اگست 2017 کی بلاسفیمی رپورٹ


دنیا بھر میں ٹیلی کمیونیکیشن کا دھماکہ خیز پھیلاؤ ترقی کا باعث بنا ہے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ نے بعض آفتیں بھی نازل کی ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی جنہوں نے مارچ میں ایک خوفناک بیان دیا تھا کہ انٹرنیٹ پر موجود بلاسفیمی شدہ مواد دہشت گردی جیسا ہے، ایک مرتبہ پھر بولے ہیں۔ اس مرتبہ انہوں نے پارلیمنٹ کو ایک ایسا قانون منظور کرنے کی ”سفارش“ کی ہے جس کے تحت بلاسفیمی کے ملزمان کا مقدمہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفاع چھ کے تحت درج کیا جائے۔

ایک ایسا حکم نامہ جو ایک ایسے پبلک سرونٹ کی جانب سے آیا ہو جو آئینی طور پر قوانین کی تشریح کا ذمہ دار مقرر کیا گیا ہو، نہ کہ اس بات کا کہ پارلیمان کو کیا قانون سازی کرنی چاہیے اور کیا نہیں، کی یہ بے سروپا سفارش کوئی قانونی یا آئینی وزن نہیں رکھتی۔ لیکن اس میں پاکستانی معاشرے کو ایک طاقتور پیغام بھیجنے کا عنصر موجود ہے کہ پاکستان کی عدلیہ (یا اس کے کچھ حصے) بلاسفیمی کے کسی ملزم کو اسی نظر سے دیکھنے کا رجحان رکھتے ہیں جس سے وہ ایک دہشت گرد کو دیکھتے ہیں۔

ایسا حکم نامہ ایک اخلاقی بحران پیدا کر دیتا ہے۔ یہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو یہ بتاتا ہے کہ ان کا مذہب خطرے میں ہے۔ یہ ایک منجمد قسم کا جذبہ نہیں بلکہ یہ ایک اشتعال کو تحریک دینے والا عمل ہے جو لوگوں کو نسل کشی کے غصے میں مبتلا کر دیتا ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب بلاسفیمی کا الزام عام طور پر بلکہ کسی استثنا کے بغیر، ملزم کو شک کا فائدہ دینے بلکہ اپنی وضاحت دینے کا موقع دینے کے قانونی طریقہ کار کو بھی تباہ کر ڈالتا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کا یہ اشارہ تشدد یا کم از کم اشتعال انگیزی کی حوصلہ افزائی کہلائے گا۔

یہ معاشرے کے ایسے طبقات کو طاقت فراہم کرتا ہے جو بلاسفیمی کے کسی بھی ملزم کے خلاف تعصب رکھتے ہیں اور اسے منصفانہ قانونی شنوائی سے محروم کرتے ہیں۔ ان میں وہ ہجوم بھی شامل ہے جو الزام کی صدا بلند ہونے پر اکٹھا ہوتا ہے، وہ تفتیشی افسر بھی جو ملزم کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں اور حکومت اور سول سوسائٹی کے وہ اراکین بھی جنہوں نے مذہبی کاروبار کے کھوکھے لگا کر اپنا کیرئیر بنایا ہوتا ہے۔

یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ جس دن جسٹس عزیز نے یہ حکم جاری کیا، اسی دن گوجرانوالہ کے ایک گاؤں میں ایک سولہ برس کے ایک لڑکے کو مشتعل ہجوم نے بلاسفیمی کے الزام میں بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بنایا۔ اسی مہینے ایک دماغی طور پر ماؤف شخص کو ٹنڈو آدم میں گولی کا نشانہ بنا دیا گیا، اور ایک مذہبی مبلغ کو فقہی اختلاف پر ہولناک انداز میں ایک پھاوڑے سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا۔

تو جناب یہ صرف اگست کا مہینہ تھا اور اس کا سکور کارڈ کیا رہا؟ بلاسفیمی کے تین واقعات، دو انسان مار دیے گئے اور دو شدید زخمی ہیں۔ ہر معاملے میں نتیجہ ایک سرفروشانہ تشدد سے نکالا گیا۔ کیا قانونی طریقہ کار اختیار کیا گیا تھا؟ نہیں۔ اگر آپ کو بلاسفیمی لا کے غلط استعمال کی مثال پیش کرنی ہو تو آپ کو اگست کے مہینے سے دور جانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ مشتعل ہجوم کا انصاف سو فیصد، قانون کا انصاف صفر فیصد۔

عوامی دائرے میں ایک ثقافتی حملہ کیا جا رہا ہے۔ مذہبی جنگ ہے، بدمعاشی ہے، اور آزادی اظہار کا سمٹتا ہوا دائرہ ہے۔ ایک نجی ادارے کراچی گرائمر سکول کے طلبا نے ایک میوزیکل کنسرٹ منعقد کیا تھا جس میں جون لینن کا نغمہء امن ”امیجن“ گایا جانا تھا۔ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی انصار عباسی نے (جو طالبان کے ہمدرد سمجھے جاتے ہیں)، ٹویٹ کیا کہ ایسا کوئی عمل بلاسفیمی کے طور پر دیکھا جائے گا۔ دوبارہ ایک اخلاقی کھلبلی مچ گئی اور انصار عباسی کے پانچ لاکھ فالوور اس کی پکار پر اسلام کو بچانے نکل کھڑے ہوئے۔ ٹویٹر ”پاکستان کے لئے صرف اسلام“ کے ہیش ٹیگ سے گونج اٹھا۔

سکول کے بچوں کی زندگی خطرے میں ڈالنے کے بعد، سکول کی انتظامیہ کو کنسرٹ کینسل کرنے پر مجبور کر دینے کے بعد، انصار عباسی نے خود پسندانہ انداز میں اپنے فالوور کو مبارک باد دی ”پر امن احتجاج“۔

ایک اوسط شخص میں اتنی دغابازی، نفرت، تشدد اور نامعقولیت موجود ہوتے ہیں جو کسی لشکر کو کسی خاص دن پر خوب تقویت دے سکے۔ سب سے ماہر قاتل وہ ہوتے ہیں جو قتل کے خلاف بولتے ہیں، اور نفرت کے سب سے بڑے داعی وہ ہوتے ہیں جو محبت کی تبلیغ کرتے ہیں اور جنگ کے سب سے زیادہ ماہر آخر کار وہی ثابت ہوتے ہیں جو امن کے پرچارک ہوں (چارلس بوکوسکی)

اس ماہ کے واقعات

 

4 اگست: ایک دماغی طور پر معذور شخص بلاسفیمی کے الزام پر مار ڈالا گیا۔ 32 سالہ عطا محمد بریرو، ایک ذہنی طور پر معذور شخص، جو بلاسفیمی لا کے سیکشن 295 سی کے تحت 2012 میں سزا پا چکا تھا اور محض پندرہ دن قبل رہا ہوا تھا، کو ٹنڈو آدم میں اس وقت گولی کا نشانہ بنا دیا گیا جب وہ نہر میں نہا رہا تھا۔ بعد میں اسی شام، دو حملہ آوروں نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا اور اقبال جرم کر لیا۔

12 اگست: اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت عزیز نے پارلیمنٹ پر زور دیا کہ وہ بلاسفیمی کے مقدمات کو انسداد دہشت گردی کے تحت سنے۔ بلاسفیمی شدہ مواد کے انٹرنیٹ پر سے ہٹائے جانے پر ایک مفصل حکم نامہ جاری کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے پارلیمنٹ کو یہ سفارش کی کہ اسے انسداد دہشت گردی ایکٹ مجریہ 1997 کے سیکشن 6 کے سب سیکشن ایف میں توسیع کر کے بلاسفیمی کے ملزمان کو اس میں شامل کرنے پر غور کرنا چاہیے۔

12 اگست: مسیحی لڑکا مبینہ بلاسفیمی کے الزام پر ایک ہجوم کی مار پیٹ کا نشانہ بنا اور گرفتار ہوا۔ سولہ برس کے مسیحی لڑکے آصف کو ایک ہجوم نے اس وقت بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا جب اس پر وزیرآباد کی ایک درگاہ کے باہر قرآن مجید کے صفحات کو جلانے کا الزام لگایا گیا۔ جب پولیس نے ملزم کو حراست میں لیا تو دو سو افراد کا ایک ہجوم پولیس چوکی کے باہر جمع ہو گیا اور مطالبہ کرنے لگا کہ اس لڑکے کو ان کے حوالے کر دیا جائے، جس کے بعد اس لڑکے کو ایک دوسرے تھانے میں منتقل کر دیا گیا۔ آصف پر پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 295 بی کے تحت پرچہ درج کیا گیا جس کی سزا قرآن مجید کی توہین کے جرم میں عمر قید ہے۔ اس پر مقدمہ چلے گا۔

14 اگست: برطانوی ممبران پارلیمنٹ نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ بلاسفیمی لا کو ختم کر دیں۔ پاکستان کی سترویں سالگرہ کے موقع پر برطانوی پارلیمنٹ کے 24 اراکین نے پاکستان کے صدر اور وزیراعظم پر زور دیا کہ وہ بلاسفیمی لا کو ختم کر دیں جو تعصب دکھانے کا ایک حربہ رہا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی سترویں سالگرہ کے موقعے کو استعمال کرتے ہوئے اسے ابتدائی تصور کو واپس لانے کو کہا یعنی ایسی قوم جو ”اکٹھے جڑنے، روشن خیالی اور آزادی، جہاں مذہبی آزادی بنیاد تھی“ کے تصور پر قائم ہو۔

16 اگست: امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے اپنی رپورٹ میں پاکستان کو مذہبی عدم رواداری کے مظاہرے میں 71 ممالک کی فہرست میں سے دوسرے نمبر پر رکھا۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے 71 ممالک کا تقابل کیا جن میں بلاسفیمی لا کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں اور ان ممالک کو مذہبی عقیدے اور اس کے اظہار کی آزادی کی بین الاقوامی اقدار سے تحریف کے معاملے میں پرکھا۔ ایران اس فہرست میں پہلے نمبر پر تھا اور پاکستان دوسرے۔ پہلے پانچ ممالک مسلم اکثریتی تھے۔

16 اگست: تبلیغی جماعت کے ستر سالہ مبلغ کو مسلکی اختلافات پر قتل کر دیا گیا۔ تبلیغی جماعت کے ستر سالہ رکن ولی الرحمان، دو بھائیوں اکرام اور عمران خان کے گھر اسلام کی تبلیغ کی نیت سے گئے۔ اس دوران اختلافی عقائد پر ایک بحث پھوٹ پڑی۔ اسی دن بعد میں دونوں بھائی مسجد پہنچے جہاں تبلیغی جماعت ٹھہری ہوئی تھی اور ان پر پھاوڑوں سے حملہ آور ہو گئے جس کے نتیجے میں ولی الرحمان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ان کا ایک ساتھی شدید زخمی ہو گیا۔ اکرام کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ اس کا بھائی مفرور ہے۔

25 اگست: جون لینن کا ”امیجن“ گانے کا ارادہ ”مذہب دشمن“ الفاظ پر تنقید کے باعث منسوخ کرنا پڑا۔ کراچی کے ایک سکول نے طلبا کے ”امیجن“ نامی گانے کا ارادہ اس وقت منسوخ کر دیا جب یہ شکایات موصول ہوئیں کہ یہ الحاد کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ 1971 کا یہ مشہور گانا جان لینن کا گایا ہوا امن کا ایک قصیدہ تھا۔ سکول کی انتظامیہ نے یہ فیصلہ مشہور قدامت پسند صحافی انصار عباسی کی اس ٹویٹ کے بعد کیا جس میں اشارہ کیا گیا تھا کہ وہ پاکستان کے سخت بلاسفیمی لا کا نشانہ بن سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).