عمران خان کے قطری خط پر سنگین سوالات


پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے سپریم کورٹ میں بنی گالہ کی زمین کی خریداری کی منی ٹریل ثابت کرنے کے لئے پیش کیے گئے راشد خان کے ایک خط اور اس خط سے منسلک بینک کی ریمیٹینس کی دستاویزات راشدخان کی جانب سے ان ہی برسوں کے دوران جمع کرائے گئے سالانہ ٹیکس ریٹرن سے مطابقت نہیں رکھتے۔

300  کنال پر مبنی بنی گالہ کی خریداری کے لئے منی ٹریل کی گمشدہ کڑیوں کو مکمل کرنے کے لئے عمران خان نے سپریم کورٹ میں ایک خط جمع کرایا تھا جو اسلام آباد کے ایک دولت مند تاجر راشدعلی خان کا تھاکہ انہوں نے سال 2002 اور 2003 میں جمائما خان کی جانب سے بیرون ملک سے بھیجی گئی کچھ رقم وصول کی تھی جسے اسی سال بنی گالہ میں زمین کی خریداری کے لئے کی جانے والی ادائیگیوں کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔

عمران خان نے استدعا کی تھی کہ یہ انتظام اس وجہ سے کیا گیا تھا کہ وہ بین الاقوامی سفر میں مصروف تھے جسے ان کے مخالف وکلا نے چیلنج کیا تھا۔ اس کے بعد عمران خان کو ان کے پاسپورٹ کی نقول فراہم کرنے کا حکم دیا گیا۔ راشد علی خان کو پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے بعد خیبر بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا رکن تعینات کیا گیا تھا۔

راشد خان کے خط کے ساتھ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے سٹی بینک پاکستان کے جاری کردہ دو خط بھی منسلک کیے ہیں جو خط پر تحریر تاریخ کے مطابق 16 دسمبر 2003 اور 7 جنوری 2004 کو جاری کیے گئے تھے۔ 16 دسمبر 2003 کو سٹی بینک کی جانب سے راشد علی خان کو ایک خط جاری کیا گیا جو بینک کے ریلیشن شپ افسر عباس آفریدی نے جاری کیا تھا، سپریم کورٹ میں جمع کرایا گیا، اس اکاؤنٹ میں مندرجہ ذیل رمیٹنس وصول کی گئیں۔ 3 مارچ 2002: 700امریکی ڈالر، 41 ہزار 790 روپے۔

11 اپریل 2002 :دو لاکھ 58 ہزار 333 ڈالر، ایک کروڑ 54 لاکھ 22 ہزار 480 روپے۔ یکم اگست 2002: دو لاکھ امریکی ڈالر، ایک کروڑ 18 لاکھ 30 ہزار روپے۔ 31 اگست 2002: 45 ہزار امریکی ڈالر،26 لاکھ 55 ہزار روپے۔ 31 اگست 2002: بیس ہزار امریکی ڈالر، ایک لاکھ 80 ہزار روپے۔ 9 ستمبر 2002: دس ہزار 660 امریکی ڈالر، 6 لاکھ 27 ہزار 341 روپے۔ 5اکتوبر 2002: 16 ہزار امریکی ڈالر، 9 لاکھ 38 ہزار 400روپے۔ 19 نومبر 2002: پانچ ہزار امریکی ڈالر، دو لاکھ 90 ہزار 750 روپے۔

11 دسمبر 2002: پانچ ہزار امریکی ڈالر، دو لاکھ 90 ہزار 5سو روپے۔ 23 جنوری 2003: ایک لاکھ امریکی ڈالر، 57 لاکھ 85 ہزار روپے۔ سٹی بینک ریلیشن شپ افسر زبیر خان بنگش کے ایک اور خط بتاریخ 7 جنوری 2004 بنام راشد علی خان بھی سپریم کورٹ میں جمع کرایا گیا، اس اکاؤنٹ میں مندرجہ ذیل ریمٹنس موصول ہوئیں۔

31 جولائی 2002: دو لاکھ 75 ہزار 678 امریکی ڈالر۔ 22 جنوری 2003: ایک لاکھ امریکی ڈالر۔ 12 اپریل 2003: ایک لاکھ دس ہزار امریکی ڈالر۔ 20مئی 2003: ایک لاکھ 29 امریکی ڈالر۔ 29 جولائی 2003: بیس ہزار امریکی ڈالر۔سٹی بینک نے 2012-13 میں پاکستان میں اپنا آپریشن بند کردیا تھا۔ یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ یہ خطوط سال 2003 اور 2004 میں کیوں حاصل کیے گئے تھے اور کیوں پہلے خط میں کچھ بھیجی گئی رقم کا ذکر نہیں تھا جس کے بارے میں دعوی کیا گیا کہ وہ 16 دسمبر 2003 کو حاصل کیا گیا تھا۔

بینک اسٹیٹمنٹ اور اس طرح کے خطوط زیادہ تر سالانہ ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کے لئے حاصل کیے جاتے ہیں۔ تاہم دی نیوز نے راشد علی خان کے ان ہی برسوں میں سالانہ ٹیکس ریٹرن کو چیک کیا تو ان میں سے 90 فیصد بھیجی گئی رقم ٹیکس ریٹرن میں ظاہر نہیں ہوتی تھی۔

30 جون 2003 کو ختم ہونے والے سال کے لئے اپنے ویلتھ ری کنسیلیشن اسٹیٹمنٹ میں جو ان کے اسی سال کے سالانہ ٹیکس ریٹرن کے ساتھ منسلک ہے اور جو دی نیوز کے پاس موجود ہے، سے ظاہر ہوتا ہے کہ راشد خان نے یکم جولائی 2002 سے شروع ہونے والے سال سے 30 جون 2003 کو ختم ہونے والے پورے مالی سال کے دوران بیرون ملک سے بھیجے گئے ایک کروڑ 11 لاکھ 39 ہزار 650 روپے ظاہر کیے ہیں۔

ٹیکس ریٹرن اور اس سے منسلک اسٹیٹمنٹ میں بیرون ملک سے بھیجی گئی رقم وصول کرنے کی کوئی انٹری موجود نہیں ہے۔ جبکہ مذکورہ بالا خطوط جو عمران خان نے معزز عدالت میں جمع کرائے ہیں ان سے بیرون ملک سے بھیجی گئ رقوم کی 15 انٹریز معلوم ہوتی ہیں جن میں سے 12 ٹیکس کے سال 2003 کی ہیں۔

بنی گالہ کی زمین کی خریداری کے مسئلے پر تبدیل ہوتے ہوئے بیانات اور آخر کار ا ن مشکوک خطوط نے جن میں سرکاری دستاویز سے تضاد ہے، بنی گالہ کی زمین کی خریداری میں عمران خان کی منی ٹریل پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔

(احمد نورانی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).