں سے آگ اور خون کی یہ دردناک ہولی روکی نہ گئی تو کئی لاکھ مزید روہنگیا موت کی آغوش میں جاسکتے ہیں۔

میانمار گوتم بدھ کے بھکشووں کے علاوہ آنگ سان سوچی صاحبہ کا بھی وطن اصلی ہے۔ کونسی آنگ سان سوچی؟ وہ آنگسان سوچی جنہیں دنیا نے امن اور محبت کا ایک چلتا پھرتا استعارہ سمجھا تھا۔ جو مصنفہ، ڈپلومیٹ، انسانی حقوق اور جمہوریت کی چمپیئن تھی۔ جنہیں کیمیاء اور طبعیات کا نہیں بلکہ امن کا نوبل انعام بھی ملاتھا۔ ہیہات ہیہات، پچھلے دوہفتوں سے ہزاروں روہنگیا اذیت ناک اور اہانت آمیز طریقے سے قتل ہورہے ہیں، لیکن آنگسان سوچی صاحبہ ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ حیف، زمیں جنبد، نہ جنبد گل محمد۔ آنگسان سوچی الٹا بھونڈے طریقے سے بدھ دہشتگردوں کا دفاع کررہی ہیں۔

بے شک، آنگسان سوچی آج امن کا استعارہ رہ گئی ہیں۔ آنگسان سوچی کے دل کو آج ہر جگہ ایک سخت جاں پتھر سے تشبیہ دی جاتی ہے اور آنکھیں شرم سے عاری تصور کیے جاتے ہیں۔ انہیں امن کے نام پرملنے والا نوبل انعام واپس لینے کی مہم جاری ہے جس میں لاکھوں لوگ ناں کی بجائے ہاں کہہ رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک مشہور پاکستانی اخبار کو انٹرویو کے دوران کراچی میں رہائش پذیر روہنگیا مسلم ذبیح اللہ نے کہاہے کہ بدھ دہشتگردوں نے وہاں 1942 سے روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے اور اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد مسلمانوں کو شہیدکردیئے ہیں۔ اپنے گفتگوکے دوران پرنم آنکھوں کے ساتھ یہ انکشاف بھی کیا کہ ابھی چنددن پہلے انہیں اطلاع ملی ہے کہ ان کی سگی بہن، بھانجے اور بھانجیاں بھی شہید ہوگئے ہیں اور کئی دوسرے اقارب کے شہیدہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ انہوں نے درد بھرے لہجے میں کہا کہ میں اس پاکستانی نیوز چینل کی وساطت سے یہ بات تمام مسلمانوں تک پہنچانا چاہتاہوں کہ خدارا! مسلمانوں کی مدد کریں، اس وقت روہنگیا مسلمان آپ کے منتظر ہیں‘‘۔

جانے کیا گزرے گی شبنم پہ گہر ہونے تک
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

دہائیوں سے راکھائن میں آباد روہنگیا آج تک برمی شہریت کے حصول میں کامیاب نہیں ہوپائے بلکہ بدھ حکومت عارضی شناخت نامے سے انہیں بہلارہی ہے۔ کہاجاتاہے کہ شادی بیاہ اور بچے پیداکرنے میں بھی انہیں مشکلات ترین قوانین کاسامنا کرناپڑتاہے۔ کہاجاتاہے کہ اس مظلوم کمیونٹی کے پندرہ سالہ لڑکوں کو برمی فوج اٹھا کر ان سے جبری مشقت لیتی ہے علیٰ ہٰذالقیاس۔ راکھائن کے ان روہنگیاووں کا جرم ان کا روہنگیا پن نہیں، بلکہ واحدجرم ان کا وہ نسبت ہے جوانہیں اسلام سے جوڑتاہے۔ دلیل کے لئے آنگسان سوچی صاحبہ کی وہی نفرت پرمبنی بات کافی ہے جسے انہوں نے چندسال پہلے بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہی تھی۔ اس انٹرویو میں ایک مسلمان خاتوں کے روہنگیاووں کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر آنگسان سوچی نے برامناتے ہوئے کہاتھا کہ ’’ اگر مجھے علم ہوتا کہ پروگرام میں کوئی مسلمان بھی شامل ہے تو میں کبھی اس پروگرام میں تشریف نہ لاتی‘‘۔ مظلوم ترین روہنگیا آج ان ستاون اسلامی ملکوں کے حکمرانوں اور عوام کی طرف دیکھ رہے ہیں جن سے ان کا ایک لازوال روحانی رشتہ ہے لیکن بدقسمتی سے ہم خود راکھ کاڈھیر بن چکے ہیں۔

بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلمان نہیں راکھ کاڈھیرہے

کاش! ہمارے حکمران بھرپور طریقے سے اپنے ان مظلوم ومقہور بھائیوں کا مقدمہ اقوام متحدہ تک بہت ہی پہلے لے جاتے۔
کاش! ہمارے حکمرانوں کو کرپشن اور تجارت پرمبنی سیاست سے کچھ فرصت ملتی۔
کاش روھنگیاووں پرڈھانے والے یہ مظالم، طیب ایردوان اور حسن روحانی کی طرح ہمارے حکمرانوں کے ضمیر کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).