انٹرنیٹ کے بڑھک بازوں کی اوقات اتنی ہی!


میرا یہ کالم اخبار میں شائع ہونے کے ساتھ ہی انٹرنیٹ پر بھی پوسٹ ہوجاتا ہے۔ اس میں چھیڑے موضوعات اور ان کے بارے میں بیان ہوئی میری رائے کی تعریف یا اس پر تنقید عموماً Twitter تک ہی محدود رہتی ہے۔

ای میل جسے کچھ لوگ اب برقی مراسلہ بھی کہنا شروع ہوگئے ہیں، عام طور پر اس حوالے سے مجھے صرف اس صورت موصول ہوتی ہیں جب چند قارئین کو میرے بیان کردہ تاریخی حقائق کی صداقت کے بارے میں شبے کا اظہار کرنا ہوتا ہے میں اپنی بات پر اگرچہ ڈٹا رہتا ہوں چند صورتوں میں سن اور دن کی غلطی البتہ بہت عیاں تھی اس کا کھلے دل کے ساتھ اعتراف کرنے میں کبھی شرمساری محسوس نہیں ہوتی۔ ان افراد کا بلکہ شکر گزار محسوس کرتا ہوں جنہوں نے میری تصیح فرمانے کا تردد کیا۔

فیس بک اور ٹویٹر پر ہمارے ہاں ایک مخصوص جماعت کی محبت میں مبتلا طفلان کا ایک غول بھی ہے جسے ہر صورت مجھے بُرا بھلاکہنا ہوتا ہے۔ ”جدید“ خیالات کے فروغ میں اپنے تئیں مصروف اس جماعت کے تنخواہ دار ٹرول ہیں۔ ان کی موجودگی کا سراغ میں نے ا ٓج سے کئی برس پہلے لگایا تھا۔ ان دنوں مغلظات کی بمباری لاہور کے ایک ایسے دفتر میں بنائے ”ہیڈکوارٹر“ سے ہوا کرتی تھی جس کا بظاہر تعلق چینی کے ایک بڑے کارخانے سے تھا۔ ہمارے ہاں اشتہارات کے دھندے سے وابستہ کئی نابغوں کو بھی مذکورہ سیاسی جماعت سے بہت محبت ہے۔ وہ جدید ترین ذرائع کے ذریعے اس کا پیغام بہت دھانسو انداز میں پھیلاتے ہیں۔ عموماً یہ انداز اشیائے صرف کے کسی برانڈ کو متعارف اور مشہور کروانے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ چند سیاسی جماعتوں نے مگر اس انداز کی اہمیت کو سمجھا اور اپنے رہ نما یا جماعت کو ایک پراڈکٹ کی صورت لانچ کردیا۔ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے لئے رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے ریگولر اور سوشل میڈیا پر یہی انداز بنایا گیا تھا۔

بریکزٹ Brexit کی کامیابی کے بعد ڈونلڈٹرمپ نے بھی اس انداز کی باریکیوں کو خوب سمجھا۔ سفید فام اکثریت کے دلوں میں کئی دہائیوں سے موجود تعصبات کو انتہائی ڈھٹائی سے بیان کرنے کی روایت متعارف کروائی اور اشرافیہ کے خلاف عام لوگوں کے دلوں میں پلتے غصے کو ووٹ کی قوت میں بدلتے ہوئے خود وائٹ ہاؤ س تک پہنچ گیا۔

مجھ ایسے صحافیوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے ”لفافہ“ ثابت کرتے ٹرولز کو مگر ووٹ اکٹھا کرنے والے ہنر کی ابھی تک سمجھ نہیں آئی ہے۔ ان کی ”تخریب“ میں ”تعمیر“ کے امکانات پیدا ہوکر ہی نہیں دے رہے۔ چند بچوں اور بچیوں کا روزگار اگرچہ ”سوشل میڈیا ٹیم“ کے نام پرچل رہا ہے۔ ہماری ریاست کے چند دائمی ادارے بھی ایسی ٹیمیں بنانے پر مجبور ہوگئے ہیں ان کی بدولت ہم ”ملک دشمن“ خیالات کی یلغار سے خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ ٹرمپ کی افغانستان کے تناظر میں حال ہی میں ہوئی تقریر ہمیں پریشان نہیں کرتی ہمیں بتایا گیا کہ امریکہ ہم سے پنگا لینے سے پہلے سو بار سوچنے پر مجبور ہے کیونکہ چین تو اپنا یار ہی تھا اب روس بھی ہمارے ساتھ ”سٹ پنجہ“‘ کرنے کو مرا جارہا ہے۔ ایران کو بھی بالآخر ہمارے ساتھ ہی کندھے ملاکر کھڑے ہونا پڑے گا۔ ٹرمپ کے بعد مگر BRICS نے بھی چین ہی کے ایک شہر سے مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا۔ روہنگیا مسلمانوں پر ٹوٹے کوہِ غم نے لیکن ہمیں اس کے بارے میں پریشان ہونے سے بچالیا۔

بہرحال، میں بات کررہا تھا اس ”فیڈبیک“ کی جو مجھے اس کالم کی بابت سوشل میڈیا کے ذریعے نصیب ہوتا ہے اگرچہ اہمیت میری نظر میں ان تبصروں کی بہت زیادہ ہوتی ہے جو برقی مراسلوں کے ذریعے موصول ہوتے ہیں۔ گزشتہ جمعے کی صبح جب اپنا ای۔ میل اکاؤنٹ کھولا تو ایک صاحب نے ”کالم“ کے عنوان سے اپنی رائے بھیجی ہوئی تھی۔ اس صبح شائع ہونے والا کالم6 ستمبر1965ءکی جنگ سے جڑی میری چند یادوں پر مشتمل تھا میں نے بہت دیانت داری سے تصور کیا کہ شاید اسی حوالے سے کوئی نئی بات میرے علم میں لانے کی کوشش ہوئی ہوگی۔ بہت اشتیاق سے لہذا اس میل کو کھول لیا۔ یہ برقی مراسلہ لکھنے والے نے مگر ”چٹی داڑھی والے“ کہنے کے بعد پنجابی کا ایک لفظ لکھ کر مجھے مخاطب کیا جو دلال صفت لوگوں کے لئے گالی کی صورت استعمال کیا جاتا ہے۔

مجھ سے مخاطب ہونے کے بعد سوال ہوا کہ ”تم اپنے ۔ ۔ ۔ ۔ کی کرپشن کے بارے میں منہ کب کھولو گے؟ “ حوالہ صاف لفظوں میں نواز شریف اور ان کے خاندان کا دیا گیا تھا۔ عرصہ ہوا میں نے سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی مغلظات کو برداشت کرنے کا ڈھنگ سیکھ لیا ہے۔ 6 ستمبر1965ءکی جنگ سے جڑی یادوں کے بارے میں لکھے کالم والے روز ایسی گالیاں موصول ہونا البتہ عجیب محسوس ہوا۔ سنجیدگی سے میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ شاید مراسلہ نگار یہ چاہتا ہے کہ جب تک نواز شریف کو ”عبرت کا نشان“ نہ بنادیا جائے، مجھے کسی اورموضوع پر لکھنے سے اجتناب برتنا چاہیے۔

مراسلہ نگار کی اس جنون جیسی خواہش کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں تھوڑی تحقیق کی طرف مائل ہوگیا۔ انٹرنیٹ ہی کی چند ایپس کے ذریعے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ مراسلہ نگار جن کا نام ”راحت“ سے شروع ہوتا تھا۔

درحقیقت کون ہیں وہ ہمارے معاشرے کے عمر، آمدنی اور تعلیم کے حوالے سے کس بریکٹ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ فرض کیا کہ وہ بریکٹ تعداد کے اعتبار سے کسی مضبوط سیگمنٹ کی نمائندہ ہوتی تو میں اپنے کالم کے موضوعات چنتے وقت اس کی رائے کو فوقیت دینے پر مجبور ہوجاتا۔ میری بدنصیبی کہ مجھے مغلظات بھیجنے والے یہ مراسلہ نگار پاکستان نہیں امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کے Fresno میں مقیم ایک ڈاکٹر ثابت ہوئے۔ اپنی مشہوری کے لئے انہوں نے ایک ویب پیج بھی بنارکھا ہے۔ اس میں وہ اپنے نام کے ساتھ ”راحت“ استعمال نہیں کرتے۔ بہاولپور سے ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کی ہے میرے جاسوسوں نے یہ پتہ بھی چلالیا ہے کہ آبائی تعلق ان کا سیالکوٹ سے ہے۔ خود کو وہ مریضوں کی Hospital Based Support فراہم کرنے کا ماہر قرار دیتے ہیں۔ لوگوں کو Well Being یعنی ”راحت“ بہم پہنچانا انہوں نے اگرچہ اپنی حیات کا مقصد بیان کر رکھا ہے مجھ ایسے کالم نگاروں کو مغلظات بھرے مراسلے شاید ان کی نظر میں لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں اور راحت فراہم کرنے کا باعث ہوسکتے ہیں۔

ایسے دو نمبر کے ”راحت فروشوں“کو وہ جسے پنجابی میں ”بُرے کو بُرے کے گھر تک پہنچانا“ کہتے ہیں لاہور کی گلیوں میں پیدا ہوکر بڑے ہوئے مجھ ایسے فارغ شخص کو خوب آتا ہے میں نے اس کی جانب سے لکھے مراسلے کو فیس بک اور ٹویٹر کے ذریعے برسرعام کردیا۔ اس نے اپنی مشہوری کے لئے جو ویب پیج بنارکھا تھا اسے بھی منظرِ عام پر لے آیا۔ اس شخص نے گھبراکر اسے فوراً انٹرنیٹ سے ہٹادیا تھا۔

ہسپتالوں میں مریضوں کو راحت پہنچانے کا دعوے دار اپنے مراسلوں میں ایسی زبان لکھے جو مجھ سے مخاطب ہونے کے لئے استعمال ہوئی تھی تو یہ استعمال امریکہ میں Cyber Bullying شمار ہوتا ہے اپنی انتہائی صورتوں میں یہ Bullying سنگین جرم میں بھی تبدیل ہوجاتی ہے۔ Hospital Based” راحت“ کا بندوبست فراہم کرنے کا دعوے دار ”راحت“ اپنے بارے میں اس تصور کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ اس کا دھندا بلکہ چوپٹ ہوسکتا ہے۔ اسی لئے اس نے فرار میں عافیت تلاش کی مجھے امید ہے کہ چند روز بعد وہ اپنے نام اور تصویر کو ذرا بدل کر اپنے Hospital Based Services والے دھندے کا نیا ویب پیج بنالے گا۔ فی الحال اگرچہ وہ گمنامی میں پناہ لئے ہوئے ہے۔ انٹرنیٹ پر حق وصداقت اور شجاعت کی علامت بنے بڑھک بازوں کی اصل اوقات بس اتنی ہوا کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).